تحریر: پروفیسر علامہ ظفر اقبال فاروقی فرمانروائے ہند (1489-1517ء ) سلطان نظام خان ملقب بہ سکندر لودھی متخلص گل رخ!! حضرت یعقوب کے صاحبزادے اور حضرت یوسف کے برادرِ خورد حضرت بنیامین کی نسل ِاقدس میں سے تھے۔آپ کا نسب نامہ ساٹھ پشتوں بعد حضرت یعقوب سے جا ملتا ہے ؛
١۔سلطان نظام خان ( 17 جولائی 1489ء سلطان بہلول خان لودھی کے انتقال اور وصیت کے بعد آپ لودھی سلطنت ِہندکے دوسرے بادشاہ ہوئے ۔ بڑے پیمانے پر سیاسی وسماجی اصلاحات کے باعث آپ نے ہندوستان کی تہذیب وثقافت پرانمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔عالم دین ،شاعر،مدبر سیاستدان و معتدل حکمران ہونے کے ساتھ ساتھ آپ خداترس انسان اور رعایاکے نگہبان تھے۔
Agra
آپ نے ہندی کی جگہ فارسی کو سرکاری زبان کادرجہ دیا جس کی وجہ سے برصغیر میں فارسی تمدن کو فروغ ملا۔1503ء میں آپ نے مہابھارت میں مذکورشہر آگرہ کی تعمیر نو کاحکم دیا اور 1506ء میں اسے لودھی دارالحکومت قرار دے کر دہلی سے سکندرآبادآگرہ منتقل ہوئے اور علم وادب ،فنون ِلطیفہ کووہ نہج ملی کہ آگرہ ”شیرازِہند”کہلانے لگا۔بڑے پیمانے پر علمائے اسلام اور مشائخ ِدین کو مراعات دیں۔سادات ِ بنی فاطمہ کے معتقد اور آل ِرسول ۖ سے بے پنا ہ مودت وعقیدت رکھتے تھے ۔کابطوس مشہدمقدس میں سید حسین طوسی کے تقویٰ و پرہیزگاری کا سن کر انہیں ہندوستان مدعو کیااور شَیْخُ الْاِسْلاَم وَالْمُسْلِمِیْن قراردیا۔
آپ کی حیات ِطیبہ ہی میں قطب مینار کے ساتھ آپ کے شایاں روضۂ انور تعمیر کروایاجس میں آپ کے وصال کے بعد شاہی اعزازسے رخصت کیا۔ سیدناحسین طوسی دہلوی کی نسل ِاقدس تبلیغ ِدین ِمتین اور خدمت ِشرع ِمبین کے حوالے سے منفردہے جس میں ہردور کے غازئہ دین وملت اقطاب وابدال ،اغیاث وقلندر سنگلاخ وبنجر کرئہ ارضی پہ ضوفشاںونورافشاں رہے ہیں
جن میںآپ کی ستائیسویں پشت میں عہد حاضر کے عالمی شہرت یافتہ محقق ومئورخ ،مصلح ِمعاشرہ ،معروف مذہبی وروحانی پیشوانقیب الاشراف جناب ڈاکٹر مخدوم سید علی عباس شاہ صاحب پیر آف منڈی بہاء الدین کی دینی وملی خدمات اور سیاسی وسماجی جدوجہد ارض ِپاک کا تاریخی ورثہ ہے ۔سلطان سکندر لودھی نے جابجامندروں کی جگہ مساجد تعمیر کروائیں۔غیر مسلم جارحیت کا ڈٹ کرمقابلہ کیا اور لودھی عنان ِحکومت کو خاطر خواہ وسعت دی ۔ 21 نومبر 1517ئ،7ذیقعد923ھ واصل بحق ہوئے ۔)بن ٢۔سلطان بہلول خان (آپ گھوڑوںکے تاجر تھے اور اعلیٰ نسل کے گھوڑے حاکم ِہند سلطان محمد شاہ کودیے جس باعث آپ کو جاگیر دے کر امیرالملک کے شاہی خطاب سے نوازا گیا۔
Ghor, Afghanistan
