تحریر: ممتاز اعوان پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات میں کشمیر کا مسئلہ گول کر گئے، مشترکہ اعلامیہ میں68 سال پرانے مسئلے کا ذکر تک نہیں، دونوں وزرائے اعظم میں سرحد عبور کرنے والوں کی پندرہ دن میں رہائی، دہشتگردی کے خاتمے میں تعاون ، ممبئی کیس آگے بڑھانے اور سرحدی فوجی حکام کی میٹنگز پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف اور نریندر مودی کی روس میں ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے دہشتگردی کی ہر شکل میں مذمت کرتے ہوئے اس کے خاتمے کیلئے باہمی تعاون پر اتفاق کیا۔
دہشتگردی سے متعلق معاملات پر بات چیت کیلئے دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیر دہلی میں ملاقات بھی کریں گے ، ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں کمی کیلئے بھارتی بارڈر سیکورٹی فورسز کے ڈائریکٹر جنرل اور ڈی جی پاکستان رینجرز کے جلد اجلاسوں اور ڈی جی ملٹری آپریشنز کے باہم روابط پر بھی اتفاق کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک ایک دوسرے کے ماہی گیروں کو پندرہ روز میں کشتیوں سمیت رہا کرنے پر رضا مند ہوگئے۔
سیاحت آسان بنانے کیلئے طریقہ کار بھی وضح کیا جائے گا ، دونوں ممالک نے ممبئی حملہ کیس وائس سیمپلز کی صورت میں معلومات کی فراہمی پر بھی اتفاق کیا ، امن اور ترقی کے فروغ کو مشترکہ ذمہ داری بھی قرار دیا گیا ہے۔ اعلامیے میں پاکستان اور بھارت نے تمام تصفیہ طلب مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے تاہم اس میں مسئلہ کشمیر کا کوئی ذکر نہیں۔ اعلامیے کے مطابق نواز شریف نے نریندر مودی کو اگلے برس پاکستان میں ہونیوالی سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کی بھی دی جسے انہوں نے قبول کرلیا۔ نواز مودی ملاقات موجودہ حالات کے تناظر میں اہم ہے لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے،ملاقات اور مذاکرات اپنے ایجنڈے پر ہی رکھنا چاہتا ہے۔
Terrorism
یہ رویہ مذاکرات یا کسی ڈپلومیسی کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔وزیراعظم نواز شریف نے ملاقات سے پہلے اور ملاقات کے موقع پر واضح اوردو ٹوک موقف سے گریز کیا ۔یہ موقع تھا کہ بھارتی جارجیت ،پاکستان میں دہشتگردی میں بھارتی کردار،مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے نریندر مودی سے صاف بات کی جاتی۔ اب وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ ،پاک چائنہ اکنامک کاریڈور کی طرح بھار ت سے تعلقات ،مذاکرات اور علاقائی مسائل کے حل کے لیے قومی اتفاق رائے کی پالیسی اختیار کی جائے۔وزیراعظم نواز شریف تنہا بھارتی جھوٹی نمائشی سفارتکاری کے جال میں نہ پھنسیں یہ وقت پاکستان کے مضبوط موقف کے اظہار کا ہے۔
نوازشریف مودی مذاکرات کے مشترکہ اعلامیے سے کشمیر نظر انداز کرناافسوسناک ہے۔ مسئلہ کشمیرکوبالائے طاق رکھ کرپاک بھارت مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ مودی نواز شریف مذاکرات پر مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کو نظر انداز کرنا افسوس ناک ہے مودی کے پاکستان کے دولخت کرنے کی بھارتی سازش کے اعتراف اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ”را” کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت ملنے کے باوجود مودی سے اس کی جواب دہی نہ کرنا اور الٹا اسے دورہ پاکستان کی دعوت دینا شرمناک ہے مضبوط وکٹ پر ہونے کے باوجود نواز شریف کمزور کھیلے قوم کو شرم سار اور کشمیریوں کو مایوس کیا۔
