تحریر: سید فیضان رضا میرا خیال ہے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بیرونی طاقتوں کی سازشوں کا اس قدر اثر و رسوخ اور زیادتی ہو۔ آج کل سوشل میڈیا پر اسلام دشمن طاقتوں کا نیا محاذ دیکھنے میں آیا ہے جسے الحاد اور لبرلزم کا نام دیا گیا ہے۔اس سازش کے کیا تانے بانے ہیں اس سے پہلے الحاد کا ایک عمومی جائزہ لے لیں۔ فیروز الغات کے مطابق الحاد کا اردو میں لغوی معنی ہے” سیدھے راستے سے بھٹک جانا”۔الحاد کو انحراف کے معنوں میں استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لفظ عربی زبان کے لفظ لحد سے نکلا ہے جسے قبر کی اس دراڑ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو درمیان سے الگ ہو جاتی ہے یعنی ہٹائو یا انحراف کر جاتی ہے۔اسلامی اصطلاح میں ملحدفی الدین کا لفظ ایسے ہی بد بخت کے لیے بولا جاتا ہے جو سچی تعلیمات سے انحراف کر کے خدا کے وجود کی نفی کرتا ہے۔الحاد کے لیے انگلش میں Atheism کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو کہ یونانی لفظ Atheos سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ”بغیر خدا کے” ہے۔۔اسکے لیے اردو میں دہریت کا لفظ بھی متبادل کے طور پر بولا جاتا ہے اور دہریت سے ہی اسکے شخصی مستعملات یعنی دہریہ اور دہری کے الفاظ بھی ماخوذ کیے جاتے ہیں۔۔
لفظ دہر کے قرآنی ماخذ میں سورہ دہراور سورہ جاثیہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ سورہ دہر میں یوں ذکر ہے ”اور انسان پر ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا” جبکہ سورہ جاثیہ کے مطابق ”اور کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو بس دنیا کی ہی ہے کہ یہیں مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں زمانہ ہی ہلاک کردیتا ہے اور ان کو اس کا کچھ علم نہیںمحض قیاس آرائیاں کرتے ہیں” مذکورہ بالا آیت میں لفظ دہر گردش ایام کے بارے میں آیا ہے اور واضح انداز میں اس امر کی نفی جارہی ہے کہ وقت یا زمان کو ازلی یا لاتخلیقی و لافانی کہا جائے اور یہ لافانی اور ازلی حیثیت صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہی حاصل ہے جس نے زمان و مکان کی تخلیق کی۔یہ ہی وہ مقام ہے جہاں سے لفظ دہریت اور پھر دہریہ وجود پاتے ہیں یعنی وہ کیفیت کہ جو خدا کو حاصل ہے اور اگر کسی اور شے مثلاً وقت کے لیے اختیار کی جائے تو گویا وقت کو خدا کی خصوصیات سے مماثل کیا ، اسی عقیدہ کو دہریت کہا گیا اور اسکے ماننے والے دہریے کہلائے۔امام غزالی نے اپنی تصنیف تہافت الفلاسفہ (The Incoherence of the Philosophers) میں دہریت کو زمان و مکان کے معنوں میں ہی بیان کیا ہے۔مسلم سائنسدان اور فلسفی الجاحظ نے اپنی تخلیق ”کتاب الحیوان” میں لفظ دہریت کو خاصی عمومیت دیتے ہوئے ایسے شخص کے لیے استعمال کیا ہے جو رب کا منکر ہو، تمام تخلیق ، جزا اور سزا کا منکر ہواور اپنی نفسانی خواہشات کا پیروکار ہو۔
دہریت یا الحاد کا آغاز انڈین اوریونانی تہذیبوں میں ملتا ہے (آج بھی بھارتی شہری تیزی سے الحاد یا اسلام کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ کہ بتوں کی پوجا اس دور کی بات ہے جب عقلِ انسانی پستیوں میں پڑی تھی مگر نئی بھارتی نسل اپنے ہاتھوں سے بنائے ان مورتیوں کی عبادت پر سوال اٹھا رہی ہے۔اسی لیے بھارت میں Pk اور اوہ مائی گاڈ جیسی فلمیں بن رہی ہیں جو بت پرستی سے بھارتی شہریوں کی بیزاری دکھاتی ہیں)۔ انقلاب ِ فرانس الحاد پسندوں کی پہلی سیاسی تحریک تھی جس نے اپنے معاشرے کی بنیاد انسانی منطق پر رکھی اور خدائی اقتدارِ اعلیٰ کی نفی کی۔ملحدین کی تعداد کے بارے میں مختلف آراء ہیںکیونکہ بعض افراد جن کا تعلق مذہبی گھرانے سے ہوتا ہے وہ خدا کے وجود کی نفی کر رہے ہوتے ہیں، تاہم مختلف سروے ظاہر کرتے ہیں کہ ملحد دنیا کی آبادی کا 2 سے 10 فیصد تک ہیں۔ زیادہ امکان 2-5% کے ہیں۔
America and Canada
الحاد اپنے وجود کو منطق اور دلائل سے ثابت کرنے میں تا حال ناکام ہے اور ملحدین کا اپنی سچائی ثابت کرنے کا بس ایک طریقہ ہے کہ خدا کے ماننے والوں کو جھوٹا ثابت کردیں۔ الحاد کے ماننے والوں میں زیادہ تر اضافہ یورپین ممالک، کینیڈا اور امریکہ میں ہواہے۔ جارج ایچ سمتھ (1979) کے مطابق ہر انسان جو خدا کی نہیں مانتاملحد ہے اسی طرح Baron D’Holbach (1772) کے مطابق ہر پیدا ہونے والا بچہ ملحد ہے کیونکہ اس کا کوئی خدا نہیں۔ اٹھارویوں صدی تک خدا پر یقین اتنا مضبوط اور ہمہ گیر تھا کہ الحاد کے وجود پر سوال اٹھنے لگ گئے۔۔الحاد کے پھیلائو میں ایک بہت بڑی رکاوٹ خود ملحدین ہیں، جو کسی بھی بڑی مشکل کا شکار ہوں تو خداکو ماننے کے جزوی اعتقادات پر عمل شروع کردیتے ہیںاور بلواسطہ یا بلا واسطہ اپنی التجائیں خدا کے حضور پیش کرتے ہیں۔کیونکہ خدا پر یقین ہی مصائب سے نکلنے کاحل ہے۔ انگریزی میں ایک اور اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے جسے Deathbed Conversion کہتے ہیں یعنی بسترِ مرگ پر موت کی سختیاں دیکھ کر وجودِ خدا کی گواہی دے دینا یا اپنے عقائد تبدیل کر لینا۔اس کی سب سے بڑی مثال چارلس ڈارون ہی ہے جو لیڈی ہوپ کے مطابق بسترِ مرگ پر اپنی تھیوری پر کف افسوس مل رہا تھا اور اس کی جانکنی کے عالم میں بھی یہ خواہش تھی کہ لوگوں کی جماعت اکھٹی کی جائے جنہیں یہ خدا کے وجود پر لیکچر دے سکے۔
پاکستان میں فیس بک اور ٹویٹر پر پاکستانی اور اسلامی ناموں سے آئی ڈیز بنا کر کچھ لوگ اپنے آپ کو ملحد یا سابقہ مسلمان ظاہر کر کے لوگوں کو دعوت کفر دیتے نظر آرہے ہیں۔ان لوگوں نے مختلف قسم کے گروپس اور Pagesتیار کر رکھے ہیں جہاں یہ اسلام مخالف نظریات اور عقائد کا بیج بو رہے ہیں۔عموماً اردو میں ٹائپنگ کرتے ہیں۔اسلام کے حوالے سے کسی خاص موضوع کو لے کر ایک سٹوری تیار کرتے ہیں۔اپنے آپ کو بے دین بتاتے ہیں مگر صرف اسلام کی مخالفت کرتے ہیں۔لیکن یہ ایک دم آئے کہاں سے؟اگر یہ ملحد ہیں تو اسلام مخالف کیوں ہیں؟ جبکہ تمام مذاہب میں دینِ اسلام ہی فطرت اور دلیل سے مطابقت رکھتا ہے۔مسلمان اگر کسی غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دیتا ہے تو اسکے پسِ پردہ وہ ثواب ہوتا ہے جو اسے آخرت میں اللہ کی بارگاہ سے ملنا ہے۔
لیکن ایک ملحد جو خدا اور حیات بعد ممات کی نفی کرتا ہے اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ اتنی شد ومد سے صبح و شام مسلمانوں کو الحاد کی دعوت دیتا رہے؟ اور پھر یہ اسلام کی اتنی باریک غلطیاں ڈھونڈ کر لاتے ہیں جنہیں نکالنے کے لیے انہیں اسلام کا گہرا مطالعہ کرنا پڑتا ہوگا۔ سوال وہی ہے کہ یہ سب محنت کس لیے؟ آخر اللہ کوخدا نہ ثابت کر کے یا فدا ک امی وبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طعن وتشنیع کر کے یہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ان سب کے پیچھے کیا سازش کارفرما ہے اس کے لیے میرے موجودہ کالم کے دوسرے حصے کا انتظار کریں کیونکہ کہانی اتنی سادہ نہیں ہے کہ اسے ایک کالم میں سمیٹ دیا جائے۔
Syed Faizan Raza
تحریر: سید فیضان رضا faizanshah.raza@gmail.com 03457227990