کون کہتا ہے کہ گل مرجھا کے کھل سکتے نہیں اُن سے ملواتا ہے تو جو لوگ مل سکتے نہیں
اے کتب خانے متاع ِعلم کے گنج ِخطیر اے کہ تیرا ہرورق اِکلکّۂ ابر ِمطیر تجھ میں تاب ِمہر تاباں جلوئہ ماہ ِمنیر تیری سطریں حاصل ِنبض ِحکیمان ِکبیر بادئہ افشردئہ افکار تیرے خم میں ہے جزر ومد ِفکر انسانی تیرے قلزم میں ہے تیرے ہر قطرے میں جولانی ہے رود ِنیل کی مورتیں ہیں تیرے زرّیں طاق میں تحصیل کی عظمتیں ہیں تیرے سقف وبام میں تکمیل کی تیرے گوشوں میں ہوا ہے دامن ِجبریل کی تجھ میں ہیں وہ زمزمے آغازاور انجام کے اہل ِدِل سننے کو آتے ہیں کلیجہ تھام کے تیرے ہر اِک دائرے میں دولت ِعلم ونظر تیرے ہر مصحف کی زرّیں جلد میں روح ِبشر ہاں بہ شکل ِحرف وہ غنچے ہیں تجھ میں جلوہ گر کلک ِجاں پرور نے چٹکایاتھا جن کو چوم کر علم کے وہ ساز جن میں نغمہ ٔادوار ہے اُن کی تیرے گنبد ِالفاظ میں جھنکار ہے اے کہ لفظوں سے تیرے شمس وقمر ہیں منفعل اے بہار ِپائیدار ،اے رنگ وبوئے مستقل تجھ میں ہیںکتنے دماغ اے طاق ِعالی مشتعل کتنے رِندوں کے دھڑکتے ہیں تیرے سینے میں دِل آب وتاب ِخورد بین وجلوئہ گل تجھ میں ہے فلسفی کی فکر شاعر کا تخیل تجھ میں ہے تیرے گوشوں میں کہیں تو ہے مناجاتوں کی گونج اور کہیں ارباب ِحل وعقد کی باتوں کی گونج اور کہیں گل بانگ میں ڈوبی ہوئی راتوں کی گونج اور کہیں ارباب ِپیشیں کی ملاقاتوں کی گونج کون کہتا ہے کہ گل مرجھا کے کھل سکتے نہیں اُن سے ملواتا ہے تو جو لوگ مل سکتے نہیں
Shabbir Hasan Khan Josh Afridi
شاعر ِانقلاب شبیر حسن خان جوش آفریدی ملیح آبادی ٥دسمبر١٨٩٤تا ٢٢فروری١٩٨٢ئ