تحریر : بدر سرحدی مجھے یاد ہے نصف صدی پہلے کا زمانہ ہے، مون سون کی آمد کا انتظار ہوتا، سترے بترے لوگ جو حیات ہیں انہیں یاد ہوگا کہ باغوں میں جھولے … جھولے،…پھوار میں آم چوسنے…. اور خصوصی طور پر جب بارش ہو رہی ہوتی تو ایک خاص پکوان گڑ کے میٹھے پوڑے توے پر تلے جاتے ،اُس زمانے میں بناسپتی گھی یا اِسی قبیل کے تیل نہیں تھے ، خالص گھی ،یا پھر خالص سرسوں کے تیل میں،بارش ہو رہی گھر کے سب لوگ پوڑے انجوائے کر تے اور اگر بارش نے طول پکڑا تو مسافر کی صورت کا گُڈا بنا کر باہر کھڑا کر دیا جاتا اور بارش تھم جاتی لیکن آج یہ بھولی بسری داستان ہے ،آ ج یہ برسات کے ساون بھادوں عذاب بن جاتے ہیں
ایک دن نہیں محض ایک آدھ گھنٹہ بارش ہو جائے سڑکیں دریا بن جاتی ہیں گٹر ابلنے شروع ہوجاتے …، سیالکوٹ کا نالا ا یک اور یہاں ڈوبنے والے تین افراد کے لواحقین کے لئے وزیر اعلےٰ پنجاب نے ٥،٥ لاکھ دینے کا اعلان کر دیا اور بس … پنڈی کا نالا لئی یہ کوئی آج کا نہیں ،ہر سال جا نی اور مالی نقصان ہوتا، اخباری رپورٹ کے مطابق گزشتہ منگل ٧ جولائی کو محض ایک دو گھنٹے بارش ہوئی برساتی نالوں میں طغیانی آگئی اور گیارہ افراد ڈوب کر جاں بحق ہوگئے ،نالا لئی بپھر گیاجس نے پنڈی شہر و کینٹ میں تباہی مچا دی قریبی علاقوں میں ایک سے دو سے دو فٹ پانی گھروں میں داخل ہو گیا
اب یہ مون سون کی بارشیں سیلا ب ہر سال کا متعین کلینڈر بن گیا مگر زمہ دار لوگ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے کاغذوں کا پیٹ بھرتے رہتے ہیں اور اخباری بیانات… ، گزشتہ سال فیروز پور روڈ پر میٹرو ٹریک کی تعمیر پر ٣٠ ،ارب خرچ ہوئے ،محض ٧٥ منٹ کی بارش سے میٹرو اسٹیشنز میں پانی بھر گیا،یہ سب کیا اور کیوں ؟ زمہ دار کون ؟کوئی تو فراخ دلی سے اپنی کوتاہی قبول کرے، لاہور ڈوب گیا گلیاں نالے اور سڑکیں دریا بن گئیں یہ ہمارے منصوبہ سازوں کی ناقص کار کردگی اور سسٹم کی خرابی کا ثبوت اور واسا کی سال بھر کی کار کردگی….. ، فیروز پور روڈ پرآج بھی محض چند قطرت بارش میں کے جگہ جگہ پانی کھڑا نظر آئے گا ،قرطبہ چوک کوئین روڈ دریا کا منظر پیش کرتا ہے پچھلا بجٹ تو بہہ گیا ہے
Budget
اب اگلے بجٹ کی تیاری….، مرکزی حکومت کوئی بھی ہو اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتی کہ یہ صوبائی مسلہ ہے صوبائی حکومت نے متاثرین کو چند ٹکے تھما دئے اور بس …..سیاسی جماعتیںیا اہم لوگ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ بھارت نے پانی چھوڑ دیا اور یوں یہ سرکاری مشینری جس کے زمہ یہی کام ہے بری الزمہ ہوجاتے ہیں بلکہ کروڑوں کا بجٹ ڈکار جاتے ہیں کہ جی پانی اچانک بھارت نے چھوڑ دیا ہے ،اور پھر اگلے سال کے لئے منصوبہ بنتا ہے ….