تحریر: پروفیسر رفعت مظہر بالآخر محترم جسٹس جوادایس خواجہ کا ”کھڑاک” کام دکھاہی گیااور حکومتی وکیل نے سپریم کورٹ میں وزیرِاعظم صاحب کا 6 جولائی کو جاری کردہ حکم نامہ جمع کروادیا جس کے تحت صدر ،وزیرِاعظم ،وزراء اور سرکاری نمائندگان اندرون اور بیرونِ ملک اُردو میں خطاب کیا کریں گے ۔حکم نامے میںیہ بھی درج ہے کہ 90 دنوں میں تمام سرکاری ونیم سرکاری ادارے اپنی پالیسیوں اور قوانین کا اُردو ترجمہ کریں گے ،عوامی رہنمائی کے سائن بورڈاُردو میںہوں گے اورتمام دفتری کارروائی اُردومیں ہی ہواکرے گی۔ قائدِاعظم نے تو تشکیلِ پاکستان کے ساتھ ہی اُردوکو قومی زبان قراردے دیالیکن اِس پرعمل درآمد کسی بھی دَورِحکومت میں نہ ہوسکا۔
اقوامِ عالم کی تواپنی قومی زبان، قومی لباس اورقومی شناخت ہوتی ہے لیکن ہم ٹھہرے ”کاٹھے انگریز” یاپھر یوںبھی کہاجا سکتاہے ”کوا چلاہنس کی چال اوراپنی چال بھی بھول گیا”۔68 سال گزرچکے لیکن یہ ”زندہ قوم ”تاحال سیاست سے ثقافت تک ”اُدھار”پر ہی گزاراکر رہی ہے ۔یوںتو ہم دِلی کے لال قلعے پر سبزہلالی پرچم لہرانے کے خبط میںمبتلاء ہیںلیکن ہندوانہ رسوم ورواج کی پابندی کوبھی اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔ہم خوب جانتے ہیںکہ اقوامِ مغرب اورامریکہ نے کبھی پاکستان کی بھلائی نہیںچاہی ،اِس موضوع پرلکھتے ہوئے ہم جذباتی بھی بہت ہوجاتے ہیںاور یہ بھی جانتے ہیںکہ حکمت کی عالی شان کتاب نے یہ فیصلہ ہی کردیاکہ یہودی اورعیسائی ہمارے کبھی دوست نہیںہو سکتے لیکن پھربھی تہذیبِ مغرب ہماری نَس نَس میںسماچکی ہے۔ اقبال نے تواقوامِ مغرب کومخاطب کرتے ہوئے کہا تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیاں بنے گا ، ناپائیدار ہو گا
لیکن ہمیں تو طبقۂ اشرافیہ کا فرد کہلانے کا شوق ہی اتناہے کہ ہماری تہذیب مغربی ، لباس مغربی اور زبان بھی مغربی۔ ہم نے انگریزوںسے آزادی کے لیے لازوال قربانیاں دیں لیکن رہے غلام ابنِ غلام۔ انگریزی تہذیب وثقافت ،انگریزی لباس اورانگریزی زبان کوہی ہم اشرافیہ کی پہچان قراردیتے ہیں۔ آقا کافرمان ہے ”جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیارکی وہ اُنہی میں سے ہے”۔لیکن ہمارا تو یہ عالم کہ ہمارے سربراہان بھی بیرونی ممالک کے دَوروں کے دوران انگریزی ”جھاڑتے” نظرآتے ہیں جبکہ دیگر ممالک کے سربراہان ،اپنے ملک میں ہوں یابیرونی دوروںپر ،ہمیشہ اپنی قومی زبان کوہی ترجیح دیتے ہیں۔14 جولائی کو ایران اورچھ بڑی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدہ طے پایاتو ایرانی وزیرِ خارجہ نے اپنی قومی زبان (فارسی )میںخطاب کیا، انگریزی میںنہیں۔ اگربرادر اسلامی ملک ایران اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لیے اپنی قومی زبان کوترجیح دے سکتاہے توہم کیوں نہیں؟ ۔
