تحریر : روہیل اکبر شکر ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر ملکر جمہوریت کو بچا لیا اس بار اگر آئین اور قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے 33 اراکین قومی اسمبلی کو مسلسل غیر حاضریوں کی بنا پر اسمبلی سے فارغ کر دیا جاتا تو جمہوریت کا جنازہ نکل سکتا تھا اسی لیے تو حکومتی جماعت اور اپوزیشن جماعت اسی طرح اکٹھی ہو گئی جس طرح پچھلے سال پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملکر جمہوریت کو بچائے رکھا تھا۔
اسی لیے تو سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے جمہوریت کو کندھا دینے کے لیے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے ٹیلی فون کے زریعے قرار داد واپس لینے کی درخواست بھی کی تھی یہ وہی الطاف حسین ہیں جن کے خلاف حکومت غداری ،ملک دشمنی سمیت کئی مقدمات قائم کرنا چاہتی ہے اور حکومتی وزیر پانی و بجلی جن سے اپنی وزارت اور زبان تو سنبھالی نہیں جارہی وہ آئے روز کسی نہ کسی کے خلاف بول کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں جن کے بارے میں ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ انہیں غصہ کس پر ہے۔
جبکہ مولانا فضل الرحمن جو پچھلے پانچ سال زرداری کے ساتھ ملکر جمہوریت کی گاڑی کو دھکا لگاتے رہے اس بار بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ ملکر اسی قومی جمہوری ٹرانسپورٹ کمپنی کی گاڑی کو کھینچ رہے ہیں جس میں پاکستان مسلم لیگ ن کے 188،پاکستان پیپلز پارٹی کے 46،پاکستان تحریک انصاف کے 33، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے 24، جمیعت علماء اسلام (ف) کے 13،پاکستان مسلم لیگ (ف)5،جماعت اسلامی کے 4،پختونخواہ عوامی ملی پارٹی کے 4، نیشنل پیپلز پارٹی کے 2،پاکستان مسلم لیگ کے2،عوامی نیشنل پارٹی کے 2،بلوچستان نیشنل پارٹی کے2،قومی وطن پارٹی(شیرپاؤ) کے 2، پاکستان مسلم لیگ (ضیاء شہید)کا ایک ،نیشنل پارٹی کا ایک ،عوامی مسلم لیگ کا ایک ،عوامی جمہوری اتحاد پاکستان کا ایک ،آل پاکستان مسلم لیگ کا ایک اور آزاد جیت کر اسمبلی میں آنے والے 9اراکین سمیت 269مسافر سوار ہیںیہ وہ جمہوری مسافر ہیں جن پر کسی نہ کسی دور میں کسی نہ کسی آمر کا دست شفقت رہاکوئی بیٹا بن کر تو کوئی خوش آمدی بن کر آمریت کی چھتری تلے پروان چھڑتا رہا۔
Democracy
آج یہ سب آمریت کے دشمن بن کر جمہوریت کو پروان چڑھا رہے ہیں اسی لیے پاکستان تحریک انصاف کو اسمبلی سے ڈی سیٹ نہیں ہونے دیا گیا کہ کہیں وہ ایک بار پھر عوام کے پاس نہ چلی جائے جمہور کے نام پر جمہوریت کرنے والے ہمارے سیاستدانوں کا جمہور سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا آپ یوں سمجھ لیں کہ ایک آئی جی جیل خانہ جات کاجیل کے ایک قیدی سے تعلق ہوتا ہے ہمارے سیاستدان الیکشن جیتنے کے بعد جس جمہوری بس پر سوار ہوتے ہیں وہ پھر بس نہیں رہتی بلکہ اڑن کٹولا بن کر عوام کی بس کروادیتی ہے اور ان جمہوریت کے رکھوالوں کو اڑا کر دور لے جاتی ہے جہاں عوام کا ان سے رابطہ ختم ہوجاتا ہے آپ صرف لاہور کے حلقہ این اے 119سے جیتنے والے امیدواربرائے قومی اسمبلی حمزہ شہباز شریف کا ہی جائزہ لے لیں 2013 الیکشن میں 107735 ووٹ لیکر ایسے غائب ہوئے کہ اب تک اپنے حلقہ میں نظر نہیں آئے وہاں کے ووٹروں نے الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی کے سربراہ اور اس وقت کے صدر پاکستان کے خلاف بڑے ہی دلچسپ اور رنگین نعرے بھی لگائے تھے۔
جبکہ خادم اعلی پنجاب زرداری کو لاہور کی سڑکوں میں گھسیٹنے کی باتیں کرکے اور بجلی پیدا کرنے کے دلفریب نعرے دے کر ایسے جمہوریت کے رکھوالے بنے کہ اب ایک طرف جمہور سیلاب میں ڈوب رہی ہے تو دوسری طرف اسی جمہوری عوام کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں ہورہی ہیں قصور میں ہونے والے انسانیت سوز واقعہ نے پوری دنیا کے دل رکھنے والے انسانوں کودکھی کردیا مگر ہمار ے یہ جمہوریت پسند حکمران سوائے مذمت اور انکوائریوں سے آگے نہیں گذرتے اور جن کے حق کے لیے اسمبلیوں میں بیٹھ کر لمبی لمبی چھوڑی جاتی ہیں وہ بیچاری عوام اپنے حکمرانوں سے اپنا حق لینے کے لیے کبھی سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی حکمرانوں کی وفادار پولیس سے لاٹھیاں کھاتے نظر آرہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی شکر ہے کہ اس بار بھی جمہوریت بچ گئی پچھلے پانچ سال پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت تھی جس میں عوام بجلی ،پانی اور گیس کے لیے ترستے نظر آئے اسی دور میں حکمرانوں نے اربوں روپے کا ٹیکہ بھی عوام کو لگایا جو اب نیب سے ڈر کر بھاگ رہے ہیں۔
آصف علی زرداری نے بطور صدر ملک میں جمہوریت کو بچانے کے لیے تمام جمہوری اداروں کو داؤ پر لگا دیا ہر کسی کو خوش کیا ملک میں وزارتیں ایسے بانٹی گئی جیسی نانا جی کی حلوائی کی دوکان ہومحض اس لیے کہ ملک میں جمہوریت بچ جائے عوام بے شک پس جائے مگر شکر ہے کہ ملک میں جمہوریت بچ گئی آصف علی زرداری اور انکے حواری خوب جمہوریت سے لطف اندوز ہوتے رہے اب مسلم لیگ ن کی باری ہے۔
ملک میں جمہوریت کو بچانے کی جس طرح پچھلے پانچ سال میاں نواز شریف نے آصف علی زرداری کے ساتھ ملکر جمہوریت کی گاڑی کو دھکا لگائے رکھا تھا اب بلکل اسی طرح آصف علی زرداری اور انکی پارٹی میاں نواز شریف کی حکومت کو کندھا دیے ہوئے تاکہ جمہوریت کی آڑ میں جمہور کا جو جنازہ جا رہا ہے اسے منزل مقصود تک پہنچایا جائے مگر امید ہے کہ جو آپریشن فوج کی سرپرستی میں رینجر اور نیب نے شروع کررکھا ہے اس سے بہت سے جمہوریت کے دعویداروں کی اصل حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ جمہوریت کو بچانے کے لیے کس نے کتنی قربانیاں دی ہیں ملک کے عوام کو وعدوں کا لالچ دیکر کتنا لوٹا گیا کس کے حصے میں کیا آیا کتنے لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات کو ترس گئے مگر شکرہے کہ جمہوریت ایک بار پھر بچ گئی۔