غور طلب یہ ہے کہ ٤ا٢٠ کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے اب ایشیائی ترقیاتی بنک سے ٢٢کروڑ ڈالر کا معاہدہ ہوأ،نیز اے ڈی بی، کی جانب سے فلڈ ایمرجنسی ری کنسٹرکشن پروجیکٹ کے تحت ملنے والی امداد ،٤ا٢٠ کے متاثرین کے زرائع معاش کی بحالی اور تعمیر نو پر خرچ ہوگی جو ٨اء تک مکمل ہوگا …٨اء تک کسے یاد ہوگا کہ یہ پیسہ کہاں خرچ ہوأ کہ اب ٥اء کے سیلاب کی خبریں آرہی ہیں،
ملک میں تباہی مچا دی ہے جو بپھرے ہوئے عفریت کی طرح سب کچھ نگلتا چلا آ رہا ہے مگر سوال ہے کہ حکومت اور وہ مشینری جس کی زمہ داری ہے سال بھر کیا کرتی ہے ….، بے شک وہاں ڈگریاں لئے بیٹھے بڑی تنخواہیں وصول کرتے ہیں مگر یاد رہے محض ایک کاغذ کا ٹکڑا کسی شخصیت کی قابلیت کی ضمانت نہیں ہو سکتا ، گزشتہ برسوں امریکا میں ایسا ہی سیلاب آیا جسے سینڈی کہا گیا ،وہاں زیر زمیں ریلوے نظام ہے مگر صرف دو افراد کے مرنے کی خبریں تھی اور دو دن بعد حالات معمول پر تھے اور صدارتی الیکشن بھی متاثر نہ ہوأ، کہ وہاں تو ایسی آفات سے نپٹنے کے لئے پہلے سے منصوبہ سازی کی ہوتی ہے اور یہاں صرف اخباری بیانات اور امداد کی اپیلیں کل کی بارش سے انڈر پاس بھی بھر گئے اور ٹریفک جام ہوگئی …. . ابھی تک ہم٤اء کے سیلاب کے زخم سہلا رہے ہیں جمعرات کی رات بارش ہوئی فیروز روڈ کی ملحقہ آبادیوں میں غریبوں کے گھروں میں دو دو فٹ پانی داخل ہو گیا
اب بادل گرجتا ہے تو غریب دعائیں مانگنے لگتے،یا اللہ کرم کر مگر انسان کو اللہ تعالےٰ نے فہم عطا کیا ہے اگر کل کا ادراک نہیں تو قصور کس کا، سیلاب تو آئیں گے ،سردی کی شدت بھی ہوگی اور گرمی سے بھی لوگ مریں گے ….زلزلے بھی آئیں گے مگر ان آفات سے بچنے کے لئے پہلے سے سوچنا ہوگا… ، اکتوبر دو ہزار پانچ بالاکوٹ میں زلزلہ آیا،ہم ابھی سورہے تھے کہ انسان دوست بیرونی تنظیمیں ریلیف کے لئے پہنچ چکی تھی ، بارشیں تو مغربی ملکوں میں بھی ہوتی ہیں مگر یہ خبر نہیں آتی کہ گٹر ابلتے ہیںگندا پانی گھروں میں داخل ہو گیا یا کوئی راہ گیر کھمبے میں کرنٹ آنے سے ہلاک ہو گیا سمندری طوفان بھی آتے ہیں..، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور زمہ داروں اور منصوبہ سازوں کی کہ ایسی ناگہانی آفات سے بچنے کی منصوبہ بندی کریں کہ نقصان کم سے کم ہو، مگر عوام کی بد قسمتی ہے کہ حکمرانوں کے پاس وقت نہیں کہ ان آفات سے بچنے کے لئے منصوبہ بندی کریں کہ انہیں تو سڑکیں اور میٹرو بنانے سے بھی فرست نہیں خواہ یہ سڑکیں دریا بن جائیں ،اس سے غرض نہیں