زرا سے حسن کی دولت اگر ہمیں دے دو

Ayaan Ali

Ayaan Ali

تحریر: مسز خاکوانی
رات گئے سوشل میڈیا پر ایان علی کی رہائی کی خبر کے ساتھ ساتھ ایک ایسی تصویر بھی گردش کرتی رہی۔ جس میں ایان علی کے چہرے کی تو ہلکی سی جھلک تھی مگر ساتھ چلتے ادھیڑ عمر سانولے کاکے سپاہی کے چہرے پر جیسے سو والٹ کا بلب روشن تھا ترچھی نجریا سرشاری میں بھیگی ہوئی تھی ”حسن بھی کیا بری شئے ہے جس نے بھی ڈالی بری نظر ڈالی ”کسی ستم ظریف نے اس تصویر پر سرخی جمائی ہوئی تھی کہ منصفو تم نے پولیس والوں کی عید خراب کر دی ،اب وہی پرانی چیختی دھاڑتی بیویاں اور ریں ریں کرتے بچے ہی نظر آئیں گے ۔میں نے تو یہ بھی سنا تھا کہ ہر بار ضمانت منسوخی پر بھنگڑے ڈلتے تھے وردیاں صاف ستھری اور توندیں کم کرنے کے مقابلے جاری تھے حسن کی خیرات بٹتی رہے تو لوگ تمام عمر لائن میں کھڑے ہونے کو تیار ہونگے۔اور تو اور لیڈی پولیس والیوں کے جیل میں بیوٹی پارلر کھل گئے تھے۔

ذلفیں سنہری اور ابرو کمان ہو گئے سن گلاسز آنکھوں کی زینت بن گئیں ۔بی بی ایان کسی نوبیاہتا دلہن کی طرح سنبھال سنبھال کر ہر پیشی پر لائی جاتیں یوں جیسے ریمپ پر چل رہی ہوں سفید ،گلابی،کالے ڈریسز کی دھوم مچ گئی جو سر اور کاندھوں سے ڈھلکتے تو حشر بپا ہو جاتا ۔لیکن اب لگتا ہے ایان علی بھی بور ہو گئی ہیں ۔جن کو شکار کرنے کے لیئے یہ خوبصورت جال بچھایا گیا تھا وہ تو سچے سپاہی نکلے اور کاکے سپاہی ایان علی کی منزل نہ تھے ،یوں اب وہ حسن کی خیرات بانٹنے سے انکاری ہو گئی ہیں یوں بھی جتنی شہرت سمیٹنی تھی سمیٹ چکیں۔

گذشتہ روز ہی لاہور ہائی کورٹ نے پانچ پانچ لاکھ کے دو مچلکوں پر ایان علی کی درخواست ضمانت منظور کر کے اسکی رہائی کا حکم جاری کیا یقنناً جہان منفرد قید سے چھٹکارے کی خوشی ہوگی وہاں اس خوش رنگ و خوش ادا کی رہائی سے کچھ لوگ دل برداشتہ بھی ہوئے ٹولیوں کی صورت میں لوگ اخبار دیکھتے اور تبصرے کرتے پائے گئے ۔مگر پی ٹی آئی کے عارف علوی نے عملی اقدام کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے ایان علی کی رہائی پر از خود نوٹس لینے کی درخواست کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ کرنسی سمگلنگ کیس سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے اس کیس میں ایان علی کی رہائی پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنے گی۔

Ayaan Ali

Ayaan Ali

انہوں نے کہا اس کیس میں ماڈل ایان علی کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا جبکہ اس کیس کے سلسلے میں ایک سرکاری افسر بھی قتل ہوا ۔تاہم اس کیس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات لازمی ہیں۔ اس کیس کا اہم پہلو یہ ہے کہ قتل ہونے والے افسر کے قتل کی تحقیقات میں کسی قسم کی پیشرفت ہوتی نظر نہیں رہی جو کہ عدالتی میعار پر سوالیہ نشان ہے ایک طرف ایگزیکٹ اور بول کے خلاف اتنی پھرتیاں دوسری طرف ایان علی کے خلاف اتنی نرمیاں کہ بی بی کو ایک دن بھی قید کا احساس نہ ہو نہ میک اپ اور پہناوے میں کمی آئی آصف علی زرداری کی لاڈلی شہزادی کے بعد ایک اور اہم ترین شخصیت کا لاڈلا شہزادہ توفیق بٹ عرف ٹافی بٹ پکڑا گیا ہے جس سے پندرہ کروڑ کا سونا اور تین کروڑ کی کرنسی پکڑی گئی ہے۔

جب اس شخص کو پکڑا گیا جس کا نام عبدل باسط ہے تو اس نے کہا یہ سونا توفیق عرف ٹافی بٹ کا ہے ۔جبکہ باسط کے بارے مین معلوم ہوا کہ یہ سو سے زائد مرتبہ بیرون ممالک کرنسی لے کر جا چکا ہے ۔اور کھربوں روپوں کی سمگلنگ ہو چکی ہے کہنے والے کہتے ہیں یہ ایان علی سے برا کیس ہے کیونکہ جب یہ شخص پکڑا گیا تو ایک اہم شخصیت کی طرف سے فون یا توفیق عرف ٹافی بٹ کی طرف دیکھنا بھی مت کہ یہ ایک اہم ترین شخصیت کا بندہ ہے سمگلنگ کے لیئے ایئر پورٹ میں موجود تین دکانوں سے مدد لی جاتی ہے دکانوں کے سامان میں سمگلنگ کا سامان اور بھاری کرنسی لی جاتی ہے ڈیپارثر گیٹ کے اندر سے ہی سامان جہاز تک لے جایا جاتا ہے۔