Language
وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ” نسلِ نَو” نہیں جانتی ہوگی کہ ہماری قومی زبان دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں تیسری بڑی زبان ہے اوریہ وہ واحد زبان ہے جسے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوںکی زبان قراردیا جاتاتھااور انگریز مستشرقین اسے ”مورتھ”یعنی مسلمانوں کی زبان کہتے تھے لیکن ہم نے اسے قومی زبان توقرار دے دیامگر وہ توقیر کبھی نہیں بخشی جس کی یہ حقدارتھی ۔ہم نے اِس کے ساتھ ہمیشہ وہی سلوک کیاجو قومی کھیل ہاکی کے ساتھ کررہے ہیں۔آج ہمارے قومی کھیل کایہ عالم کہ ہماری ٹیم ورلڈکَپ کے لیے کوالیفائی کرسکی نہ اولمپک کے لیے۔ قومی ٹیم کے کپتان نے بڑے دُکھ سے کہا ”نان چنے کھاکر عالمی ٹیموںسے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا”۔ کچھ ایساہی سلوک ہمارے بیوروکریٹس اُردوکے ساتھ کررہے ہیں۔ ذہنی طورپر انگریزوں کے غلام اِس طبقے کی اولادیں یورپ وامریکہ میںپڑھتی ہیں اسی لیے وہ اردولکھنے ، پڑھنے اور بولنے والوںکو تیسرے درجے کاشہری سمجھتے ہیںالبتہ جومُنہ ٹیڑھا کرکے چارحرف انگریزی کے بول لے یہ اُس سے متاثربھی بہت جلد ہوجاتے ہیں۔
کیایہ قومی المیہ نہیں کہ قوم کی رہنمائی کادعویٰ کرنے والا بلاول زرداری قومی زبان بول سکتاہے نہ لکھ اور پڑھ سکتاہے ۔اُسے کون بتلائے کہ یہ اُسی کے ”نانا” کابنایا ہواآئین ہے جس میں واضح طورپر لکھا ہے کہ 15 سالوں کے اندر اُردو کو قومی زبان کی حیثیت سے سرکاری زبان اور ذریع تعلیم کے طورپر رائج کر دیا جائے گا۔ کہا جاسکتا ہے کہ آئینِ پاکستان کے باقی آرٹیکلزپر کون ساعمل ہواجو اِس پرہو جاتا۔ ضیاء الحق مرحوم نے بھی قومی زبان اورقومی لباس کابڑا پرچار کیا لیکن ہوا ”کَکھ” بھی نہیں۔ وہ بھی بیرونی دوروں پر انگریزی ہی میں تقریریں کرتے رہے اوراقوامِ متحدہ میںبھی اُنہوںنے ہمیشہ انگریزی ہی میںخطاب کیا۔ اب چارعشروں سے زائد گزرنے کے بعد میاں نواز شریف صاحب نے 73ء کے آئین پرعمل درآمدکا ڈول ڈالاہے، دیکھیںاِس پرعمل درآمد بھی ہوتاہے یانہیں۔ ہمیںوزیرِاعظم صاحب کی نیت پرتو کوئی شک نہیں لیکن اُنہوں نے جوٹائم فریم دیاہے وہ ہے بڑاخطرناک۔ وہ 90 دنوںمیں پورے پاکستان میںاُردو کی حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیںلیکن یہ 90 کا ہندسہ توہے ہی ”منحوس”۔ ضیاء الحق مرحوم نے 90 دنوںمیں الیکشن کرانے کاوعدہ کیالیکن وہ نوے دِن 9 سالوںسے بھی آگے بڑھ گئے پھرمحترم عمران خاںنے 90 دنوںمیں”نیاپاکستان” بنانے کاوعدہ کیالیکن وہ نوے دنوںمیں نیاپاکستان توکیانئے خیبرپختونخوا کی ایک گلی بھی نہ بناسکے۔
Reham khan
