تحریر: محمد راشد مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال گہرے مطالعہ اور مسلمانانِ برصغیر کے حالات دیکھ کر اس نقطے پر پہنچے کہ مسلمانوں کے لیے برصغیر میں الگ وطن حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں۔دسمبر 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد میں آپ نے بصیرت افروز خطاب کے ذریعے مسلمانوں کے لیے نظریاتی اساس کومتعین کردیا جس پر آگے چل کر مسلمانانِ ہند کی جدوجہد آزادی استوار ہوئی اور سترہ سال کے عرصے میں انہوں نے پاکستان کی منزل کو پالیا۔ مسلمانانِ برصغیر کی نظریاتی آواز نے شرق وغرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ انگریزوں اور ہندؤوں کی ملی بھگت سے تنگ مسلمانوں میں آزادی کی انگڑائیاں لینے لگی۔ 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ لاہور منٹوپارک میں پیش ہوئی جو بعد میں قراردادِ پاکستان کہلائی ۔دو قومی نظریے اور لاالٰہ الااللہ کے نعرے پرپورے برصغیر کے مسلمان ایک جان ہوگئے۔
نظریے کی قوت کو اجاگر کرتے ہوئے قائداعظم محمدعلی جناح نے علی گڑھ یونیورسٹی میں طلبا کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”پاکستان اسی دن معرض وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہواتھا” پھر 17نومبر 1945ء کو بابائے قوم نے ایڈورڈ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:”ہم دونوں قوموں میں صرف مذہب کافرق نہیں،ہماراکلچر ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ہمارا دین ہمیں ایک ضابطہ حیات دیتاہے جوزندگی کے ہرشعبے میں ہماری رہنمائی کرتاہے۔ ہم اس ضابطے کے مطابق زندگی بسر کرناچاہتے ہیں” پھر یہ بھی کہا کہ ہم مسلمانوں کے لیے الگ وطن اس لیے حاصل کرناچاہتے ہیں تاکہ ہم ایسی تجربہ گاہ حاصل کرسکیں جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو پرکھ سکیں۔
ابوریحان محمدبن احمدالبیرونی ایک عرصہ تک تحقیق کرتے رہے ۔اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”کتاب الہند” میں لکھتے ہیں ”ہندو غیروں کو ملیچھ سمجھتے ہیں۔جو شخص ان کی قوم میں سے نہیں ،اسے اپنے اندرداخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ ایسی حالت ہے جو ان کاہر دوسری قوم سے رشتہ توڑ دیتی ہے”۔پھروہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود دو الگ الگ دھاروں کی طرح اپنی اپنی رہ پر چل رہے ہیں۔ نظریہ قوموں کی زندگی ہوتاہے۔ جن کے پاس نظریہ حیات نہیں ہوتا وہ معاشرے کھوکھلے ہوتے ہیں اوروہاں اتحاد نہیں ہوتا ۔آخر وہ متحدہوں تو کس بات پر، کیونکہ دنیاکاکوئی ملک ایسانہیں جہاں علاقائی رواج اورزبانیں نہ ہوں ۔جہاں پورا ملک ایک قبیلے اورنسل سے تعلق رکھتاہو۔ ایک ملک میں تھوڑا فاصلہ طے کرنے کے بعدزبان،رسم ورواج اور رہن سہن تبدیل ہوجاتاہے۔ ان ساری تبدیلیوں کے باوجود نظریہ ایک ایسی قوت ہے جو آپس میں جوڑے رکھتاہے۔
Two Nation Theory
ہم اگر غورکریں کہ ہمیں مشرقی پاکستان سے جوڑ اور ملاکر رکھنے والا نسخہ کیمیا کون ساتھا؟ ان سے ہمارا زمینی رشتہ سرے سے نہیں تھا۔ ہمارا اور ان کا فاصلہ ہزاروں کلومیٹرتھا،رنگ ،نسل ،زبان، علاقہ،رسوم ورواج، بود و باش سمیت ہم اور وہ ہرلحاظ سے الگ تھے۔ ہمیں اورانہیں ملاکر اکٹھار کھنے والا نسخہ کیمیا صرف اسلام اور دوقومی نظریہ تھا، جس کی بنیاد پر ہم نے مل کر یہ ملک حاصل کیا۔ نظریہ کی بنیاد پرمعرض وجودمیں آنے کے بعد پاکستان کوجتنی بھی مشکلات سے گزرنا پڑا’مسلمانوں نے ہنسی خوشی سب کچھ برداشت کرلیااور اس پر صبرکر لیا کیونکہ یہ مفادات کی جنگ نہیں تھی۔