تحریر : اختر سردار چودھری کسووال ایک وقت تھا کہ بر صغیر پاک و ہند پر مسلمان حکمران تھے، مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زائد تک برصغیر پاک وہند پر حکمرانی کی، اقلیت میں ہونے کے باوجود حکومت، رفتہ رفتہ مسلمان برصغیر میں دوسری بڑی اکثریت بن گئے لیکن پھر ان کی گرفت کمزور ہونی شروع ہو گئی۔
ایسا اس لیے ہوا کہ حکومت نااہل جانشیوں کے سپرد ہوئی جو آپس میں ،حکومت حاصل کرنے کے لیے جنگ و جدل میں مصروف ہو گئے، اس طرح وہ کمزور ہوتے گئے۔ اس کی وجہ اپنے مقصد سے ہٹ جانا بھی تھی، آپس میں نا اتفاقی ،دین اسلام سے دوری۔ عیاشی، عاقبت نااندیشی وغیرہ مغل بادشاہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد برسراقتدار آنے والے مغل حکمران برائے نام تھے۔ جو نااہل تھے، آپس میں اقتدار کے لیے جنگیں کرتے رہے۔
بہا در شاہ ظفر مغلیہ سلطنت کا آخری چراغ تھا ۔اس نے کوشش کی لیکن اب وقت گزر گیا تھا ،پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا ،وہ پلٹا ،کسی حد تک جھپٹا لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ بہادر شاہ ظفر انگریزوں کے ہاتھوں قید ہوا۔ رنگون میں کسمپرسی کے عالم میں ابدی نیند سو گیا۔ اس کو نقصان پہچانے میں غدار بھی پیش پیش تھے۔ان غداروں نے انگریز سے جاگیریں حاصل کیں ۔اس کو دلچسپی سے پڑھا جائے گا کہ جن مسلمانوں نے مسلمانوں سے غداری کی ان کو جاگیریں ملیں جن کی باقیات اب بھی ملک میں ہیں۔
مغلوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد100 سال تک برصغیر کا مسلمان بے کسی ،مجبوری اور لڑکھڑاہٹ کا شکار رہا۔ اس پر زندگی مشکل کر دی گی اور موت آسان ۔برصغیر کے مسلمان اب بیدار ہونا شروع ہوئے ۔اب ان کو غلامی میںآزادی کی قدر یاد آئی ،آزادی کی تڑپ پیداہوئی ،جن خامیوں ،غلطیوں ،کوتا ہیوں کی وجہ سے آزادی غلامی میں بدلتی ہے ان کو دور کرنے سے آزادی ملتی ہے لیکن اس کے لیے سزا کے طور پر قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔
اب برصیغر کے مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی ،اتحاد ،اتفاق،علم،جدوجہد ،اسلام کی تعلیمات پر عمل شروع ہوا ۔یہ تڑپ عارضی نہ تھی ،اس دور میں بہت سی آزادی کی تحریکیںاٹھیں ،نظام سے حکومت سے ٹکرائیں کمزور ہونے کی بنا پر دم توڑتی رہیں لیکن سوئے ہوئوں کو جگانے کا باعث بنتی رہیں ،ٹیپو سلطان کی شہادت سے لے کر علماء کرام کی جدوجہد بہادری تک 1857 ء کی ناکام جنگ آزادی تک ایسی بے شمار تحریکں اپنی شمع روشن کرتی رہیں۔
اس کے بعد مسلمانوں کو وہ لیڈر ملے جنہوں سے آزادی کے لیے دیرپا منصوبے بنائے جن میں سر سید احمد خان ،مکتبہ دیوبند اور دیگر درجنوں ،تنظیمیں ،ادارے ،جماعتیں،وغیرہ وجود میں آئیں ۔ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ بنی جس کی چھتری تلے آزادی کی جہدوجہد شروع ہوئی ۔جو 1947 ء کی کامیاب سعی ء آزادی سے ہمکنار ہوئی ۔یہ آزادی ہمیں یو نہی نہیں مل گئی اور نہ ہی آزادی کوئی ایسی نعمت ہے جو بغیر کوشش کے مل جاتی ہے، نہ ہی اسے کوئی پلیٹ میں رکھ کر پیش کرتا ہے اس کے لیے قربانیں دینا پڑتی ہیں ،بھولا ہوا سبق ہماری نوجوان نسل کو یاد کروانا ،اس یوم آزادی کا مقصد ہے۔یہ آزادی ایک نعمت ہے جس کی قدر غلاموں سے پوچھیں ۔ اس لیے پاکستان کے باشندوں سے درخواست ہے کہ آزادی کی قدر کیجئے۔پاکستان کو قائم ہوئے 68 سال ہو گئے ہیں اور جس مقصد کے لئے پاکستان حاصل کیا گیا وہ مقصد اب موجودہ نسل بھول چکی ہے ۔آج ہم ایک بے مقصد قوم بن چکے ہیں۔
Pakistan
کہنے کو پاکستان آزاد ملک بن گیا مگر اپنے قیام کے تھوڑے دنوں ہی بعد کرپٹ حکمرانوں کے شکنجے میں پھنس گیااور اب جاگیر داروں کے جن کو انگریزوں نے جاگیریں عطا کی تھیں ،یہ جاگیریں ان کو غداری کی وجہ سے ملیں تھیں چاہیے تو یہ تھا کہ ان سے جاگیریں ضبط کر لیں جاتی ،لیکن ایسا کچھ نہ ہو سکا بلکہ آزاد ہو کر بھی آزاد نہ ہوا ۔آج ہمارے ملک میں وہ آئین(اسلامی شریعت) نافذ نہ ہو سکا جس کے مقصد کو سامنے رکھ کر جہدوجہد کی گی تھی ملک میں ایسے حکمران اقتدار میں آئے جن میں سے اکثریت امریکہ و برطانیہ کی ذہنی غلام تھی ،صدیوں سے غلام تھی اور آج جس مقصد کے لیے قیام پاکستا ن کے قیام کے لیے ہمارے بزروگوں نے جان مال ،عزت کی قربانیاں دیں تھیں وہ مقصد ہم بھول گئے۔
ہر سال یوم آزادی پر ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں مگر صرف ایک دن کے لیے اور پھر اس کو بھول جاتے ہیں اسی وجہ سے ترقی معکوس کا سفر جاری ہے ۔کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے ،بنگلہ دیش ہم سے الگ ہو چکا ہے ،بلوچستان میں حالات ویسے بنتے جا رہے ہیں(خاکم بدہن) جیسے کبھی بنگلہ دیش کو الگ کرنے کا سبب بنے ،وزیرستان کا حال سب کے سامنے ہے ۔قبائلی (فاٹا) پر حکومت کی رٹ نہیں ،سندھ کے حالات بھی خراب کیے جا رہے ہیں۔
اگر ہم آزادی کی قدر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے کردار و عمل کو اسلام کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ کیونکہ اسلام کے نفاذ کے لیے اسلامی قلعہ بنانے کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔آیئے ہم سب عہد کریں کہ ہم پاکستان میں شریعت کے نفاذ ،،فرقہ پرستی کے خاتمہ،اور پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے جہدوجہد کریں گے اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین