تحریر : ماجد امجد ثمر اسلام کا ایک اہم مقصد انسانیت کی فلاح کے سوا اور کچھ نہیں۔ یوں تو آج تک دنیا میں جتنے بھی مذاہب پیدا ہوئے انہوں نے انسانی اقدار کو مقدم جانا اور صرف یہ نہیں بلکہ انسانی فلاح و بہبود کے لئے آواز بھی اٹھائی حتیٰ کہ قبل از اسلام کے مفکرین نے بھی انسانی فلاح و بہبود سے متعلق بڑے بڑے نظریات پیش کئے اور اس پر بہت اچھی کتابیں بھی لکھیں۔ دنیا میں فلاحی حقیقت کا نعرہ اس لئے ہی بلند کیا جاتاہے کہ دنیا میں ہمارا اولین مقصد انسانوں کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے۔ دین اسلام نے انسان کے سماجی تحفظ کے جتنے عمدہ اصول بتائیں ہیں دوسرے کسی بھی مذہب میں نہیں ملتے اور اسلام صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے فلاح و بہبود کا ایک مشن لے کر آیا ہے کیونکہ اسلام کے تمام نظریات خواہ وہ عقائد سے متعلق ہوں یا پھر عام ذندگی کے شعبوں سے متعلق سب کے سب انسانی فلاح و بہبود کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ معاشرے کے غرباء و مساکین ، معذور، یتیم ، مسافر، بے کس، مستحقین یا وہ افراد جو کسی قدرتی آفت میں پھنسے ہوں یا وہ لوگ جو ظلم و جبر کا شکار ہوں تو ایسے تمام انسانوں کی مدد کرنا اور انہیں صر ف ضروریاتِ ذندگی ہی نہیں بلکہ ایک پر سکون او ر پر مسرت ذندگی مہیا کرنا ہی فلاح و بہبود کا اصل مقصد سمجھا جاتا ہے۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہ آج مادیت ، حرص اور دنیا پرستی نے انسان سے اس کا مقصد ہی چھین لیا ہے۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی طبقاتی کشمکش نے احساسِ انسانیت کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے اور دوسرے جانب انسان کی ازلی کمزوری یہ ہے کہ وہ دو وقت سے زیادہ کا فاقہ برداشت نہیں کر سکتااور پھر جب ذندگی میں اسے جائز انداز سے رزق یا دیگر سہولتیں میسر نہ ہوںاور معاشرے کے وہ لوگ جو مدد کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود بھی اسے نظر انداز کر دیں تو وہ مجبوراً اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر بعض اوقات ایسے قدم اٹھا لیتا ہے کہ دنیا و آخرت میں سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ لہذا معاشرے کے مظلوم ، غریب اور بے کس لوگ جو بنیادی ضروریاتِ ذندگی سے محروم ہوتے ہیں تو ایسے لوگو ں کی مدد و کفالت دوسرے انسانوں پر اہم فرض بن جاتا ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں غیر سرکاری تنظیموں یعنی این جی اوز کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی طرح بہت سی ایسی سماجی تنظیمیں کام کر ہی ہیں جن کی کارکردگی مثالی اور معاشرے کے لئے ان کی خدمات انتہائی قابلِ تعریف ہیں اور ایسی این جی اوز حقیقت میں فنڈز کی بھی مستحق ہوتی ہیں ۔پاکستان میں دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے والی ان تنظیموں میں ایک نام شہرت یافتہ سماجی تنظیم ‘ فلاح انسانیت فائونڈیشن FIF” کا بھی آتا ہے ۔فلاح انسانیت فائونڈیشن ایک ایسا فلاحی ادارہ جو خلوصِ نیت سے اور صر ف و صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنے ملک کے مستحق لوگوں کی بغیر کسی معاوضے کے خدمت و مدد کررہا ہے۔یہ بات کسی سے پوشیدہ بھی نہیں کہ یہ فائونڈیشن کس طرح انسانوں کی مدد کرتی ہے اور لوگ اس سے کس طرح مستفید ہو رہے ہیں۔
