تحریر: میاں شعیب انجم 1974 ء کے آغاز میں امریکہ نے دنیا میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لئے ایک اہم اجلاس منعقد کیا جس میں امریکہ کو آنے والے 25 سے 50 سالوں میں جن مسائل یا خطرات کا سامنا ہو سکتا تھا ان کو زیر بحث لایا گیا۔ اجلاس میں ایک خصوصی کمیشن بنایا گیا جس نے ان تمام مسائل کے حل تلاش کرنے کا ٹاسک چند اجلاسوں میں پورا کر کے ایک رپورٹ کو ایس 200 کا نام دیا یہ رپورٹ صدر نکسن کو پیش کی گئی اور اعلیٰ افسران کی موجودگی میں رپورٹ پر بریفنگ بھی دی گئی۔ رپورٹ میں پاکستان سمیت دیگر ممالک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو امریکہ کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیا گیااور یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ آبادی میں اضافہ ہونے سے پاکستان سمیت دیگر کوئی ممالک کی عسکری، معاشی اور سیاسی قوت میں اضافہ ہو گا اور امریکہ کو حاصل تمام مفادات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ بریفنگ کے بعد کئی ٹیموں کو اہم ٹاسک دے کر پاکستان سمیت مختلف ممالک میں روانہ کر دیا گیا۔
ان ٹیموں نے کئی سال کام کر کے کئی ممالک کو ترقی یافتہ سے ترقی پذیر اور ترقی پذیر ممالک کو خریدکر بھکاری بنا دیا۔ آج بھی امریکہ دوسرے ممالک پر مقصود پابندیاں لگا کر اپنے مفادات حاصل کرنے پر بضد ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان رسہ کشی کئی سالوں سے جاری ہے۔ مگرحکومت پاکستان نے کبھی شاید یہ غور نہیں کیا کہ وسل کس کے ہاتھ میں ہے جس کے بجتے ہی رسہ کشی شروع ہو جاتی ہے اور بجتے ہی امن کی آشا اور جذبہ خیر سگالی کا پرچار شروع ہو جاتا ہے۔ ایس 200 رپورٹ کے اگر چند نکات کو سامنے رکھ کر اگر پاکستان کے موجودہ حالات پر نظر ڈال کر دیکھیں تو نتیجہ نکل آتا ہے۔ رپورٹ کے چند اہم ٹاسک یہ تھے۔
1 ۔ مسلم ممالک میں فیملی پلاننگ کی بھر پور مہم چلائی جائے اور اگر کوئی تنظیم یا جماعت اسکے کے کلاف نظر آئے اسے ختم کر دیا جائے۔ 2 ۔ مسلم ممالک میں فیملی پلانگ کے خلاف کام کرنے والی تمام جماعتوں کو غیر محسوس طریقے سے ختم کیا جائے ان کو عوام کی نظروں میں نفرت اور مذاق کی عامت بنادیا جائے۔ 3 ۔ آئی ایم ایف کے ذریعے سے ان ممالک کے مفاداتی شرائط پر بھاری قرضے دے کر ان پر دبائو ڈالا جائے۔ 4 ۔ ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کر کے ان سے بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں بات کر کے ان کو احساس کمتری کا شکار کیا جائے تاکہ وہ یہ داغ دھوتے ہوئے اپنے وسائل کو کھو دیں۔ 5۔ ہم خیال ممالک کو ساتھ ملا کر دوسرے ممالک کو ساتھ شامل کیا جائیگا۔ 6۔ وہ تمام جدید طریقے استعمال کیئے جائیں جن کے ذریعے عوام کو بڑھتی ہوئی آبادی کے خلاف شعور بیدار ہو سکے اور اس مشن میں شاعروں، ادیبوں اور تجربہ کاروں کو استعمال کیا جائے اور مختلف طریقوں سے یہ ثابت کیا جائے کہ فلاں سال میں آبادی بڑھ جانے سے قحط آجائے گا۔ بیماریاں پھیل جائیں گی۔ رہائش اور بے روزگاری سمیت دیگر کئی مسائل کا سامنا ہو گا۔ 7 ۔ اگر ان ممالک میں فوجی امروں کی حکومت قائم کروائی جائے تو نتائج جلد اور بہتر حاصل ہوں گے۔ 8 ۔ جنگ سے بہتر کوئی طریقہ نہیں مسلم دنیا کے باہمی تنازعات بڑھا کر آپس میںلڑا دیا جائے۔ 9 ۔ اگر مشن کے تمام ٹاسک ناکام ہو جائیںتو امریکہ خوراک کو بطور ہتھیار استعمال کرے گااور صرف ان ممالک کو پیسہ دیا جائے گا جو یہ شرائط قبول کریں۔
