تحریر : سجاد علی شاکر ملک بھر میں شدید بارشوں اور پھر سیلاب کی تباہ کاریوں نے اس وقت قوم کو جس آزمائش میں ڈالا ہے وہ پہلے کی طرح اپنی ہمت اور جذبے سے آزمائش کی اس گھڑی سے بھی نکل آئیں گے، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ووٹ لے کر ایوانوں میں بیٹھنے والے حکمران، عوام کے خون پسینے سے کمائی گئی رقم سے سے بھاری ٹیکس لینے والی حکومت، عوام کو بیوقوف بنانے والے سیاستدان، کیا یہ سب ا تنے جاہل ہیں کہ انکو سمجھ نہیں آتا، ہر سال برسات کے موسم میں سیلاب آتا ہیں۔
قیمتی جانوں، غریبوں کی سارے سال کی محنت کی گئی فصلیں ،غریبوں کی ساری زندگی سے تیارکئے چھوٹے چھوٹے جھونپڑی جیسے گھروں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہیں؟بھارت ہمارا مخالف ملک ہے ، اس لیے مخالف ملک کی طرف سے بھیجا گیا پانی کا ریلا ، جو ہر سال پاکستان میں تباہی کے لئے بھیجا جاتا ، اور یہ اپنے ساتھ،کئی دیہات ملیا میٹ ،اورکئی انسانوں کی زندگیوںکے خاتمے کا موجب بنتا ہیں،کیا اس دشمن کا دفاع ضروری نہیں ؟سب کچھ پتہ ہوتے ہوئے بھی اس دشمن سے بچائواور اسکا خاتمہ نہ کرنا، اور اسے انسانی زندگیوں سے کھیلتے رہنے دینا ،ایسا کیوں؟ گزشتہ سالوں کی طرح ا س سال بھی موسم برسات کی آمد کے ساتھ ہی جہاں دیہاتی زندگی بلکہ شہری زندگی کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا ہے۔
کیونکہ پاکستان کے طول و عرض میں حالیہ شدید بارشوں کے باعث اب تک جہاں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ املاک کو بھی نقصان پہنچا جبکہ دریائوں کی سطح بڑھنے سے دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی پانی حفاظتی پْلوں کو توڑتا ہوا دیہاتوں کو بھی لپیٹ میں لینے لگا شدید بارشوں سے جہاں شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی جبکہ شہروں سے گزرنے والی نہروں کی سطح بلند ہونے سے بھی نشیبی علاقے زیر آب آ گئے تھے۔
Chitral Flood
کیونکہ ان دریائوں کے بپھرنے سے ان کے گھر کھیت کھلیان پانی کی زد میں ہیں اور وہ اپنی زندگی بچا کر اب دریا کے پانی کے کم ہونے کے منتظر ہیں تاکہ پانی خطرے کے نشان سے کم ہو اور وہ ایک بار پھر اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔جب دریا خطرے کے نشاں کو عبور کر لیں تو وہ پْلوں کو توڑ دیتے ہیں اور پھر راہ میں آنے والی ہر چیز کو بہاکر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ آج پاکستان کے طول و عرض کو ایک طرف موسلادھار بارشوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے تو دوسری طرف دریا تو ایک طرف شہروں دیہاتوں کے ندی نالے بھی قابو سے باہر ہو گئے ہیں اور پھر سیلابی ریلوں نے تباہ کاریاں بھی جاری ہیں جو انسانوں کے ساتھ مال و اسباب کو بھی بہا کر لے جا رہی ہیں۔ اور انسان ان سے بچائوکے لئے حتی المقدور کوششیں کر رہا ہے۔
پاکستان اور قوم کی ترقی کے لئے کالا باغ ڈیم ضروری مگر صرف صوبہ سندھ اور صوبہ پختونخواہ کی بعض سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں کے اعتراضات اور احتجاج کی وجہ سے یہ منصوبہ التوا کا شکار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے پاکستانی قوم کو اندھیروں سے نکلنے اور اس کی صنعتی ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ ہے یہ اعتراضات صرف غلط فہمیاں ہیں اور بجلی کی کمی کا بہترین حل کالا باغ ڈیم ہے۔اس ڈیم کا پانی باقی صوبوں سے زیادہ سندھ کو ملے گا۔
دوسرا یہ ڈیم بننے سے صوبہ سندھ کو سیلاب کا خطرہ بھی کم ہو جائے گا۔صوبہ سندھ اور خیبر پختونخواہ کے لوگوں کے خدشات اور اعتراضات کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں ہمیشہ رکاوٹ بنے رہے۔ جبکہ دوسری طرف بھارت سندھ طاس کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے ہی دریاوں پر اپنے علاقے میں کے قریب کئی ڈیم بنا چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہمارے دریا خشک ہو رہے ہیں۔
البتہ جب کبھی سیلاب کا خطرہ ہو تو وہ سیلابی پانی ہمارے دریاوں میں بھیج دیتا ہے اور سیلاب کی صورت ہمارے علاقوں میں تباہ کاری کرتا ہے۔دنیا میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے۔ جس کا حل نہیں نکالا جا سکتا۔ اس لئے کالا باغ ڈیم کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ اس ڈیم کے نہ بننے کا انجام یہ ہوا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھتی گئی اور ہمارا ملک کی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا۔ حکومت کو چاہیے ،ملک کی ترقی اور انسانی زندگیوں کی بحالی کے لیے اقدامات کرئے اور مضبوط اقدامات کرے ، تا کہ انسانی جانوں کا ضیاع روکا جا سکا۔
Sajjad Ali Shakir
تحریر : سجاد علی شاکر فنانس سیکرٹری پنجاب(ccp) sajjadalishakir@gmail.com 03226390480