بدین (عمران عباس) بدین شہر سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں عیدو چانگ میں میر واہ نہر سے آج بھی لوگ ٹریکٹر کے ٹیوب میں بیٹھ کر پل کو پار کرتے ہیں، ترقی کے اس دور میں بھی ضلع بدین کے بیشتر علاقے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
مذکورہ پل 2012کی شدید بارشوں میں ٹوٹ کر بہہ گیا تھا جس کے بعد حکومت سندھ کی جانب سے اس پل کے لیئے 50لاکھ کے قریب رقم مختص کی گئی تھی جو جاری ہونے کے باوجودکرپشن کی نظر ہوگئی اور پل کا کام نہیں ہوسکا۔
علاقہ مکینوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اس پل کے ذریعے دس دیہات جن میں عیدو چانگ، میرو کھوسہ، مٹھا نہڑیو، جمعہ چانگ،حاجی نور محمد سمیت دس سے زائد دیہاتوں کی چالیس ہزار کے قریب کی آبادی ہے جس کا ضلع بدین کے دیگر شہروں سے زمینی راستہ منقطع ہے، اور اسی پل کے ذریعے ان دیہاتوں کے لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے۔
لیکن پل نا ہونے کے باعث دس دیہاتوں کے مکین ٹریکٹر کے ٹیوب میں بیٹھ کر ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ٹیلفون کی بندھی ہوئی تار کو پکڑ کر پل کو پار کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ پانی کا ریلہ زیادہ ہونے کے باعث ہر وقت پانی میں ڈھوب جانے کاخدشہ رہتا ہے،جب کہ ایک دو بار ٹیوب الٹ جانے کے باعث دوافرا اور ایک بچے سمیت تین افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
اس کے باوجو د بھی حکومت اس پر کوئی بھی توجہ نہیں دے رہی اور ناہی پل کے پیسے کھانے والوں کے خلاف کوئی کاروائی کی جاتی،یاد رہے کہ یہ پل کاغذی کاروائی میں مکمل ہوچکاے ہے جس کے بل بھی ٹھیکیدار وصول کرچکے ہیں۔