اہم ترین شخصیت کا فون آیا کہ اس گیٹ کو فوری ختم کر دیا جائے اس معاملے کو گول کیا جائے یہ کیسی عدالتیں ہیں کس طرح کا انصاف ہے عوام یہ جاننے سے قاصر ہیں بے اعتباری کی یہ فضا پیدا کرنے کا مقصد کہیں یہ تو نہیں کہ عوام الناس آئیندہ کسی بھی خبر کو ایک مذاق سے زیادہ اہمیت نہ دیں ۔جس طرح سے ان کا انصاف پر سے ایمان اٹھتا جا رہا ہے اسی طرح خبر سے بھی اعتبار اٹھ جائے اس کا لا محالہ اثر یہی ہو گا کہ مجرم مظلوم بن جائیں گے کہہ دیں گے جی خبر جھوٹی تھی اور اتنی بڑی بڑی مثالوں کے ہوتے ہوئے ان کو کون جٹھلائے گا ؟
ابھی چند دن پہلے تک خبروں کا سب سے برا موضوع ایگزیکٹ تھا ہر روز ایف آئی اے کی تحقیقات ،گرفتاریوں اور برامدگیوں کی خبروں سے ٹی وی چینلز کے تمام بلیٹن اور اخبارات کا پورا صفحہ بھرا ہوتا تھا ہر چند لمحوں بعد چیختی چنگھاڑتی بریکنگ نیوز اس انداز سے دکھائی جاتیں جیسے دنیا میں ہونے والی ہر برائی اور خرابیوں کی جڑیں ایگزیکٹ کے دفتر سے مل گئی ہیں۔

Exact

Exact

اخبارات نے تو بول اور ایگزیکٹ کے بارے میں سب حقائق سے عوام کو آگاہ کرنے کے لیئے خبروں سے ہٹ کر پورے صحفے کا سپلیمنٹ تک چھاپ دیا اور پھر ہر طرف اچانک خاموشی چھا گئی بریکنگ نیوز اور ہیڈ لائنز سے ایگزیکٹ کا ایشو غائب ہو گیا ؟؟؟ یہ اس لیئے ہوا کہ اب خبریں ایگزیکٹ کے حق میں آنا شروع ہو گئی ہیں جنھیں بلیک ائوٹ کیا جا رہا ہے ایف آئی اے کے ڈی جی نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں کھل کر کہہ دیا ہے کہ تمام تر تحقیقات کے با وجود ایگزیکٹ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے صورتحال یہ ہے کہ جن کے دفتر سے لاکھوں جعلی ڈگریوں کی برامدگی کی خبریں چلائی گئی تھیں ان پر ایف آئی اے فرد جرم عائد کرنے سے ہچکچا رہی ہے ۔جج صاحب کی بار بار تنبہیہ کے باوجود چالان پیش نہیں کیا جا رہا۔ اب تو جج صاحب نے ایف آئی اے کو آخری مہلت دی ہے ،اگر دس دن کے اندر چالان جمع نہ کرایا تو عدالت عبوری چالان پر ہی ٹرائل شروع کر دے گی کمزور کیس کی وجہ سے گرفتار ملازمین کی اکثریت جیل سے رہا ہو چکی ہے اب وہ میڈیا مالکان جو جو اپنی ایمپائر کو للکارنے کے جرم میں ایگزیکٹ اور بول سے وابستہ ہر فرد کو پھانسی پر لٹکواناچاہتے تھے اب ان کی رہائی کی خبریں دینے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں ۔یہ صورتحال صرف ایگزیکٹ ایشو تک محدود نہیں ہے اخبارات ہوں یا چینل دونوں کا میعار ایک ہے۔

کس خبر کو نمایاں کرنا ہے کس کو شائع نہیں کرنا اس کا فیصلہ اخبار یا چینل کے مالکان کے کاروباری مفاد یا اس کی ذاتی پسند نہ پسند پر ہوتا ہے ۔مثال کے طور پر پاکستان میں موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے صارفین کے بد ترین استحصال کے بارے میں کوئی خبر کسی اخبار یا چینل پر نہیں چل سکتی کیونکہ فون کمپنیاں اشتہارات دیتے وقت پابند کرتی ہیں کہ ان کے خلاف خبر نہین چلائی جائے گی ۔یہی حال پاکستان کے ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کا ہے جسے میڈیا ایک ایسا ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے جو روزانہ ملک اور قوم کی بہتری کے لیئے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے لیکن کسی اخبار یا ٹی وی چینل میں کبھی ان لاکھوں لوگوں کے بارے مین کوئی خبر نہیں سکی جن کی زمینوں پر اس نے قبضے کیئے ہیں کمال کی بات ہے آزادی اظہار کی طاقت یہاں آکر سلب کیو ںہوجاتی ہے۔کیا انصاف صرف حسن اور دولت والوں کا نصیب ہے ؟شائد اسی لیئے لوگ کہتے ہیں زرا سے حسن کی دولت اگر ہمیں دے دو کمی نہ آئے گی کوئی تیرے خزانے میں۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر: مسز جمشید خاکوانی