تحریر : عارف رمضان جتوئی ماہ اگست کی جب پہلی کرنیں دنیا کے چہرے پر پڑتی ہیں تو ایک احساس معاہر پاکستانی کے وجودمیں اترتامحسوس ہے۔دل ایک عجیب طرح کی تازگی محسوس کرتاہے اور ایک لہرسی اٹھتی ہے جو پورے وجود کوگرما جاتی ہے۔سانسوں میں آزادی کی ٹھنڈک نمایاں ہوتی ہے اور سینہ یک لخت چوڑا ہوجاتا ہے۔ہر سو ہریالی دوگنی ہو کر خزاں کی شکنوں کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ہر شخص پاکستانی بن جاتا ہے کوئی مہاجر‘سندھی‘بلوچی‘پنجابی‘پٹھان‘سنی‘شیعہ وہابی‘ایم کیوایم‘پیپلز پارٹی‘ن لیگ اور تحریک انصاف نہیں رہتا۔اگست کاگزرتا ہر دن جسم میں ایک نئی روح جسم میں پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔جہاں آزادی کی خوشی کے ہر سو پہرے ہوتے ہیں وہیں کچھ کمزور جسموں میں یادوں کی قدیمی بیماری ایک مرتبہ پھر سے سر اٹھا لیتی ہے۔کچھ ذہنوں میں پرانی لہو میں سینچی ہوئی ایک فلم چل پڑتی ہے۔ہر انگ سے درد کی ٹیسیں اٹھنا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر ایک آہ نکلتی ہے اور شہداء آزادی پاکستان کی روح کو خیرا کر جاتی ہے۔
آہ میں اپنے ملک میں ہوں سلامت ہوں۔کوئی پابندی بھی نہیں اور نہ کسی قسم کا کوئی خوف ہے۔نہ تو کہیں بلوائیوں کا اچانک حملہ اور نہ کہیں الاؤ جلائے بستیوں کو آگ لگاتی ٹولیاں ہیں۔میں ایک ایسے ملک میں سکون سے رہ وہا ہوں جہاں نہ تو نیزوں کی جھنکار ہے اور برچھیوں میں پرؤ ے بچے۔یہ تو خون لیکر کھینچ کر بنا کر دیا گیا میرا پاکستان ہے۔اس کی عظمت اور تکریم کے گن کیا گانے جب ایک ماں اس ملک کے جھنڈے سلامی دینے کے لئے نیزے پر اپنے معصوم بچے کو پرو دیتی ہے۔میں اس ملک میں ہوں جہاں جانوں کے نذرانے دینے والوں کاحساب لگانا ممکن نہیں رہا تھا۔کیا عظمت اس پاک سر زمین کی جس کے بانیان خطے کی عظیم شخصیات تھیں جنھوں نے اعلی عہدوں کو لات مار کرمیرے ملک کو دوام بخشا۔
آہ وہ خاندان جس نے اپنے گھرکے ایک فرد کوصرف اس امیدپر میرے ملک کی سرحدوں تک بھیجا کہ صرف ایک سجدہ کر کے ان سب شہداء کو خراج عقیدت پیش کر سکے۔میں کیوں نہ بار بار چوموں اپنے ملک کی پاک مٹی کو جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے خاندانوں کے خاندان ملیا میٹ ہوگئے۔بھری لدی ٹرینیں آگ وخون میں تڑ پاری گئیں تھیں۔میں تو اپنے ملک کی عظمت شان و شوکت کا ادراک بھی نہیں کر سکتا۔کتنے مدبر تھے میرے ملک کے لیڈرجنھوں نے اس اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا کہ کسی بھی سکھ یا ہندوکو کھروچ تک نہیں آنے دی۔
India
میں یہ کیسے نظر انداز کرسکتا ہوں کہ جب 15اگست کو بھارت آزاد ہواتو امرتسرمیں وہ روزکیسے منایا گیا۔جان کو نیلاپنی کتاب”اکنلیک“میں لکھتا ہے کہ اس روز سکھوں نے مسلمان عورتوں کو برہنہ کر کے ان کا جلوس نکا لااور گلی کوچوں میں گھوماتے رہے اور پھر سارے جلوس کی عصمت دری کی گئی۔کچھ کو کرپانوں سے ذبح کر دیا گیاباقی کو زندہ جلا دیا گیا۔میں جب اپنی تاریخ کو پڑھتاہوں تو میں اپنے وطن کوسلام پیش کرنے سے خود کو روک نہیں پاتا۔ایک ایسے ملک کے باسی ہوکر ہمیں کیوں اپنے وطن سے بار بار اظہار محبت کا یقین دلانا پڑتاہے۔آج ہم اگست کی اس آزادی کی شام کو منائیں تو ضرورکیا
اس سے قبل اور بعد ہم پاکستانی نہیں ہوتے۔یقینا ہم ہر وقت ہر پل پاکستانی ہیں اور ہر وقت ہماری جان اپنے ملک کے تحفظ اور سلامتی کے لئے تیار ہونی چاہیے۔آج بھی ہم ایک پاکستانی نہیں ہو پارہے۔کوئی پیپلز پارٹی تو کوئی ن لیگ ہے‘کوئی تحریک انصاف توکوئی مہاجر ہے۔سب ہی ملک کے لئے یکساں جذبات رکھتے ہیں مگر مل کر متحد نہیں ہونا چاہتے۔کیا ایسا ممکن نہیں کہ سب اکائیوں میں بٹنے کی بجائے مل کر ملک دشمن عناصر اور ممالک کو پیغام دیں کے ہمارے باہمی اختلافات اپنی جگہ تاہم ملک کی سلامتی اور بقا کے لئے آج بھی اور ہر رقت ہم متحد ہیں۔
کیا ہی عجیب امر ہے کہ ہمارا دشمن ہم سب کہ پاکستانی سمجھ کر بلا امتیاز ٹارگٹ کرتاہے اورہم سب ہیں کہ خود کو ایک پاکستانی نہیں سمجھتے۔کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم ہر بار14اگست صرف ایک ہلالی پرچم سائے تلے یکجا ہو کر منائیں جہا ں کسی جماعت‘ تنظیم اور پارٹی کا کوئی جھنڈا نہ ہو۔جس دن ہم سب ایک ہو گئے یقینا اس دن ایک پاکستانی بھی ہو جائیں گے۔اے وطن تجھے سلام۔