کراچی (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے تھر پارکرمیں غذائی قلت اور بیماریوں سے 100 سے زائد بچوں کی ہلاکت سے متعلق ازخود نوٹس میں سیکریٹری صحت کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں فراہم کی جانے والی ادویات اور مختص بجٹ کی تفصیلات طلب کرلی۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بنچ نے تھر پارکر میں غذائی قلت اور بیماریوں سے 100 سے زائد بچوں کی ہلاکت ازخود نوٹس کی سماعت کی ۔دوران سماعت صوبائی سیکریٹری صحت کی جانب سے رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ تھر پارکر میں سال 2013 میں 5 سال سے کم عمر بچوں میںغذائی قلت کے 10 ہزار 18 کیسز، 2014 میں 20 ہزار 192 اورسال 2015 میں 10 ہزار 338 کیسزرپورٹ سامنے آئے۔ رپورٹ کے مطابق 2013 میں نمونیہ کے 23 ہزار 16 ،سال 2014 میں 36 ہزار 289 اور 2015 میں 21 ہزار 328 کیسز رپورٹ ہوئے۔ 2013 میں ڈائریا کے 24 ہزار 297 ،سال 2014 میں 41 ہزار 528 اور 2015 میں 23 ہزار 356 کیسز رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ سال 2013 میں نمونیہ سے 49 ،ڈائریا سے 9 اموات رپورٹ ہوئیں۔ 2014 میں نمونیہ سے 11 ،جبکہ 2015 میں نمونیہ سے 5 اور ڈائریا سے 25 اموات ہوئیں۔لارجر بینچ نے سیکریٹری صحت کی رپورٹ پر عدم اطمینان اظہار کرتے ریمارکس دیے کہ آپ سب اچھے کی رپورٹ دے رہیں ہمیں سبز باغ نہ دکھائیں۔
تھرپارکر میں اسپتالوں میں عملہ اور ادویات نہیں تھیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جے پی ایم سی میں کئی سال سے سیوریج کا پانی نہیں نکالا گیا وہاں کی حالت ایسی کہ ہے کسی کی مرہم پٹی بھی نہیں کرائی جا سکتی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ لوگ مر رہے ہیں لیکن آپ کفن دیتے ہیں نہ ہی دفن کرنے کیلیے زمین اگرایدھی جیسے لوگ نہ ہوں تو لاشیں سڑکوں پر ہی پڑی رہیں۔لارجرج بینچ نے صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں فراہم کی جانے والی ادویات اور ہیلتھ بجٹ کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