اس سے قومی غیر ت داغ دار ہوئی اعلامیہ ہندوستان کے ساتھ رعایت کی انتہا ہے اس میں ممبئی کے واقعے کا ذکر تو ہے مگر سمجھوتہ ایکسپریس کا کوئی تذکرہ نہیں نہ ہی بلوچستان کراچی اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی کا کوئی ذکر ،انڈیا کے ساتھ مذاکرات کے لیے بے چینی کا یہ عالم ہے کہ دہلی میں پاکستانی کونسلر جنرل کی طرف سے حریت قیادت کے اعزاز میں دی جانے والی طے شدہ افطار پارٹی بھی منسوخ کر دی گئی کہیں انڈیا ناراض ہو کر گذشتہ مذاکرات کی طرح اس بار بھی مذاکرات سے انکار نہ کر دے یہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ وزیراعظم پاکستان کے نریندر مودی سے ملاقات کے دوران معذرت خواہانہ رویے سے قوم میں اضطراب اور تشویش ہے، مشترکہ اعلامیہ میں ممبئی حملوں کی تحقیقات کا ذکر ہے بلوچستان میں ”را ”کی دہشتگردی کے خاتمہ کا ذکر کیوں نہیں۔وزیراعظم نے نریندر مودی سے پوچھا کہ آپ پاکستان توڑنے کی سازش میں پیش پیش کیوں تھے؟ ”را” بلوچستان میں دہشتگرد گروپوں کی مالی تکنیکی سپورٹ کیوں کررہی ہے؟ بھارت اقتصادی کوریڈور کے منصوبے کو ختم کرنے کے درپے کیوں ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کیوں نہیں ہو رہیں۔
Syed Ali Gilani
بھارت کی بارڈر، سکیورٹی فورسز آئے روز بلا اشتعال فائرنگ کر کے ہمارے جوانوں اور سویلین شہریوں کو شہید کیوں کررہی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ماہی گیر اور کشتیاں چھوڑنے کے معاہدوں سے پاک بھارت تعلقات معمول پر نہیں آئینگے اس کیلئے ضروری ہے بھارت مروجہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کرے اور وزیراعظم پاکستان معذرت خواہانہ رویہ ترک کریں۔ حریت کانفرنس(گ) کے سربراہ سید علی گیلانی نے پاک بھارت مذاکرات کی بحالی کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان مذاکرات سے کسی بڑی پیش رفت کی امید نہیں کی جانی چاہئے۔یہ مذاکرات بین الاقوامی دبائو کی وجہ سے ممکن ہوئے۔ہندوپاک نے1947سے اب تک کشمیر پر 150مرتبہ بات چیت کی اور یہ اب روایت بن چکی ہے۔ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ دو ممالک کے درمیان مذاکرات اْس وقت تک فضول ہیں جب تک کشمیریوںکے جذبات اور قربانیوں کا احترام کیا جائے۔
لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک نے ہندو پاک وزرائے اعظم کے مابین بات چیت کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ کو کشمیریوں کیلئے مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہاکہ مذاکراتی عمل سے ہی دنیا کے مسائل حل ہوتے ہیں لیکن کشمیر کے حوالے سے اس عمل کو اس قدر غیر سنجیدہ بنایا گیا ہے کہ لوگوں کااس پر سے اعتبار ہی اْٹھ گیا ہے۔ جنگ و جدل کسی مسئلے کا حل نہیں ہواکرتے بلکہ دنیا کے جملہ مسائل کا حل بہرحال مذاکراتی عمل سے ہی نکالنا ممکن ہوتا ہے۔لیکن مذاکراتی عمل کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ یہ سنجیدہ ہو اور اس کا ہدف مسائل کے حل کی نیت ہو ‘نہ کہ وقتی تفریح یا پھر اصل مسائل سے منہ پھیر کر وقت نکالنے کا بہانہ۔ کشمیری بھارت و پاکستان کے درمیان صلح سمجھوتے کے خلاف نہیں ہیں نا ہی ہم ان دونوں ملکوں کے درمیان باہمی مسائل پر گفتگو کے خلاف ہیں لیکن ان دونوں ممالک کے لیڈران کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ان کے مابین لڑائی اور صلح کا براہ راست اثر کشمیریوں پر پڑتا ہے اسلئے یہ دونوں ملک جموں کشمیر کے کروڑوں لوگوں کو یرغمال رکھ کر آگے کا سفر طے نہیں کر سکتے۔