تحریر : عرفان طاہر مولانا محمد اشرف قریشی 8 اپریل 1955کو راجو روی ریاست جموں و کشمیر میں پیدا ہو ئے آپ کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے پہلی کتاب النکاح اسکے بعد آثار بیرسٹر عبد القیوم چو ہدری کا تفصیلی انٹرویو، زنبیل اخلا قیات کے حوالہ سے، عرفان حیات سوانح عمری حضرت مولانا حکیم محمد حیات علی چشتی ، ہجرت کشمیر، چیئرمین محی الدین ٹرسٹ ونور ٹی وی برطانیہ پیر علا ئو الدین صدیقی سے ملاقات کی روداد اور پھر کتاب النکا ح جو کہ 1121 صفحات پر مبنی انسا ئیکلو پیڈیا ہے نکاح کے حوالہ سے کہ مصنف ہیں ، یو کے اسلامک مشن کے ترجمان میگزین ماہنامہ اذان برمنگھم کے ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
لوٹن اور برمنگھم میں بطور خطیب بھی دین اسلام کے فروغ اور تبلیغ و ترویج کے حوالہ سے مصروف عمل رہے ہیں گذشتہ 19 برس سے ریڈیو ایکسل برمنگھم پر درس و تدریس کا کام بڑی خوش اسلوبی اور تسلسل کے ساتھ رضا کا رانہ طو ر پر سرانجام دے رہے ہیں ۔ ابتدائی دور سے تا حال بزرگان دین اور اولیا ء عظام کے ساتھ گہری وابستگی اور تعلق رکھتے ہیں ۔ سفیر امن اور داعی بین المذاہب ہم آہنگی کی حیثیت سے ہر ذی شعور اور مہذب معاشرے کے فر د کی طرح دہشتگردی ، انتہا پسندی ، شر انگیزی ، فتنہ پروری ، تفرقہ ، بد امنی ، شدت پسندی ، جرائم ، لا قانونیت ، نفرت،تعصب ، غیر انسانی اور غیر فطری عمل کے خلاف صوت حق بلند کرنے کے روادار ہیں۔
سابقہ ایڈیٹر ماہنامہ اذان ممتاز مذہبی سکا لر و دانشور فاضل جا معہ عربیہ گو جرانوالہ مولانا محمد اشرف قریشی نے نوجوان صحافی و معروف کالم نگا ر ایس ایم عرفان طا ہر کو خصوصی انٹرویو دیتے ہو ئے کہاکہ اسلام کے نام پر جو مختلف ٹی وی چینلز ، ریڈیو اور سوشل میڈیا پر غیر اسلامی معلومات اور لٹریچر کو پھیلایا جا رہا ہے اس کی وجہ سے نوجوان نسل بچے اور بچیاں بے راہ روی ، انتہا پسندی اور دہشتگردی کی گرفت میں جا رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ایسے بلاگ اور پیجیز تیار کیے گئے ہیں
Molana M Ashraf Qureshi
جہاں پر گمراہ کن معلومات کے زریعہ سے جواں سال نسل کی ذہن سازی کی جا رہی ہے اور یہی وجوہات ہیں کہ ایک پر امن اور پر سکون معاشرہ چھوڑ کر مسلمان بچے اور بچیاں نام نہا د جہاد کی بھینٹ چڑھتے جا رہے ہیں درحقیقت جذباتی بلیک میلنگ کے زریعہ سے بھی یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اسلام انفرادی جہا د سے ہمیشہ روکتا ہے برطانیہ میں رہنے والے شہریوں کے لیے فلسطین ، کشمیر ، سریا ، عراق یا شام جا کر جہا د کرنا لا زم نہیں ہے بلکہ ہر وہ برطانوی شہری جو اس ملک کے ساتھ تعلق رکھتا ہے تمام تفریقوں کو بالا طاق رکھتے ہو ئے اسکا اولین فرض ہے کہ وہ ایک برطانوی شہری ہو نے کے نا طے اس ملک کے تحفظ ، بقاء اور سا لمیت کے لیے اپنی خدما ت پیش کرے۔
لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ مسلم امہ کا کوئی بھی اجتماعی سطح پر تھینک ٹینک موجود ہی نہیں ہے جس کی بدولت نوجوان نسل غلط راستے پر نکل پڑی ہے ۔ انہو ں نے مسئلہ کشمیر با رے ایک سوال کا جواب دیتے ہو ئے کہا کہ کشمیر کے اندر جو 1965 کو جہا د کے نام پر لوگ گئے انہو ں نے وہا ن کوئی اچھا تا ثر نہیں چھوڑا اور جووہاں موجود ہ قریب دور میں گئے انہو ں نے بھی کوئی بہتر تاثر نہیں چھوڑا ہے۔
تحریک آزادی کشمیر کے نام پر جا نے والے بیرونی مجا ہدین نے وہاں پر چو ریاں کیں، جرائم پھیلا ئے عزتیں لوٹیں اور مسئلہ کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان بھی انہی لوگوں نے خود پہنچایا ہے ۔ جو افراد مجاہد بن کر جہا د کے نام سے کشمیر گئے ان سے نہ تو انکے خاندان والے راضی تھے اور نہ ہی انکی قوم ذاتی مفادات کی خا طر انہوں نے کشمیری قوم کو مزید مشکلا ت سے دوچار کیے رکھا۔
Kitaab u Nikkah
بھا رت نے مسئلہ کشمیر کو دبا نے کے لیے ان منفی سرگرمیوں میں ملوث افراد کا سہا را لیا ۔ تحریک آزادی کشمیر کے پر امن اور دیرپا حل کے لیے حریت کا نفرنس سمیت تمام کشمیری تنظیمات اور جما عتوں کو متحد و منظم ہو نا پڑے گا ۔ انہو ں نے کہاکہ عالمی برادری کو اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کشمیری قوم کو اعتماد میں رکھنا ہو گا جس مسئلہ میں بنیادی فریق کو ہی شامل نہ رکھا جا ئے تو ایسے متنازعہ مسائل کا حل اور فیصلہ ناممکن ہوتا ہے۔
پاکستان میں جو بھی حکومت رہی اس نے اس مسئلہ کو ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ہے حکمران ہو ں یا حذب اختلاف دونوں کا کردار اس معاملہ میں بدتر ہی رہا ہے۔
مسئلہ کشمیر کے لیے خود کشمیری قوم ہی کوئی مثبت اور موئثر کردار ادا کرسکتی ہے کوئی بھی اس مسئلہ سے غیر متعلقہ فریق اس کو پا ئیہ تکمیل تک پہنچا نے میں پر اثر دکھائی نہیں دیتا ہے۔