تحریر : لقمان اسد کرہ ارض پر انسانی تاریخ کی ابتداء ہی سے بڑے، گناہوں کا سرزد ہونا اور وجود میں آنا ایک لازمی امر ٹھہرا جب اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالی کی محض عبادت اور اللہ تعالی کے مکمل احکامات کی پابندی کرنے کی غرض سے پیدا کیے گئے فرشتوں نے کہا کہ ”اے ہمارے رب !انسان میں چونکہ خطا کا عمل ہونا لازمی اور فطری شے ہوگا اس لئے ایسی مخلوق کا پیدا کرنا مناسب نہیں ”مگر اللہ تعالی کی ذات کو اپنے فیصلے صادر کرنے اور پھر ان پر عمل درآمد کرنے سے کون روک سکتا ہے اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا ،پھر اماں حوا کو اور پھر ہم سب انسان پیدا ہوئے یعنی قیامت جتنے انسان پیدا ہوتے رہیں گے وہ سب کے سب حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کی اولاد ہیں اللہ تعالی نے تو ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد بناکر ہم سب انسانوں کو یہ سبق اور نصیحت کردی کہ ہم تمام انسان آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں۔
مساوات اور عدل کا ایسا نظام وجود میں لائیں کہ جس سے کسی کمزور کی حق تلفی کا اندیشہ تک نہ رہ جائے زمین پر ایک انسان دوسرے انسان کو برابر سمجھ کر اس کے ساتھ انصاف کا معاملہ اور برتائوں کرے مگر چونکہ انسان میں عقل شعور ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی فطرت میں خطائوں اور گناہوں کا بھی عمل پایا جاتا ہے تو وہ اپنے ہی جیسے انسان کے ساتھ ناروا رویہ بھی اختیار کرلیتا ہے ایک طاقتور ہے یا ایک انسان امیر ہے تو طاقتور ،کمزور کا حق کھانے کو گناہ نہیں تصور کرتا اور اگر ایک امیر ہے اور دوسرا غریب تو امیر ،غریب پر ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑنا اپنا فریضہ اوّل تصور کرتا ہے لیکن وہ معاشرے جن میں نظام میں عدل میں کوئی کمزوریاں اور خامیاں نہیں وہاں یہ تصور ممکن نہیں کہ کوئی اپنی امارت اور طاقت کے زور پر کسی بھی کمزور سے کمزور تر انسان کے ساتھ ناانصافی برت پائے گا۔
تمہید طویل ہوتی جارہی ہے شاید اس لئے بھی کہ ایک لکھنے والا کا یہ المیہ بھی ہوتا ہے کہ وہ دل میں یہ جذبہ اور امنگ رکھتا ہے کہ میں کچھ ایسا لکھ دو کہ جس سے کسی کو انصاف مل پائے یا جس تحریر کے اثر سے اگر کسی کے ساتھ کسی بااختیار نے انصاف نہیں کیا تو اس کے دل میں یہ رحم بھی اور یہ خوف بھی پیدا ہوجائے کہ آج تو اُس کے پاس اختیار ہے ،آج تو وہ اپنے عہدہ اور اپنے عہدہ کے طفیل ملی ہوئی طاقت کے بل پر ایک مظلوم ،بے سہارا، غریب ، کمزور ،ناتواں اور لاچار کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں مگر کل کو جب وہ بااختیار شخص اللہ کے حضور اللہ کی عدالت میں کھڑا ہوگا تو ادھر وہ اپنے عہدہ کا رعب اس انصاف کرنے والی ذات کی عدالت میں ہرگز ہرگز نہ جماسکے گا۔تب تو ذرہ ذرہ کا حساب لیا جائے گا۔
ALLAH
قیامت کے دن کا آغاز رب تعالی کی اس گفتگوکے ساتھ ہوگا کہ جب کائنات کے بڑے بڑے دبدبے والے بادشاہ جن میں مسلم اور غیر مسلم بھی شامل ہونگے یوں کہیے بے جاں نہ ہوگا کہ فرعون ، قارون ،حامان، ہٹلر جیسے بھی موجود ہونگے تو اللہ تعالی ارشاد فرمائینگے ”ہے کوئی ایسا آج یہاں موجود جو یہ کہ سکنے کی جرأت کرے کہ آج اس کی بادشاہی ہے؟اللہ تعالی فرمائینگے دنیا کے بادشاہوں!آج میری بادشاہی ہے (بادشاہی تو ہمیشہ سے اللہ کی ہے مگر وہ جو نظام قدرت سے اور اللہ کی اطاعت سے باغی ہوئے)تو وہاں کسی کو لب ہلانے کی جرأت نہ ہوگی وہ بہت کڑہ اور سخت دن ہوگا اور اس دن کی گرمی کی شدت ناقابل برداشت ہوگی تب ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر سارے کے سارے کائنات کے سردار، امام الانبیاء ، سرور کونین ،عالی مرتبت و عالی مقام ،جناب سیدنا محمدرسولۖ کے تشریف لے جائینگے اور درخواست کریں گے کہ اے آمنہ کے لال آج کا دن بہت سخت ہے آپۖ اللہ تعالی سے فرمائیں کہ حساب کا عمل شروع کیا جائے۔
جناب ڈی پی او لیہ صاحب !عرض خدمت یہ ہے کہ 22-04-2015کی صبح 7بجے کے قریب محلہ فیض آباد سٹی لیہ کا رہائشی نوجوان اعجاز حسین کھوکھر اپنے بچوں اور بوڑھے والدین کیلئے ناشتہ کا سامان لینے کی غرض سے نکلا تو گھر کے ساتھ ہی کچھ فاصلہ پر موجود تین اوباشوں نے جن میں قلندر عباس، فضل عباس اور فخر عباس شامل ہیں نوجوان پر قاتلانہ حملہ کیا جس کے نتیجے میں اعجاز حسین کھوکھر شدید زخمی ہوگیا ساتھ ہی حملہ آوروں نے ظلم یہ کیا کہ کسی محلہ دار یا گھروالوں کو زخمی اعجاز کے قریب تک اوباشوں نے نہ آنے دیا اور مسّلح ہوکر اس کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے رہے بعد میں جب ریسکیو1122کو اطلاع ہوئی تو ریسکیو کی گاڑی شدید زخمی حالت میں اعجاز حسین کو ڈسٹرکٹ ہسپتال لیہ لے گئی لیکن چوٹیں اس قدر شدید اور زخم اس قدر گہرے تھے۔
ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر عمران مسعود نے فوری طور پر معاملے کوSeriousاور Uncounsiousقراردیکر نشتر میڈیکل ہسپتال ملتان ریفر کردیا اور مقامی پولیس نے چھوٹے بھائی مبین کی مدعیت میں ایف آئی آرنمبری191/15بجرم 324درج کرلیا مزید تفتیش کیلئے سب انسپکٹر سیف اللہ کو مقدمہ کی فائل سونپ دی گئی میں نے جب ذاتی طور پر اس معاملہ کی صورتحال سے آگاہی کے لئے مقتول کے چھوٹے بھائی اور مقدمہ کے مدعی محمد مبین کھوکھر سے معلومات لیں تو مبین نے بتایا کہ ڈیڑھ ماہ تک میرا بھائی نشتر ہسپتال ملتان زندگی اور موت کی کشمکش میں رہا جبکہ مقدمہ کے تفتیشی پولیس آفیسرسیف اللہ نے ایک بار بھی نشتر ہسپتال کا چکر لگایا اور نہ ہی میرے بھائی کی میڈیکل رپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ہمارے رابطہ کرنے کے باوجود وہ لیت ولعل سے کام لیتا رہا۔
Bribery
کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ وہ ملزمان سے بھاری رشوت لیکر ساز باز کرچکا تھا ۔ملزمان نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے ہمارے بھائی کو نشتر ہسپتال ملتان سے ڈسچارج کروایا اور ہم مجبوراً اپنے بھائی کو ڈسٹرکٹ ہسپتال لیہ لے آئے بھائی کی حالت دیکھ کر ڈسٹرکٹ ہسپتال لیہ کے ڈاکٹر نے دوبارہ ملتان ریفر کردیا۔ محمد مبین کھوکھر نے یہ بھی بتایا کہ جب میرا بھائی لیہ ہسپتال تھا تو ہمارے رابطہ کے باوجود سیف اللہ لیہ میں بھی میرے بھائی کی حالت دیکھنے تک نہ پہنچا اور نہ ہی ڈی ایچ کیو لیہ سے اس حوالے سے ریکارڈ حاصل کیا محمدمبین نے یہ بھی بتایا کہ سیف اللہ نے ملزمان سے ساز باز اور مک مکا کرکے دو ملزموں کو اپنی تفتیش میں بے گناہ قرار دیدیا۔
جب ہمیں یہ خبر ہوئی تو ہم نے مقدمہ کی تفتیش کی تبدیلی کی درخواست گزاری اس دوران جب تفتیشی آفیسر مہر عبدالستار ایس ایچ او کوٹ سلطان ہمارے مقدمہ کے مقرر کردیئے گئے تو دو ماہ میں پہلی مرتبہ تفتیشی آفیسر ہسپتال میرے بھائی کی حالت دیکھنے پہنچا اور میرے بھائی سے جو کہ اس وقت ہوش میں آچکا تھا سے بیان قلمبند کرائے جو کہ صفحہ مسل پر موجود ہے ۔ جناب ڈی پی او لیہ صاحب مختصراً عرض خدمت یہ ہے کہ آپ کے پاس آج جو عہدہ اور اختیار ہے یہ یقیناً اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہوا ہے تو آپ اپنے عہدہ اور اختیار کو اللہ تعالی کی عطا سمجھ کر اپنے عہدہ اور اختیار کو مظلوموں کے حق میں یعنی انہیں ظالموں سے چھٹکارے اور انصاف دینے کی خاطر استعمال کریں۔
ایک 6سال کا معصوم امیر حمزہ انصاف کی خاطر آپ کی طرف دیکھ رہا ہے اور مقتول کا پورا مظلوم خاندان بھی۔جنابِ غازی صلاح الدین صاحب یہ آپ کا فریضہ ہے کہ آپ اس کیس کے پہلے مقرر کیے گئے تفتیشی آفیسر سے بھی ضرور باز پرس کریں کہ آخر کون سی ایسی مجبوریاں حائل تھیں کہ وہ دو ماہ تک آخر کیوں زخمی اعجاز حسین کی حالت تک دیکھنا اسے گوارہ نہ ہوا دوسرا اس ضمن میں ضروری ہے کہ آپ خوداس کیس کی نگرانی کریں تاکہ سفاک مجرموں کو اپنے کیے کی سزا مل سکے اور وہ اپنے انجام کو پہنچیں۔