اپنے تایا ملک سلطان کے انتقال کے بعد آپ سرہند کے گورنر مقرر ہوئے اور لاہور تک آ پ کے زیر فرمان تھے۔ حاکم ہند سلطان محمد شاہ نے آپ کو خان ِ خاناں قراردیا۔1443ء اور 1447ء کے ناکام حملوں کے بعد بالآخر19ُاپریل 1451ئ، 855ھ کوآپ نے ہندوستان میں لودھی سلطنت 1451 تا 1526 ء کی بنیاد رکھی اور قلمروکو گوالیار،جونپوراوراترپردیش تک پھیلادیا 17 جولائی 1489ء کو وصال کے بعد آپ کو حضرت نصیر الدین چراغ ِدہلی کے دربار کے قریب سپردِخاک کیا گیا۔) بن٣۔ سردار قادر کالاخان (نواب آف دورالہ)بن٤۔ سردار بہرام خان افغان شاہوخیل (گورنرسرہند)بن ٥۔احمد خیل افغان بن ٦۔ملک شاہ افغان (آپ کی اولاد شاہوخیل کہلاتی ہے )بن ٧۔ اسحاق خیل افغان بن ٨۔عمرخیل افغان بن ٩۔پرنس بررنگی افغان بن١٠۔پرنس صیّانی افغان بن ١١۔پرنس ابراہیم افغان (آپ کے ناناباطن افغان نے آپ کو ”لوئی دھی”بمعنی عظمت و شان و شوکت والاکے لقب سے پکاراجس مناسبت سے آپ کی اولاد ”لوئی دھی خیل” کہلائی جو وقت کے ساتھ ساتھ لوئی دھی خیل اور پھر لودھی معروف ہے) بن ١٢۔پرنس حسین افغان (آپ سلطنت ِغور کے ولی عہد تھے اور شاہ حسین غوری معروف ہیں۔سلطنت ِغور افغانستان میں پہلی اسلامی ریاست تھی جس میں غزنی ،فراح،ہرات،قندھاراورہزارہ کے علاقے شامل تھے ۔”
غور بمعنی پہاڑ”سطح ِسمندرسے 2500 میٹر بلند کوہ ِہندوکش کاسلسلہ ہے جس کے دامن میں تاریخ کا بحربیکراں موجزن ہے ۔غور سے اٹھنے والی تحریکوں نے برصغیر کی سیاست وثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔) بن ١٣۔سلطان معزالدین حاکم ِغور (بنی امیہ کے سیاہ دور میں جب عالم ِاسلام میں ہر جاخلیفہء رسول حضرت علی ابن ِابی طالب اور اہل ِبیت ِرسول اللہ کوسب وشتم کانشانہ بنایا جارہاتھا سلطان معزالدین نے اس شیطانی فعل سے صاف انکار کردیاجس کے نتیجہ میں سفاک اموی حکمران آپ کے درپے ہوگئے اور سلطنت ِ غور کو تاراج کر دیا ۔سلطان معزالدین مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور باقی ماندہ زندگی وہیں بسر کی ۔آپ کے صاحبزادے شاہ حسین غوری کوہ ِسلیمان ژوب بلوچستان میں قیس عبدالرشید کے صاحبزادے باطن افغان کے گھر پناہ گزین ہوئے اورباطن افغان کی دخترسے عقد کیا جس سے ان کے صاحبزادے پرنس ابراہیم افغان متولد ہوئے جنہیں باطن افغان نے ”لوئی دھی ”پکاراجولودھی کاماخذہے۔)بن ١٤۔سلطان جمال الدین افغان حاکم ِغور بن ١٥۔سلطان بہرام افغان حاکم ِغور بن ١٦۔سلطان جلال الدین شہ نسب حاکم ِغور (آپ خلیفہ ٔ رسول حضرت علی کے دست ِاقدس پہ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
Construction of the Temple of Suleyman
حضرت علی نے آپ کو غور کی فرمانروائی عطا کی اور سلطنت ِاسلامیہ کا گورنر برائے ریاست ِغور مقررکیاجس کی وجہ سے آپ افغانستان و ہندوستان کے پہلے مسلمان بادشاہ ہونے کااعزاز رکھتے ہیں۔)بن ١٧۔سردار حریق افغان (فتح ِ مکہ کے موقع پر آپ قیس عبدالرشید کی زیرقیادت بہتّر افغان سرداروں کے ہمراہ سرکارِدوعالم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنی خدمات پیش کیں۔
نبی کریم ۖنے ان کے تہوروشجاعت کے پیش نظر انہیں ”بتّان ”محکم عزم وارادہ رکھنے والے ،بحری جہاز کا اگلا پائیں حصہ جو سینہء سمندر چیرتاہے قراردیاجووقت کے ساتھ ساتھ پٹان اور پھر پٹھان ہوگیا۔افغان سردار جناب ِقیس 575-661ء جویہودی تاریخ میں کیش بھی معروف ہیںکوسرکار ِدوعالم ۖنے عَبْدُالْرَّشِیْدقراردیاجس باعث آپ قیس عبدالرشید کہلاتے ہیں۔
Haykal e Sulaymani Destruction
آپ کی قبر انور ژوب بلوچستان میں کوہ ِقیس بابا جسے کوہ ِسلیمان بھی کہا جاتاہے پہ مرجع خلائق ہے ۔)بن ١٨۔عیلام یہوشوہابن ١٩۔ہارون سلول بن٢٠۔ مہلائیل بن ٢١۔مرآن بن ٢٢۔اسحاق بن ٢٣۔توراخ بن ٢٤۔اسم بن ٢٥۔ڈودان بن ٢٦۔سلیمان بن ٢٧۔امین بن ٢٨۔بہلول بن ٢٩۔سلیم بن ٣٠۔صالح بن ٣١۔قارودبن٣٢۔ اثّام بن ٣٣۔فاہلول بن ٣٤۔کرم بن ٣٥۔امال بن ٣٦۔حذیفہ بن ٣٧۔منہال بن ٣٨۔قیس بن٣٩۔ عیلام بن ٤٠۔شموئیل بن ٤١۔ہارون بن ٤٢۔قمرودبن ٤٣۔اوی بن ٤٤۔ضلیب بن ٤٥۔تولعال بن ٤٦۔لاوی بن ٤٧۔امیلبن ٤٨۔تارج بن ٤٩۔ارزند بن ٥٠۔منضول بن ٥١۔سلیم بن ٥٢۔ملک افغانہ1000سال قبل مسیح(عبرانی زبان میں عزت و آبرو مندصاحب ِعظمت ووقار کو افغان کہاجاتاہے ۔ آپ حضرت سلیمان کی فوج کے سالار تھے۔
بیت المقدس وہیکل ِسلیمانی کی تعمیر کی خاطر حضرت سلیمان نے آپ کو جنات وعفریت ، بھوت پریت پہ نگران مقرر کیا۔ جنات کی زبان سے ناآشنا ہونے کے باعث آپ ان سے کام لینے سے قاصر تھے ۔چنانچہ جنات نے انہیں اپنی زبان سکھلائی جس کے بعد آپ اُن سے باآسانی ہمکلام ہوسکتے تھے ۔آپ کے باعث یہ زبان عوام الناس تک پہنچی جسے پشتو کہا جاتاہے۔ آپ کی اولاد افغان کہلاتی ہے جو پشتو زبان اپنانے کے باعث پشتون یاپختون کہلاتی ہے ۔)بن ٥٣۔ یرمیاہ (آپ انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں اور حضرت دائود کے سپہ سالار تھے۔ یرمیاہ عبرانی زبان میں گریہ کناں کو کہتے ہیں۔
Israel Tribes Leaving Jerusalem
بنی اسرائیل کی حالت ِزار پہ آپ کاگریہ اور نالہ وشیون سپردِقرطاس کردینے کے باعث آپ مرسل ِگریہ کناں معروف ہیں۔عہد نامہ قدیم میں کتاب ِیرمیاہ آپ کے نالہ ٔ شب گیر سے معمور ہے ۔شاہ ِبابل بُخْت نَصَرْ کے عرب پر دوسرے حملے کے دوران آپ حضرت محمد مصطفٰیۖکے جد ِنامدار حضرت مُعِدْ کو اپنے ہمراہ شام لے گئے ۔) بن ٥٤۔ ملک طالوت(حضرت جبرئیل نے حضرت شمعون جوبنی اسرائیل کے لیے نبی تھے جنت سے ایک عصا لاکر پیش کیا اور بتلایاکہ جس کاقد اس عصا کے برابر ہو وہ بنی اسرائیل کا حاکم و بادشاہ ہوگا۔طالوت عربی لفظ طول سے ہے جو آپ کی درازقامت کے باعث معروف ہواجبکہ آپ کا اسم گرامی سئول بمعنی دعائوں سے مانگا گیا ہے ۔ حضرت عیسیٰ کی آمد سے 1079سال قبل اللہ رب العزت نے آپ کو بنی اسرائیل کا فرمانروا بنایاجس باعث آپ کو قرآن ِپاک میں ملک طالوت یعنی طالوت بادشاہ قرار دیا گیا ہے 2:247القرآن۔ افغان جرگے کے سردار اور قبائلی عمائدین اسی مناسبت سے ملک کہلاتے ہیں۔ملک طالوت کی دوازواج لاوی بن یعقوب کی نسل سے تھیں جن سے آپ کے دوصاحبزادے جناب برخیااور جناب یرمیاہ متولد ہوئے جو حضرت دائود کی زیرتربیت پروان چڑھے۔
Sultan Bahlol Lodhi
حضرت دائود نے انتظامی امورِ سلطنت جناب ِبرخیا کے سپرد کیے جب کہ فوجی امور کانگران وسالارجناب یرمیاہ کو بنایا۔ جناب برخیا کے صاحبزادے آصف بن برخیا حضرت سلیمان کے انتظامی مشیر ووزیر تھے 27:40القرآن ۔)بن٥٥۔قیس بن ٥٦۔ مہلائیل بن ٥٧۔افنوع بن ٥٨۔ روش بن ٥٩۔ حضرت بنیامین ( حضرت یعقوب کے بارہویں فرزند،کنعان میں متولد ہوئے۔
حضرت یعقوب نے آپ کا نام بنی یامین ”میرادست ِراست فرزند”رکھا۔حضرت بنیامین کے دس فرزند بَیْلاَ(بمعنی نگلنا!!کہ بھیڑیاحضرت یوسف کو نگل گیا۔)، بیچیر(پہلابچہ!! کہ حضرت یوسف اپنی والدئہ معظمہ کے پہلے فرزند تھے۔)، اَشْبیْل(بمعنی قید!! کہ حضرت یوسف کوقید رکھا گیا۔ )، گیْرا (بمعنی غریب الدیارہونا!!کہ حضرت یوسف غریب الدیار ہوئے )، نَعْمَان (بلاغت ِتکلم !!کہ حضرت یوسف فصیح البیان تھے ۔)، اَیْہِیْ(برادر ِعزیز!!کہ حضرت یوسف حضرت بنیامین کے عزیزازجان بھائی تھے۔) ، روْش(سرداروبزرگوار!!کہ حضرت یوسف حضرت بنیامین کے بڑے بھائی اورسردارتھے ۔) ،مُپِّمْ(دو منہ رکھنے والا!! کہ حضرت یوسف وحضرت یعقوب کے افکار ونظریات ایک تھے اگرچہ دہن جدا تھے ۔)،ہُپِّمْ(سیج ِ عروسی !!کہ حضرت یوسف کے عقد کے وقت حضرت بنیامین وہاں موجود نہ تھے ۔) اور اَرْد(خوشبوئے گلاب!!کہ حضرت یوسف کے بدن ِاطہر سے گلاب کی مہک آتی تھی۔)
Ten Lost tribes
حضرت بنیامین نے مصر میں حضرت یوسف کو ان ناموں سے متعلق بتلایا کہ آپ کے فراق میں میں نے اپنی اولاد کو آپ کے متعلقات سے موسوم کیا کہ نام پکاروں تو آپ کی یاد آتی رہے ۔)بن ٦٠۔ حضرت یعقوب (حضرت یعقوب ”یعقوب بمعنی مقرب ایزدی”کواللہ رب العزت نے اسرائیل ”تقدس مآب مستجاب الدعوات”قرار دیا کہ آپ کی دعا مستجاب تھی جس باعث آپ کے بارہ فرزندان ١۔رابن،٢۔ سائمن ، ٣۔لاوی ،٤۔یہودا،٩۔یساخر،١٠۔زیولون اور دختر دانہ اززوجہ ء معظمہ لَیَّاْ، ١١۔حضرت یوسف ،١٢۔حضرت بنیامین اززوجہء معظمہ راحیل ، ٥۔دان،٦۔نفتالی اززوجہء معظمہ بیلہا،٧۔غد،٨۔عاشراززوجہء معظمہ زیلفا کوبنی اسرائیل کہاجاتاہے جن پر اللہ ر ب العزت نے عنایات کی انتہافرما دی۔ قرآن ِمجید کی سترہویں سورةمبارکہ بنی اسرائیل ہے اورقرآن ِپاک میں ساٹھ فیصد سے زائدحضرت یعقوب کی اولاد کا تذکرہ ہے۔”
یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایاہے زمرئہ انبیاء میں سے آدم کی اولاد سے ہیں اور ان میں سے ہیں جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں اٹھا لیا تھا اور ابراہیم کی اور اسرائیل کی اولاد سے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ بنایا !جب ان پر رحمان کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے وہ سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے گرپڑتے ہیں”القرآن 19:58۔حضرت یعقوب کی اولاد میں ہر دور میں نامی گرامی ہستیاں ،انبیائے بنی اسرائیل و عمائدین رشدوہدایت کے چراغ روشن فرما کرروئے زمین کو منور کرتے رہے ہیں ۔)بن ٦١۔حضرت اسحاق بن ٦٠۔ ابوالانبیا حضرت ابراہیم (جد اعلیٰ انبیائے بنی اسرائیل وبنی اسماعیل )۔شاعر اسلام واسلامی جمہوریہ پاکستان حفیظ جالندھری فرماتے ہیں؛
ہوئے اسحاق کے فرزند اسرائیل پیغمبر ملے فرزند انہیں بارہ بفضل ِحضرتِ داور انہی میں حضرت ِیوسف نے مرسل کالقب پایا خدا نے ان کو اہل ِمصر پہ مبعوث فرمایا یہ ایسے تذکرے ہیں جو زبانوں پر فسانہ ہیں برادر حضرتِ یوسف کے مشہورِ زمانہ ہیں یہودی قوم کا آغاز انہی بارہ سے ہوتا ہے یہودا ان کاجد، اسحاق پیغمبر کا پوتا ہے مگر شیطان نے ان پر بھی دام ِشرک پھیلایا توانبوہِ کثیر اس قوم کا حق سے پلٹ آیا یہ قوم اپنے کو خاصان ِخدا کی قوم کہتی تھی مگر کرتوت ایسے تھے بہت معتوب رہتی تھی ہوئے اس قوم میں اکثر جلیل الشان پیغمبر چلانا چاہتے تھے جواسے حق وصداقت پر یہودی جانے بوجھے راہِ حق کو بھول جاتے تھے وہ اپنے رہنما کوایک دیوانہ بتاتے تھے کیا تھا مصر میں فرعون نے دعویٰ خدائی کا یہودی قوم دم بھرتی تھی اُس سے آشنائی کا عتاب آخر کیا شہنشاہوں کے شاہ نے اُن پر
Faroon
مسلط کردیا فرعون کو اللہ نے اُن پر کہ یہ بھی اِک طریقہ تھا انہیں رستے پہ لانے کا انہیں ٹھوکر لگا کر خواب ِغفلت سے جگانے کا بہت پستی دکھائی آخر اس افتاد نے ان کو لگائیں ٹھوکر یں فرعون کی بے داد نے ان کو مگر فرعون کے ظلم وستم جب بڑھ گئے حدسے لگے عبرت پکڑنے لوگ ان کی حالت ِبد سے خدائے پاک نے موسیٰ کو ان میں کردیا پیدا جو بچپن ہی سے آزادی و حریت پہ تھے شیدا ظہورِ نورِ حق موسیٰ کو سینا پر نظر آیا خدانے جانبِ فرعون انہیںمبعوث فرمایا یدبیضا کے ساتھ اس خطۂ ظلمت میںدر آئے یہودی قوم کو آزاد کر کے مصر سے لائے جگایا قوم کی تقدیر کو آوازِ موسیٰ نے کیا فرعون کو غرقابِ نیل اعجازِ موسیٰ نے عصائے موسوی نے پتھروں کو آب کر ڈالا بیابانوں کو ان کے واسطے شاداب کر ڈالا یہی وہ قوم ہے جس کے لیے نعمت کے مینہ برسے کہ اترے من وسلویٰ ان کی خاطر آسماں پرسے مگر جب آزمائش آ پڑی یہ قوم گھبرائی
