پیرس (اے کے راؤ سے) میڈیا میں رپورٹ کی گئی ایک خبر کے مطابق ڈیلاس سے 40 میل شمال مشرق میں فارمرزوائل کے علاقے میں بنایا جانے والا مسلم قبرستان ناقدین کی تشویش کے بعد مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔
ناقدین کہتے ہیں کہ انھیں مسلمانوں کے مردوں کی تدفین کے طریقۂ کار پر تشویش ہے اور انھیں خدشہ ہے کہ اس سے وہاں مسجد بھی تعمیر کی جائے گی۔
بیت اللحم بیپٹسٹ چرچ کے پادری ڈیوڈ میکس نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہمارے لیے تشویش اسلام میں انتہا پسند عنصر ہے۔ وہ پھیلیں گے۔ ہم وہاں جناز گاہ کی تعمیر اور پھر تربیتی مدرسے کا قیام کیسے روک سکیں گے۔
اس علاقے فارمرزوائل میں بدھ مت کا ایک مرکز اور مورمونی کا گرجا گھر پہلے سے ہے لیکن حال ہی میں مسلم قبرستان قیام کی تجویز کی مخالفت ہو رہی ہے۔ یاد رہے یہ قصبہ اس جگہ سے تقریباً 25 میل دور واقع ہے جہاں اس سال مئی میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی نمائش پر حملہ کرنے والے دو اسلامی انتہاپسندوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
مسلمانوں کے تدفین کے طریقوں سے انھیں صحت کے مسائل کے بارے میں تشویش ہے کیونکہ ’آپ یہ نہیں جانتے کہ مرنے والا گولی سے مرا، بیماری سے یا کسی اور وجہ سے۔ وہ مردے کو چادر میں لپیٹتے ہیں، اسے قبر میں ڈال دیتے ہیں اور دفن کر دیتے ہیں۔‘ تجویز کے بعض مخالفین نے قبرستان کے لیے زمین کی فروخت کی صورت میں اس جگہ کو سؤروں کے خون سے بھر دینے کی دھمکی بھی دی تھی۔ لیکن سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ زمین کی فروخت گزشتہ ہفتے مکمل ہوگئی ہے۔
علاقائی مسلم ترجمان خلیل عبدالرشید کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو قبرستان کی تجویز کی مخالف پر حیرانی ہے۔ ’ہمیں گمان نہیں تھا کہ مردوں کو دفن کرنے پر انھیں اس قدر تشویش ہوگی۔انھوں نے کہا کہ میتیں تابوت میں رکھ کر دفن کی جائیں گی۔
علاقے کے میئر کا کہنا ہے کہ امریکہ کا قیام مذہبی آزادی کی بنیاد پر ہوا تھا۔ خدشات بے بنیاد ہیں ان کا کہنا تھا کہ اگر تعمیراتی معیار پورے ہوئے تو قصبے میں قبرستان بنانے کی منظوری دے دی جائے گی۔
فرانس ساوتھ آل لاکورنیؤ میں مسلمانوں کے قبرستان کے لیے 4000 میڑ جگہ پیچھلے سال آلاٹ کی گئی تھی اور پیچھلے سال سے مقامی مئیر جیل پؤ نے مسلمانون کی خواہش پر 3507 میٹر جگہ جامعہ مسجد کے لیے بھی مختص کر دی تھی جس پر کام جاری ہے۔