وہ تبدیلی تو ضرور لائے لیکن خیبرپختونخوا میں نہیں ،اپنی ذاتی زندگی میں۔ اب محترمہ ریحام خاں بزعمِ خویش ”خاتونِ اوّل”ہیںاور اُنہیں خیبر پختونخوا کی حدتک وہی پروٹوکول دیاجا رہاہے جوکسی بھی ملک کے سربراہ کی اہلیہ کو دیا جاتاہے حالانکہ کپتان صاحب وزیرِاعظم توکجا ،خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ بھی نہیں۔جب ہم یہ کالم سپردِ قلم کررہے تھے توالیکٹرانک میڈیا پرریحام خاںکی ”جعلی ڈگری” کا شورمچا ہواتھا ۔ جس برطانوی اخبارنے محترم عمران خاں کی ریحام خاںسے شادی کی خبر سب سے پہلے بریک کی تھی اُسی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ریحام خاںکا یہ دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے نارتھ لینزے کالج سے ”براڈکاسٹ جرنلزم” کی ڈگری حاصل کی جبکہ لنزے کالج کے اربابِ اختیار کا دعویٰ ہے کہ وہ تو یہ” کورس” کرواتے ہی نہیںاور نہ ہی اُن کے ریکارڈ کے مطابق ریحام خاں کسی بھی کورس میں اُن کی سٹوڈنٹ رہی ہیں۔ اخباری رپورٹ اورلنزے کالج کی وضاحت کے باوجودہ میں یقین ہے کہ ریحام خاں”جھوٹ” نہیں بولتیں ،البتہ یہ ہوسکتاہے کہ وہ کالج کانام بھول گئی ہوں۔ خیریہ توبڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں جن کے ہاں”ڈگری ،ڈگری ہوتی ہے ،خواہ اصلی ہویا جعلی”، ہم توبات کررہے تھے 90 دنوں کی جن میں بقول وزیرِاعظم ہماری پیاری زبان نے ”آ جانا اورچھا جاناہے”۔
ہمیں90 دنوںسے اِس لیے بھی ڈرلگتا ہے کہ کراچی میںایک جگہ نائن زیرو(90) بھی ہے جواتنی خطرناک کہ اُس کانام سنتے ہی بڑے بڑوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ خودنائن زیرو کے مالک کا فرمان ہے ” نائن زیروپر تولوگ آتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں لیکن جنہوں نے چھاپامارا وہ بڑے مردکے بچے تھے، وہ تھے اور ”تھے” ہوجائیں گے”۔ لیکن ہم کہتے ہیںکہ جنہوں نے چھاپامارا وہ ”ہیں” اوررہیں گے البتہ اب انشاء اللہ ”تھے”وہی ہوں گے جنہوں نے روشنیوں کے شہرکو خونم خون کردیا۔ محترم میاںصاحب بھی 90 دنوں ہی کی بات کررہے ہیںلیکن کیایہ وعدہ پورا ہو گا؟۔ اتنی قلیل مدت میںیہ سب کچھ ہونا بظاہر توناممکنات میںسے ہے کیونکہ” وارث شاہ نہ عادتاںجاندیاں نے”البتہ یہ بھی درست کہ” ڈنڈا پیراستاد اے وگڑیاں تگڑیاںدا”۔ اگرمیاںصاحب نے عزمِ صمیم کا ”ڈنڈا”اٹھا لیا تو وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ بیورو کریسی بھی سیدھی ہوجائے گی کیونکہ اُردوکی راہ میںسب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہی توہے۔ ہمارے اراکینِ قومی وصوبائی اسمبلی تواِس راہ کی رکاوٹ ہرگز نہیں۔ وہ بیچارے توہماری طرح سے ہی اِس ”ٹُٹ پَینی”انگریزی سے بہت تنگ ہیں۔