نیویارک (جیوڈیسک) دنیا بھر میں خفیہ سرکاری دستاویزات کی اشاعت کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والی ویب سائٹ وکی لیکس اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکا اپنے برطانیہ اور جرمنی کے بعد ایک اپنے ایک اور اہم اتحادی ملک جاپان کے اعلیٰ حکام اور کمپنیوں کی بھی جاسوسی کی ہے۔
وکی لیکس نے اپنی ویب سائٹ پر امریکا سے متعلق جو تارہ ترین خفیہ دستاویزات شائع کی ہیں اس کے مطابق امریک خفیہ ایجنسی (این ایس اے) 2006 سے جاپان کی اہم سرکاری و سیاسی شخصیات اور 35 کمپنیوں کی خفیہ نگرانی کر رہی تھی۔
این ایس اے نے امریکا اور جاپان کے دو طرفہ تعلقات، تجارت کے فروغ کے لیے طے پانے والے معاملات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے اختیار کی جانے والی حکمتِ عملی جیسے معاملات کی خفیہ نگرانی کی جب کہ جاپانی اداروں کی معلومات آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا اور نیوزی لینڈ سمیت اپنے “انٹیلی جنس شراکت داروں” کو بھی فراہم کیں۔
دوسری جانب جاپان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان یاسو ہیسا کاوامورا کا کہنا ہے کہ وکی لیکس کے انکشافات کے بعد اس حوالے سے امریکا سے مسلسل رابطے میں ہیں، جاپانی حکومت اپنی معلومات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔
واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے اپنے اتحادی ملکوں کے سربراہان، اعلیٰ حکام اور اہم اداروں کی خفیہ نگرانی کا معاملہ سب سے پہلے 2013 میں منظر عام پر آیا تھا جب این ایس اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے امریکی خفیہ ایجنسی کی ہزاروں خفیہ دستاویزات انٹرنیٹ پر شائع کر دی تھیں۔
2 ماہ قبل وکی لیکس نے این ایس اے کی جانب سے فرانس کے موجودہ صدر اور 2 سابق صدور کی جاسوسی کا بھی انکشاف کیا تھا جس کے بعد واشنگٹن اور فرانس کے درمیان معاملات کشیدہ بھی ہو گئے تھے جب کہ اس سے قبل جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی جانب سے بھی اس حوالے سے سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا تھا۔