NGO
افسوس کے ساتھ کہ آج پاکستان میں بہت سی ایسی تنظیمیں بھی کام کر ر ہی ہیں جنہوں نے این جی اوز کو ایک کاروبار بنا رکھا ہے اور ان کی اس جعلی این جی اوز سے سب سے ذیادہ متاثر وہ سماجی تنظیمیں ہوتی ہیں جو حقیقت میں انسانیت کی خدمت میں کوشاں ہیں ۔اس طرح پھر ڈونرز میں بھی ایک غیر یقینی صورت حال جنم لے لیتی ہے کیونکہ ڈونیشن دیتے ہوئے اس بات کا پختہ یقین نہیں ہوتا کہ آیا کہ اس کے اس پیسے کا درست استعمال بھی کیا جائے گا کہ نہیں ۔حال ہی میں سپریم کورٹ کا 100جعلی این جی اوز پر پابندی ایک خوش آئند قدم ہے لیکن ابھی بھی گلی محلوں میں بیٹھی بہت سی ایسی این جی اوز ہیں جو لوگوں کی مدد کا جھانسہ دے کر لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں ۔ایسی این جی اوز کے خلاف ایکشن وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ جب لوگوں کی فنڈنگ کا اصل مستحق کے منہ میں ایک نوالہ بھی نہ پہنچ سکے تو ایسی این جی اوز کا وجود غیر قانونی اور بے مقصد رہ جاتا ہے۔
لیکن جس معاشرے میں ‘ ‘ فلاح انسانیت فائونڈیشن ” جسے دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے والا ایک حقیقی مرکز جانا جاتا ہے ایسا فلاحی ادارہ موجود ہو تو پھر مستحق لوگوں کے لئے ایک بڑی امید اور بڑا سہارا بن جاتا ہے۔فلاح انسانیت فائونڈیشن ایک ایسی سماجی تنظیم جس کی کارکردگی تمام شک و شبہات سے پاک ہے تو ایسی فائونڈیشن فنڈز کی بھی حقیقی مستحق ہوتی ہے اور تمام صاحب ِ حیثیت لوگوں کا چاہیے کہ وہ FIF جیسی فلاحی تنظیم سے دل کھول کر تعاون کریں۔جو لوگ انسانی ہمدردی و تعاون اور دوسرں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں رضائے الہیٰ کے لئے خرچ کرتے ہیں تو ان پر آسمان سے رحمتوں اور برکتوں کی بارشیں برستی ہیں ۔ جیسا کی قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے کہ ”جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیا ں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس چاہے بڑھا کردے، اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے” ۔ ]البقرة[ ۔
پاکستان کی بیشتر آبادی صحت کی بنیادی سہولیات سے قاصر ہے لہذا فلاح انسانیت فائونڈیشن ا س کے پیش نظر تحقیق، تشخیص، علاج معالجہ اور سرجری کی سہولیات سے آراستہ ہسپتال اور ڈے کیئر سنٹرز ملک بھر میں قائم کر رہی ہے گائنی اور امراض نسواں کے لیے خواتین عملہ کو تعینات کیا گیا ہے۔ مختلف شہروں میں میٹرنٹی ہوم بھی کھولے گئے ہیں اس کے علاوہ اس نے اپنے محدود وسائل کے ساتھ پسماندہ علاقوں میں فلٹر کلینک ، میڈیکل سینٹراور فرسٹ ایڈ سنٹر بھی قائم کیے ہیں ان کیمپوں میں کلینیکل لیبارٹری اور فری بلڈ گروپنگ کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔ ناگہانی حالات اور قدرتی آفات میں بھی فری میڈیکل کیمپوں اور فرسٹ ایڈ سنٹرز کا کردار مثالی رہا ہے ۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن نے طبی آلات اور سہولیات سے آراستہ ایمبولینس سروس کا آغاز کیا ہے ۔ مریضوں، زخمیوں اور میتوں کی منتقلی کے علاوہ آفات میں ہنگامی مدد میں بھی اس سروس کا کردار نمایاں ہے ۔گذشتہ سال 2014ء میں FIFکی 201ایمبولینسوں سے 42,580 افراد مستفید ہوئے۔ دنیا بھر میں پینے کا صاف پانی سنگین مسئلہ بن رہاہے مگر پاکستان میں 85فیصد افراد کو یہ سہولت سرے سے حاصل ہی نہیں ہے ۔ تھرپارکر ، بلوچستان میں آج بھی انسان اور جانور ایک جوہڑ کا غلیظ پانی پینے پر مجبور ہیں۔
Falah Insaniat Foundation
اس سنگین مسئلہ کے حل کے لیے فلاح انسانیت فائونڈیشن فراہمی آب کے منصوبہ جات کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔اس وقت سندھ ، بلوچستان ،سرحد اور آزاد کشمیر میں 2,464 کنویں ، ہینڈ و الیکڑک پمپس اور سولر واٹر پراجیکٹ کام کر ر ہے ہیں ۔ ‘ افطار الصائم ‘کے پروگرام کے تحت ہر سال رمضان المبارک میں روزانہ ہزاروں افراد کے سحر وافطار کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ جس میں مہاجرین، ورثاء شہداء اور قحط زدہ افراد و سیلاب زدگان، دینی مدارس کے طلبائ، غربائ، قیدی ، یتامیٰ اور مریضوں کے لواحقین بھی شامل ہوتے ہیں۔فلاح انسانیت فائونڈیشن نے ” ریسکیو اور ایمر جنسی ”کا شعبہ قائم کیا ہے اور کارکنان کو ان حالات میں کام کرنے کی مکمل تربیت فراہم کی گئی ہے۔فرسٹ ایڈ اور واٹر ریسکیو کی مکمل کٹس، بوٹس اور غوطہ خوری کا سامان ملک کے اکثر علاقوں میں فراہم کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ تین سال سے تھرپارکر میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگ شدید قحط سالی کا شکار ہیں۔ حالیہ قحط کی وجہ سے سینکڑوں بچوں کی اموات ہو چکی ہیں۔ ”متاثرین تھرپارکر” کے لوگوں کی سب سے بڑی متاع ان کے جانور ہیں قحط کی وجہ سے ہزاروں جانور بھی مر گئے ہیں۔
جبکہ جوہڑوں اور تالابوںکا مسلسل گندا پانی پینے کی وجہ سے لوگ بے شمار بیماریوں کا شکار ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر فلاح انسانیت فائونڈیشن نے تھرپارکر میں مسلم و غیر مسلم کی امداد کا بڑاترین آپریشن شروع کیا ہے جو تاحال جاری ہے۔ستمبر 2014ء کو غیر معمولی بارشوں کا آغاز ہوا ، کئی شہر اور دیہات زیر آب آگئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمسایہ ملک نے بن بتائے لاکھوں کیوسک پانی پاکستان کی طرف دھکیل دیا۔ ہیڈمرالہ کے اطراف سیالکوٹ شہر، بجوات، نارووال، شکر گڑھ، وزیر آباد، شاہدرہ، مظفرآباد، جہلم، حافظ آباد، منڈی بہائو الدین، چنیوٹ، جھنگ، سرگودھا، ملتان اور مظفر گڑھ سمیت درجنوں اضلاع اور ان کے ہزاروں دیہات پانی میں غرق ہو گئے ۔ لاکھوں افراد پانی میں گھر گئے ۔ مکان تنکوں کی طرح بہنے لگے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن نے ریسکیو ٹیموں کو متحرک کیا ، ماہر تیراک، غوطہ خور، بوٹ آپریٹر علاقوں میں متعین کیے، جو دن اوررات فرق کے بغیرلکڑی کے تختوں، ڈرموں، پلاسٹک کی بوتلوںاور سپیڈ بوٹس کی مدد سے طوفانی لہروں کا مقابلہ کرتے ہوئے چھتوں پر پناہ لیے ہوئے اور پانی میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالتے رہے۔
