تحریر : روہیل اکبر عید آتی ہے تو دور دراز گئے ہوئے روٹی روزی کی تلاش میں بچے اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہیں ہر فرد کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ عیدکے دن اپنے ماں باپ یا بزرگوں کے ہمراہ گذاریں خواہ اس کے لیے انہیں بسوں اور ٹرینوں کی چھتوں پر بیٹھ کر یا پائیدان پر کھڑے ہو کر یا لٹک کر آنا پڑے ہر حالت میں گھر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے اور جو کسی نہ کسی مجبوری کے تحت عید باہر گذار رہے ہوتے ہیں انکے دل بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی دھڑک رہے ہوتے ہیں۔
خاص کر عید کے روز جب بھی وہ کسی کے گلے لگتے ہیں تو اپنوں کی یاد انہیں تڑپادیتی ہوگی خاص کر ماں کا جو اپنے بچوں کے لیے پیار ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہوتا اور آجکل کے دور میں صرف ماں کا پیار ہی ہے جو خالص ہوتا ہے اور بغیر کسی لالچ کے ہوتا ہے مشکل کی گھڑی میں چڑیا بھی اپنے بچوں کی خاطرباز سے ٹکر لے لیتی ہے ،مرغی بھی کتے سے لڑ پڑتی ہے اور بطور ماں ہونے کے ناتے ایک خاتون بھی اپنے بچوں کے تحفظ کیلیے پورے معاشرے کا مردانہ وار مقابلہ کرتی ہے جبکہ بہنوں کی عصمت کی حفاظت کے لیے بھائی اور بیٹیوں کے لیے والدین اپنی جان تک کی قربانی دے دیتے ہیں۔
اپنی ماں ،بہن اور بیٹی کو اپنے معاشرے میں اکیلے باہر بھجوانے سے کتراتے ہیں بطورمسلمان حکمران ہمیں ایک لڑکی اپنی مجبوری کی داستان بھجواتی تھی تو ہم محمد بن قاسم کی شکل میں پوری اس ظالم سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیا کرتے تھے اپنے تو اپنے ہم کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے پر بھی زیادتی برداشت نہیں کیا کرتے تھے مگر نہ جانے ہمیں کیا ہوگیا کہ ہم بغیرتی کی تمام حدیں یک دم ہی پھلانگ گئے ہم نے اپنی بیٹی ،بہن اور ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو خود ہی وحشی درندوں کے حوالے کردیا وہ عافیہ صدیقی جو حافظ قران ہونے کے ساتھ ساتھ ایم آئی ٹی گریجویٹ ،نیوروسائنسز میں پی ایچ ڈی اور40سے زیادہ عالمی ایوارڈ یافتہ اپنے ایک بچے سے لاپتہ مارچ2003سے گذشتہ تقریبا 12سالوں سے خوفناک امریکی تشدد،بربریت اور بدترین تضحیک کا نشانہ بنی ہوئی ہے حکمران بے حس اور تمام سیاستدان خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کیا ان کی بیٹیاں ،بہنیں اور مائیں نہیں ہیں کیا۔
Dr. Aafia Siddiqui
ہم بطور مسلمان مجموعی طور پر بے حس ہوچکے ہیں لاہور کے علاقہ مزنگ کی فیروز پور روڈ پر امریکی جاسوس سرعام 2افراد کو مارکربھی حکمرانوں کی کوششوں سے واپس امریکہ جاسکتا ہے تو انہی بے حس حکمرانوں کی بدولت ڈاکٹر عافیہ پاکستان کیوں نہیں آسکتی ڈاکٹر عافیہ پر کچھ بھی ثابت نہیں ہوا مگر 86برس کی اذیت ناک قید کا فیصلہ سنا دیا گیا اور ہمارے صاحب اختیار ،برسراقتدار اور شاہ طرح دار سب کے سب دیکھتے رہ گئے ہمارے وزیر، سفیرحکمران و نکتہ دان سب ہی بے بسی کی چادر اوڑھ کرسوئے رہے امریکہ قید میں مظالم کا ایک ایک لمحہ نہ صرف اذیت ناک بلکہ خوفناک بھی ہے اور پھر 86برس کے تصور سے تو روح تک کانپ جاتی ہے کبھی ہم اپنی بہن یا بیٹی کو ڈاکٹر عافیہ کی جگہ رکھ کردیکھیں تو دل پھٹ جائے گا ڈاکٹر عافیہ ہماری عزت ہے۔
ہم نے اپنی عزت کو غیروں کے ہاتھ فروخت کردیا ہمارا ماضی اس بات کی گواہی دیتا ہے ہم تو بڑی غیرت ،عزت اور انا والی قوم تھے ہمارے رعب اور دبدبے کا یہ عالم تھا کہ دشمن بھی دیکھ کر راستہ تبدیل کرلیا کرتا تھا مگر یہ کس کی نظر بد سے ہم سب ہی بدترین بن گئے ہم میں احساس ہی ختم ہوگیا ایک عام رہڑی والے سے لیکر حکمران تک کرپٹ ہوگئے پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے ہی اسکی تقدیر سے کھیلنے لگ پڑے آج ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی امریکہ کے غلام بن گئے جہاں اپنے حقوق پر آواز اٹھانہ بھی جرم ٹہر ادیا گیا ڈاکٹر عافیہ صدیقی جن کا شجرہ نسب حضرت عمر فاروق سے جاملتا ہے کے خاندان کی قربانیاں پاکستان بنانے میں بہت زیادہ تھی بلکہ قیام پاکستان سے قبل انکے خاندان نے اپنی زمینیں فروخت کرکے مولانا محمد علی جوہر کی جدوجہد کو مضبوط کیا۔
ڈاکٹر عافیہ کے پڑنانا بڑے زمیندار اور پڑنانی ادیپورکی ریاست اترپردیش کے وزیر کی بیٹی تھی جبکہ ڈاکٹر عافیہ کی والدہ کے داد منور حسن پاک وہند کے بہت بڑے زمیندار تھے جن کے نام پر آج بھی بھارت میں ایک شہر آبادہے قیام پاکستان سے لیکر آج تک قربانیاں دینے والے خاندان پر اس وقت جو ظلم کے پہاڑتوڑے جارہے ہیں اللہ پاک ان پر اپنا خصوصی کرم فرمائے اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اپنی بہن کے لیے کچھ کرسکیں 12سالوں سے قیدوبند کی صعبوبتیں برداشت کرنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے خاندان ،اپنے بچوں اور اپنے ملک سے دور ہے کیاہمارے حکمران یونہی خاموشی سے یہ سارا تماشا دیکھتے رہیں گے اگر ایک بار صرف ایک بار ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلہ میں امریکہ سے بات کرلیتے تو وہ کب کی واپس اپنے بچوں میں آچکی ہوتی ڈاکٹر عافیہ پر تو ایسا جھوٹا الزام ہے جسے غلط ثابت کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا اگر ریمنڈ ڈٖیوس سرعام 2افراد کو قتل کرنے کے بعد باعزت پاکستان سے فرار ہوسکتا ہے تو ایک معمولی الزام میں بند ڈاکٹر عافیہ کیوں واپس نہیں آ سکتی۔