بہروپ سے اصل روپ بھلا

Muslims

Muslims

تحریر : وقار النسا
اللہ نے اس دنیا کو بڑی محبت سے بنایا اور اس کو ہر چیز سے آراستہ کیا آپس میں پیار اور محبت قائم رہنے کے لئے خوبصورت رشتے بنائے اور ان سب نعمتوں کی عطا کے بعد اسی بات کا انسان سے متقاضی ہوا کہ وہ حق بندگی ادا کرے -لیکن حضرت انسان ان سب سے منہ موڑ کر صرف اس دنیا کی رنگینیوں میں کھو گیا-ہر بات میں بناوٹ اور تصنع کو اپنا شعار بنا بیٹھا –یا یوں کہیے کہ اپنے چہرے پرنت نیا چہرہ سجا لیا –یہ احساس کہ ہر رشتے اور ہر تعلق کو اپنی بناوٹی شکل سے جھانسہ دے رہا ہوں اس کو وقتی تسکین تو دے سکتا ہے جب کہ اصل میں اس کی روح مردہ اور بے رنگ ہونے لگتی ہے زندگی بے کیف اور بے سکون ہونے لگتی ہے

ایسا شخص آپ کو چڑچڑا اپنی قسمت سے شاکی اور بال کی کھال اتارنے والا نظر آئے گا دراصل اس کے الفاظ اس کی سوچ کے غماز ہوتے ہیں اپنے منفی رویے کی بدولت وہ سب کو اپنی فطرت کے مطابق سمجھتا ہےساری زندگی بہروپ بھرنے والوں کی شخصیت کبھی نہ کبھی سامنے آ ہی جاتی ہے کبھی نہ کبھی اس کے چہرے کے خول سے پیچھے جھانکتے اصل چہرے کولوگ دیکھ لیتے ہیں بے شک وہ ساری زندگی اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ اس کو کوئی نہیں پہچان سکتا اصلی راحت اور خوشی اس کی زندگی سے بھی دور بھاگ جاتے ہیں اس کو بھی پھر تصنع اور بناوٹ ہی ملتی ہے

کیونکہ اس کو وہی کچھ ہی ملتا ہے جو کچھ کمایا ہوتا ہے بہروپ کے شوقین اصلی محبت اور خوشی سے محروم ہی رہتے ہیں وہ محبت صرف ہم جنس یا جنس مخالف کی نہیں اس کے سارے رشتوں سارے تعلقات کی ہے اس کے رب کی ہے ان عبادتوں ریاضتوں کوبناوٹ سے وہ بیکاراور بے فیض بنا دیتا ہے غور کریں تو اس سارے عمل میں اس نے گھاٹے کا ہی سودا کیا نہ ہی اللہ کو خوش رکھ سکا اور نہ ہی اس کی مخلوق کو محبت کا دروازہ ان لوگوں پر کھلتا ہےجو اپنی انا اور نفس سے منہ موڑ لیتے ہیںایسا کرنا جوئے شیر لانا ہے ان کی رعونت ان کی انا کوکچلنے میں مانع ہوتی ہے اور نفس کی غلامی تو انسان کو جنت سے دور کر دیتی ہے

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

کسی نے رسول خدا سے پوچھا جنت کتنی دور ہے آپ نے ارشاد فرمایا دو قدم پر ایک نفس پر رکھو دوسرا جنت میں ہوگا لیکن یہاں تو معاملہ برعکس ہے ھم لوگ اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنی ذات کی تسکین کرتے ہیں ذہنی خلفشار ھمیشہ اپنے رشتوں سے شاکی رکھتا ہے بعض لوگ بظاہر کچھ نظر آتے ہین جب کہ ان کی فطرت کے مطابق ان کے الفاظ ایسے نوکیلے اور کاٹ دار ہوتے ہیں جو دوسرے کی روح کو زخمی کر دیں یہ بالکل درست ہے کہ اگر الفاظ کے دانت ہوتے تو وہ کاٹ کاٹ کر انسان کو لہو لہان کر دیتے

بعض لوگ بات کرتے ہوئے الفاظ کا زہر اس طرح اتارتے ہیں کہ دوسرا تڑپ کا رہ جائے ایسا کرنا وہ اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں گويا کسی کو ايک پل چین نہ لینے دیں گے انسان کا تو سب سے بڑا کارنامہ ہی یہی ہے کہ وہ اپنا دل اور زبان قابو میں رکھے یہی زبان آپ کے ہر کمال کو زوال میں بدل دیتی ہے ھمیشہ کسی کی دل آزاری کرنے سے ڈریں کیونکہ جس نے اللہ کی مخلوق کو پریشان کیا اس کو اللہ کے عتاب کا ضرور سامنا کرنا ہو گا جز وقتی دوسرا آپ کے عمل سے پریشان ضرور ہو گا لیکن یاد رکھیے اس کی پریشانی تو ختم ہو جائے گی آپ کی نہیں ہوگی

ALLAH

ALLAH

آپ ھمیشہ بے سکون رہیں گے اپنے چہروں سے یہ مکھوٹے اتار پھینکیے – ساری زندگی بہروپ دھار کر نہ رہیں اصل کے ساتھ جیئں خوش رہیں اور دوسروں کو خوش رہنے دیں کیونکہ اللہ کی محبت بھی تب ہی ملے گی جب اس کی مخلوق‍ سے پیار ہوگا ورنہ تمام عبادتیں رياضتیں بے کار ہیں – دوسروں کو راحت پہنچائیں اور سچی محبت دیں بدلے میں اس جہاں میں سچی خوشی اور آخرت میں اللہ کا قرب پائیں

تحریر : وقار النسا