فلاح انسانیت فائونڈیشن نے” آچے، انڈونیشیا میں پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں” کیلئے 50 لاکھ روپے مالیت سے 120 عارضی گھر (شیلٹر) بنا رہی ہے۔ یہ شیلٹر ہوم نارتھ آچے کے علاقے لک سکون کے پناہ گزین کیمپ میں بنائے جا رہے ہیں۔ انڈونیشیا میں روہنگیا مسلمانوں کی مدد میں مصروف فلاح انسانیت فائونڈیشن کے وفد کے انچارج شاہد محمود نے کو بتایا کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن روہنگیا مسلمانوں کی رہائش کیلئے 230 شیلٹرگھر بنا رہی ہے۔ پہلے فیز میں 120 گھر بنائے جا رہے ہیں جو 15رمضان تک مکمل کر لئے جائیں گے جبکہ دوسرے فیز میں 110 گھر بنائے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ انڈونیشیا کے نارتھ اور ویسٹ کے علاقوں میں جہاں روہنگیا مسلمان پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں،یہ علاقے مسلسل بارشوں کی لپیٹ میں ہیں جس کی وجہ سے ان کو خیموں میں رہنے پر شدید مشکلات درپیش ہیں لہٰذا ان کے لئے شیلٹر ہوم بنائے جا رہے ہیں۔ شیلٹر ہومز کے ساتھ سکول، مسجد اور پلے گرائونڈ بھی بنائے جائیں گے۔ شاہد محمود نے بتایا کہ ایف آئی ایف نے روہنگیا مسلمانوں کیلئے بڑا ریلیف آپریشن شروع کر رکھا ہے جس میں ہزاروں پناہ گزینوں کو ضروریات زندگی کی اشیاء فراہم کی جا رہی ہیں۔فلاح انسانیت فائونڈیشن نے( آچے) انڈونیشیا میں پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں میں 25 لاکھ روپے مالیت کا امدادی سامان تقسیم کر دیا۔
امدادی سامان میں 300 راشن پیک، 80گیس سلنڈر چولہے، 12 واٹر ڈسپنسر، 22 فرسٹ ایڈکٹس، 150 بچوں میں کھلونے، 600 جائے نماز اور 400 قرآن مجید شامل ہیں۔ یہ امدادی سامان فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضا کاروں نے نارتھ اور ویسٹ آچے کے علاقوں لک سکون، لنگ ساہ، مرسا اور سماوا میں پناہ گزین کیمپوں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں میں تقسیم کیا۔ کیمپوں میں مقیم بچوں کیلئے کھلونے بھی تقسیم کئے گئے ہیں۔ انڈونیشیا میں فلاح انسانیت فائونڈیشن کے وفد کے انچارج شاہد محمود نے بتایا کہ ایف آئی ایف اپنے برمی مسلمان بھائیوں کیلئے ہر ممکن مدد و تعاون پیش کر رہی ہے۔ گھنٹوں سفر کر کے دور دراز کیمپوں میں مقیم مہاجرین تک پہنچ کر خود سامان تقسیم کر رہے ہیں۔ سامان کی تقسیم پر روہنگیا مسلمانوں میں بے حد خوشی دیکھنے میں آئی۔
Falah Insaniat Foundation
انہوں نے کہا کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن ااپنا ریلیف آپریشن جاری رکھے گی۔ عید کے موقع پر ان میں عید گفٹس بھی تقسیم کئے جائیں گے۔دوسروں کی غمگساری کرنا ، محبت اور ہمدردی سے پیش آنا، دکھ درد کو محسوس کرنا اورمصیبت کے وقت ایک دوسرے کے کام آناہی اپنائیت اور صلہ رحمی کا ثبوت ہیں۔ یہ اوصاف جو اسلام اپنے ہر ماننے والے میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور صدقہ و خیرات برکت کشادگی اللہ کی رحمتوں اور اس کے وعدوں کی تکمیل کا سبب بن جاتا ہے ۔ اور یہی وہ صاحب ایمان ہیں جن کے لیے فرشتے روز اترتے ہیں اور ان کے حق میں اللہ سے دعا گو ہوتے ہیں۔”تم میں سے کون ہے جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض تاکہ اللہ اُسے کئی گنا بڑھا کر دے اور اُس کے لئے بہترین اجر ہے ”۔ ]الحدید 11[ ۔ ہماری صدقِ دل سے یہ دعا ہے کہ اللہ تعالی ” فلاح انسانیت فائونڈیشن ” جیسی حقیقی سماجی تنظیم کو انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے میں مزید کامیابیاں اور آسانیاں پیدا فرمائیں ۔ آمین