ہوئی باطل سے خائف اور راہِ حق سے کترائی کہاموسیٰ نے ”اُٹھ اے قوم !باطل کے مقابل ہو تیری عزت بڑھے جگ میں تیرا ایمان کامل ہو ” تو بولی قوم ”اے موسی!ہمیں آرام کرنے دے خدا کی نعمتیں ملتی ہیں ان سے پیٹ بھرنے دے خداکو ساتھ لے جا اور باطل سے لڑائی کر ہمارے واسطے خود جا کے قسمت آزمائی کر ہمیں کیوں ساتھ لے جاتا ہے دنیاسے اجڑنے کو خدااور اس کا پیغمبر ہی کافی ہے جھگڑنے کو” ڈرایا بارہا موسیٰ نے ان کو قہرباری سے مگر اس قوم کو مطلب رہا مطلب براری سے کبھی رفعت پہ آئی بھی توسوجھی اس کو پستی کی کہ چھوڑی حق پرستی اور گئوسالہ پرستی کی رکھی دنیا میں راہ و رسم حرص ِخام سے اُس نے دکھائی سرکشی تورات کے احکام سے اُس نے دلائی حضرت ِدائود نے اس قوم کو شاہی
Temple of Solomon
مگر اس نے نہ چھوڑی کم نگاہی اور گمراہی زبور اس قوم کو بخشی گئی لیکن نہ یہ مانی یہ اپنی حمد کرتی تھی بجائے حمدِ ربانی بڑی شوکت ملی اس قوم کو عہد ِ سلیماں میں عظیم الشان ہیکل ہو گیا تعمیر کنعاں میں مگر یہ قوم اکثر راہ پر آ کر پلٹتی تھی نہ دینداری میں بڑھتی تھی نہ بے دینی سے ہٹتی تھی اسے ایوب و زکریا و یحییٰ نے بھی سمجھایا چلن اس قوم کا لیکن نہ راہِ راست پر آیا ہو منزل گمرہی جن کی وہ کیوں کر راہ پر آئیں ملیں اس قوم سے پیغمبروں کو سخت ایذائیں یہ جھٹلاتی رہی ہر اِک نصیحت کرنے والے کو یہ اندھی تھی، اندھیرا جانتی تھی ہر اجالے کو مسیح ِابن ِمریم نے بہت اس کو ہدایت کی مگر یہ آخری دم تک رہی منکر رسالت کی یہ جھٹلاتی رہی انجیل کی سچی منادی کو یہ سولی پر چڑھانے لے گئی اُس پاک ہادی کو
خلیل اللہ سے جو وعدہ کیا تھا حق تعالیٰ نے وہ پورا کردیا ہر طور سے اُس ذات ِوالانے وطن بخشا گیا اس کو نمونہ باغِ جنت کا مگر اس قوم میں جذبہ نہ تھا اس کی حفاظت کا ملی اسحاق کی اولاد کو شانِ حکومت بھی متاعِ دنیوی بھی اور روحانی رسالت بھی مگر اس قوم نے ٹھکرا دیا ہر ایک نعمت کو یہ بھڑکاتی رہی ہر دور میں اللہ کی غیرت کو نتیجہ یہ ہوا کفرانِ نعمت کی سزا پائی عمل جیسے کیے ویسی درِ حق سے جزا پائی خدا سے سرکشی کی ، سرجھکایا پائے دشمن پر رہا اغیار کا پنجہ مسلط اس کی گردن پر سبھی اہل ستم کرتے رہے اس پر ستم رانی فنیقی، بابلی، مصری، اسیری اور رُومانی یہودی قوم پر دنیا میں جب کوئی بلا آئی تو اُس نے آل ِاسماعیل کے گھر میں اماں پائی
Professor Zafar Iqbal Farooqi
تحریر: پروفیسر علامہ ظفر اقبال فاروقی گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی،رسول ضلع منڈی بہاء الدین