مصطفے آباد/للیانی (ناصر سندھو سے) کسان ملکی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔پنجاب حکومت کو کسان برادری کی بنیادی ضرویات اور درپیش مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ آصف سندھو۔ گندم اور چاول کی دو موسمی فصلوں سے کسان برادری مسلسل خسارے میں ہے۔
مکئی، آلو و دیگر فصلوں سے بھی کسانوں کو مالی فوائد حاصل نہیں ہو رہے۔ٹھیکہ پر زمین حاصل کر کہ کاشت کرنے والے کسانوں کے ساتھ ساتھ گزشتہ دو سالوں سے ملکیتی زمینوں کے حامل کسان بھی پریشان حال ہیں۔ جب یوریا کھاد 800روپے فی بوری، ڈی اے پی کھاد 1800 روپے اور زمیں کا ٹھیکہ 12000روپے فی ایکڑ تھا اس وقت گندم کا ریٹ 950روپے فی من تھا۔اور سُپر چاول(مونجی) 1500 تا 1700 روپے فی من فروخت ہوتی تھی۔
حالیہ دور میں ڈیزل سمیت کھادیں ،ڈی اے پی اور زمینوں کے ٹھیکے تین گُنا ہو چکے ہیں لیکن کسان کی فصل اُسی بھائو میں فروخت ہوتی ہے۔یہ صورتحال کسان کا مُعاشی قتل عام کرنے کے مترادف ہے۔ان خیالات کا اظہار صدر کسان ایسوسی ایشن مُصطفٰے آباد للیانی چوہدری محمد آصف سندھو نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 80%کسان طبقہ ہے جن کی بنیادی ضروریات اور مسائل کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ اگر کسانوں نے فصلیں کاشت کرنا چھوڑ دیں تو بڑے بڑے انڈسٹری اور مل مالکان سڑکوں پر آ جائیں گے کیونکہ کسان اگر خوشحال ہو گا تو کاروباری مراکز اور بڑی بڑی مارکیٹوں میں وہی چمک دمک اور رونقیں بحال ہوں گی۔انہوں نے پنجاب حکومت سے کسانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی اپیل کی ہے