قربانی اورحب الوطنی کاجذبہ روحوں میں رچابساتھا۔ مہاجرآئے توانہیں خندہ پیشانی کے ساتھ خوش آمدید کہا۔لٹے پٹے قافلے پاکستان کی سرزمین پرجب پہنچتے تو میزبانوں کااستقبال دیکھ کران کے دکھ اور سفرکی تھکان کافور ہوجاتی۔جوں جوں ہم اپنی اساس سے دور ہوتے گئے توخلا پیداہوتاگیا۔دشمن پہلے سے اس بات کی تاک میں تھا کہ کوئی موقع ملے اور وارکیاجائے۔ اس کو موقع مل گیا اور اس نے پوری قوت کے ساتھ وار کیا۔ جنگیں بھی مسلط کیں اور ہمیں فکری طور پر بھی کمزور کرتارہا۔
مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کی ذہن سازی کی گئی۔ہمارے حقوق اسلام آباد کھارہاہے۔یہاں کے وسائل کہیں اور استعمال کیے جارہے ہیں۔ فوج تم پر ظلم کررہی ہے۔ مکتی با ہنی قائم کی گئی ۔تعلیمی اداروں میں باقاعدہ مغربی پاکستان سے دشمنی نوجوان نسل کے ذہن میں انڈیلی گئی۔یہ زہراتناپھیل گیا جو مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کی رگوں تک اترگیا۔ اس کااثراتناگہراتھا کہ کوئی تریاق کارگر نہ ہوا۔ جب فکری طورپر منتشر کردیاگیا تودشمن نے فوج چڑھا کر اپنے ارادے کو پایۂ تکمیل تک پہنچادیا۔ مسلمان بڑی معصومیت کے ساتھ چالاک اور عیار دشمن کے ہاتھوں یرغمال بن گئے۔ اندراگاندھی نے کہاہم نے نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں بہادیا۔ پچھلے دنوں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی بنگلہ دیش گیااور وہاں جاکر حقیقت کو مزید آشکارکیاکہ بنگلہ دیش کی آزادی میں ہندوستان کابھی حصہ ہے۔ ہندوستانی فوج مکتی با ہنی کے ساتھ مل کر لڑی۔ بھارت نے پاکستان کو دوٹکڑے کرنے کی اپنی خواہش کو پوراکیا۔نریندرمودی نے مزیدکہاکہ وہ 1971ء میں مکتی با ہنی کی حمایت میں ستیہ گرہ تحریک میں بطورِ نوجوان رضاکار شرکت کے لیے دہلی آئے تھے۔
بنگلہ دیش کے وہ لوگ جوپاکستان کواکٹھارکھنے کے حق میں تھے ،ان کے خلاف حسینہ واجد حکومت کی طرف سے جاری کریک ڈاؤن کی بھی حمایت کی۔ اس کے ساتھ محب وطن پاکستانیوں کے زخموں کوتازہ کرنے کے لیے اس دور کے دوران وہ تصویریں یادگاری طورپر پیش کی گئیں جس میں 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی جنرل نے ہتھیار ڈالے تھے۔ ”اس دورے کے بعد اور خبث باطن کے بالکل واضح ہوجانے کے بعد بھی اگر ہم دوستی کے نشے میں مدہوش رہیں تواس سے بڑی بدقسمتی کوئی نہیں۔یہ خودکشی کے مترادف ہوگا۔ہمارے بہت سارے دانشور شاید اب بھی دوستی کے لیے تاویلیں کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو لاشعوری طورپردشمن کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں یا پھر یہ دشمن کے ہاتھوں اپنی قیمت وصول کررہے ہیں۔ایسے لوگوں کو نظریہ، مسلمانوں اور پاکستان سے کوئی غرض نہیں ہے،یہ توصرف اپنے پیٹ کو پالنے کے چکروں میں ہیں،اس کے لیے چاہے یہ وطن دشمن کے ہاتھوں بچنا کیوں نہ پڑے۔”
Raw
انڈیایہ سب کچھ کروانے کے بعدرک نہیں گیابلکہ اس نے اپنی تخریب کاریوں کے دائرے کو مزید وسیع کردیا۔ خاص طورپر جب سے امریکہ بہادر ہمارے پڑوس افغانستان میں آکر بیٹھا، تب سے اس کی خباثتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں ہیں۔ہمیں نقب لگانے کے لیے ہر راستے اور آپشن کو استعمال کیاگیا۔ ہمیں نظریاتی طور پر مزید کمزور کرنے کے لیے اب بھی بھارت اپنی ایجنسی”را” اور اپنے زرخریدوں کواستعمال کر رہا ہے۔ پانی کے مسئلے کوکھڑا کرکے پورے ملک میں تقسیم پیداکی جارہی ہے۔ انڈیانے ایک توہمارے دریاؤں پرڈیم بناکر ہمارے پانی کو روکااور دوسری طرف پاکستان میں بہنے والے ڈیموں کے منصوبوں متنازعہ بنوادیا۔ اس کام کے لیے اس نے باقاعدہ بجٹ مختص کررکھے ہیںجس کے نتیجے میں پاکستان میں توانائی کابحران پیداہوگیا۔اگرہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو یہ صورتحال گھمبیر ترہوتی جائے گی۔ کالاباغ ڈیم ہی نہیں بلکہ ہمیں پانی کے کئی اور منصوبوں کومکمل کرناہے تاکہ ہم اپنے ملک کی توانائی کی ضروریات کوپورا کرسکیں۔
پھرصوبائی اورلسانی مسائل کوہوادی جارہی ہے ۔پنجابی اورسندھی کامسئلہ…اسی طرح مہاجر اور غیرمہاجر کامسئلہ کھڑا کیاجارہاہے۔ دشمن یہ چاہتا ہے کہ ہم ان معاملات میں الجھتے ہی جائیں اور اپنی اصل کوبھلادیں۔ اس کے لیے ہندوستان نے پاکستان سے کچھ لوگوں کو لیا،پھر ان کی تربیت کی اور یہ پاکستان کے لوگ پاکستان کے خلاف ہی استعمال ہونے لگے۔ ان کو پاکستان میں تباہی پھیلانے کے لیے اسلحہ وبارود اورہرطرح کے ہتھیاروں سے لیس کیاگیا۔بھارت پوری دنیامیں پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلوانے کے لیے ایڑھی چوٹی کازور لگاتا ہے لیکن حقیقت بات یہ ہے کہ وہ اپنے مکروہ چہرے اور سیاہ کاریوں کو چھپانے کے لیے یہ سارے جتن کرتاہے۔ پاکستان کی معاشی خوشحالی اسے کسی طرح ہضم نہیں ہوتی۔ پاک چین اکنامک کوریڈور پروہ سرپیٹ رہاہے۔کہتاہے جہاں سے یہ رستہ گزرے گا وہ متنازعہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انڈیا نے پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے جو بیسیوں ڈیم بنائے کیاوہ علاقہ متنازعہ نہیں ہے۔
India
انڈیاان ڈیموں کو ہمارے لیے واٹربم کے طور پر استعمال کررہاہے۔ 2014ء میں ان ڈیموں کے جمع شدہ پانی سے جو تباہی ہوئی اُسے ہمیں ضرور یاد رکھنا چاہیے۔ابھی انڈیا نے کہا ہم نے برما پر حملہ کیاہے کیونکہ اس علاقے سے انڈیا میں تخریب کاری ہورہی تھی، ساتھ یہ چٹکلہ چھوڑ دیا کہ ہم اپنے دفاع کے لیے یہ کام کسی جگہ بھی کرسکتے ہیں۔ا ن کااشارہ پاکستان میں حملہ کرنے کاتھا۔ وقت آگیاہے کہ ہم اپنے نظریاتی دشمن کو کھلاپیغام دیں۔اگروہ تیاری کررہاہے توہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ اب اینٹ کا جواب پتھر کے ساتھ دیاجائے گا۔ پاکستان نہ توبرماہے اورنہ ہی 1971ء والاپاکستان۔ بلکہ ہم ایک اسلامی ایٹمی پاکستان ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج اورعوام اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ پاکستان کی طرف اٹھنے والی ہرآنکھ کوپھوڑ دیااورہر اٹھنے والے ہاتھ کو کاٹ دیاجائے۔
ضرورت اس امرکی بھی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل میں نظریہ پاکستان کو اجاگرک ریں ،تاکہ ہماری نئی نسل ان قربانیوں کو یاد رکھے جو اس وطن عزیز کو حاصل کرنے کے لیے پیش کی گئیں۔ المحمدیہ سٹوڈنٹس ملک کے طول وعرض میں اس مشن کو لے کرنظریاتی دعوت کوعام کررہی ہے۔تعلیمی اداروں میں ہم اس کام کے لیے پرعزم ہیں کہ طلبا کو حقوق کی جنگ سے نکال کر ایک نظریے کی بنیاد پرکھڑا کرنا ہے۔اللہ کی توفیق کے ساتھ اس معاملے میں بہت بڑی کامیابی بھی ملی ہے۔آئیں!ہمارے ساتھ قدم سے قدم اورکندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہوجائیں اور سارے اختلافات کوبھلاکرلاالٰہ الااللہ کی بنیاد پرجمع ہو جائیں۔ اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے اوراس مسئلے پر اپنی جان تک قربان کرنے کاعزم کرنے کی توفیق دے۔آمین