Nawaz Sharif And Modi
اب آپ ذرہ مشاہدہ کریں کہ پاکستان کے موجود ہ حالات اور مشن 200 کا کتنا قریبی رشتہ ہے۔ اس وقت پاکستان کے کسی سول ہسپتال میں موضی اشیاء کے ڈسنے سے ویکسین موجود نہ ہو مگر U.S ایڈ کی فیملی پلاننگ کی دوا ہمیشہ موجود ہو گی۔ اور پنجاب کے وزیراعلیٰ تو اس پر خاصی توجہ مرکوز کیئے ہوئے ہیں۔ وہ خود باآواز بلند آبادی کو کنٹرول کرنے کے اعلان کے ساتھ اربوں کے فنڈز کی منظوری دیتے ہوئے دوست ممالک سے تعلقات کی بہتری کی نوید سنا دیتے ہیں۔ حکومت کو شاید اس وقت تک اپنی کارکردگی پر شک رہتا ہے۔ جب تک وہ آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کے قرض کی بات ان کی شرائط کے مطابق طے نہ کرے جو ایس 200 کا حصہ ہو۔ امریکہ پاکستان کو احساس کمتری کا شکار کرنے کے لیئے بھارت سمیت کئی دیگر ممالک کو ستعمال کرتا ہے۔ حال ہی میں ہونے والی نواز مودی ملاقات سے اگر نواز حکومت کو احساس کمتری کے سواہ کچھ حاصل نہیں ہوا بھارت نے خود ممبئی حملوں سمیت تمام باتیں دے ماریںاور نواز شریف کشمیر اور سیز فائر کی خلاف ورزیوں سمیت ایم کیو ایم کی فنڈنگ سمیت بڑے مسائل پر ایک لفظ نہ بول سکے۔
اس وقت کئی میڈیا ہائوس یہ پر چار کرر ہے ہیں کہ آبادی میں اضافہ ہوا تو ملک ڈوب جائے گا بڑے بڑے میڈیا ہائوس جو امن کی آشا لاگ الاپنتے تھے ان پر بھارت سے پیشہ لینے کے الزمات لگے اس وقت باہمی تنازعات کی جنگ پاکستان میں لڑی جا رہی ہے۔ جس سے ہزاروںلوگ موت کی آغوش میں گئے اور لاکھوں بے گھر ہو گئے ۔ بھارت درجنوں نئے ڈیم بنا رہا ہے اور پاکستان میں صرف کالا باغ ڈیم کو روکنے کے لیئے سالانہ 15 ارب روپے کی فنڈنگ کرتا ہے جس کے الزامات کئی سیاسی جماعتوں کے سربراہان پر لگ چکے ہیں۔ پاکستان اربوں روپے کے قرض لے کر ترقیاتی کام کرتا ہے اور بھارت راتوں رات پانی چھوڑ کر ملیا میٹ کر دیتا ہے جس سے پاکستان پر آئی ایم ایف اور امریکہ کی غلامی کا دبائو بڑھا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستا ن کی کئی اعلیٰ شخصیات پر بھارت سے پیسہ لینے کے الزامات ہیں اور کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی مکمل فنڈنگ بھارت سے ہونے اور امن کو ثبوتاش کرنے کے الزامات ہیں۔ مگر حالات جوں کے توں چلتے رہیں گے۔
اب تک نہ جانے کتنے جوان اس مشن کی بھینت چڑھ کر زندگی سے روٹھ گئے نہ جانے کتنی مائوں کے لخت جگر ان کے ہاتھوں میں لاشہ بن گئے درجونں معصوم بچوں کو تعلیم حاصل کرتے ہوئے موت نگل گئی جن کا غم آج بھی ہر شہری کے شہرے سے عیاں ہے۔ اور ان کی مائوں کی زندگی اجڑ گئی جن کے بچے ٹفن کی روٹی نہ کھا سکے۔ پاکستان میں جمہوریت ہو یا امریت عوام صرف امن مانگتی ہے جس کی فریاد ہو شخص کی زبان پر ہے۔ مگر یہ تو مفادات کی جنگ ہے یہاں انسانیت نہیں مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے مفادات کے حصول کے لیئے جنگ اور امن کی آشا کا پرچار کیا جاتا ہے ۔ پاکستان اگر اس جنگ سے نکلنا چاہتا ہے تو بھکاریوں کی جگہ زور بازو آزمانا ہو گا۔ ورنہ پیسہ بٹتا رہے گا لاشیں گرتی رہیں گی۔ خون بہتا رہے گا۔ کبھی امریت آئے گی تو کبھی سامراجی قوتیں جمہوریت کا لاشہ عوام کے کندھوں پر لادتی رہیں گی۔ اب بس ایک راستہ باقی ہے کہ مشن200 کا جواب مشن 400 سے دیا جائے جو مشکل ضرور ہے مگو نہ ممکن نہیں۔
Mian Shoaib
تحریر: میاں شعیب انجم رابطہ نمبر:00971-524046878 ای میل:mianshoaibanjumhsppk@yahoo.com