تحریر: ابو الہاشم ربانی 1885 ء میں انگریزوں نے ہندوئوں پر نوازشات اور محبت بکھیر کر انہیں اس قدر بیدار کر دیا کہ باہمی گٹھ جوڑ کر کے انڈین کانگریس قائم کر لی۔ وائسرائے دفرن نے مسلمانوں کو تنہا کرنے کے لیے اونچ نیچ اور ذات پات کے فرق مٹا کر ہندوئوں، سکھوں اور اچھوتوں سب کو انڈین کانگریس کے پلیٹ فارم پر اسلام دشمنی کے لیے اکٹھا کر دیا۔ اس دور میں مسلمان انتہائی کسمپرسی کے عالم میں تھے جن کے لیے نہ تو کوئی سیاسی پلیٹ فارم موجود تھااور نہ ہی فرنگی و ہندو استبداد کے لیے کوئی آواز اُٹھانے والی شخصیت۔ فرنگی اور ہندو انڈین کانگریس کے ذریعے ایک ایسا جال پھینک چکے تھے جس سے مسلمان بھی سکھ اور اچھوتوں کی طرح اپنی شناخت مٹا کر کانگریس میں مٹی ہوجائیں اور اس طرح انگریزوں کے لائے ہوئے ایجنڈے پورے ہو جائیں۔ 1886ء میں سرسید احمد خان کی شکل میں ایک ستارہ نمودار ہوا جنہوں نے ”محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس” کی بنیاد رکھی۔
اس پلیٹ فارم کے ذریعے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور سیاسی شعور کو پیدا کرنے کا اہم ترین کام شروع ہوا ۔ بالآخر کانفرنس کی محنت رنگ لائی اور مسلمانوں کی ایک جماعت کھڑی ہوگئی جنہوں نے 1906ء میں وائسرائے ہند منٹو کو یاداشت پیش کی کہ آئندہ مسلمانان ہند کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ اسی سال اسی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلم زعماء نے ڈھاکہ میں 6 دسمبر 1906ء میںآل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھ کر ہندوستان میں تہلکہ برپا کردیا۔ 1914ء کی جنگ کے اختتام پر مسٹر موہن داس اور چند گاندھی ہندوستان کی سیاست میں وارد ہوئے۔ اس دور میں محمد علی جناح نے مسلمانوں کی ملی وحدت اور جداگانہ حق کے لیے حمایت کا بھر پور اعلان کیا۔ دہلی میں 1929ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قائد اعظم نے اپنے چودہ نکات بھی پیش کر دیے۔
دسمبر 1930ء میں الٰہ آباد میں منعقدہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علامہ اقبال نے اپنے خطبہ صدارت میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کا تصور پیش کر دیا ۔ 1933ء میں چوہدری رحمت علی نے ایک پمفلٹ ”Now or Never”میں لفظ ”پاکستان” پیش کردیا۔ 23مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس لاہور میں حصول پاکستان کو نصب العین بنایاگیا۔ اس کے بعد ”پاکستان” آل انڈیا مسلم لیگ کا سیاسی عقیدہ بن گیا۔ 1940ء تک برصغیر کے کونے کونے قریہ قریہ نعرے بلند ہوئے ”بن کر رہے گا پاکستان ، بٹ کے رہے گا ہندوستان” ”پاکستان کا مطلب کیا ، لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ” مسلم لیگ کی پرخلوص اور پرعزم قیادت کے سامنے نہ کوئی فرنگی سازش ٹھہر سکی اور نہ ہی ہندو ئوں کی ریشہ دوانیاں ۔ ایک ہی جوش ، ایک ہی ولولہ، ایک ہی نعرہ، ایک ہی ارمان ”بن کے رہے گا پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان”۔ فرنگی اور ہندو قیادت مسلمانوں کے ارمانوں اور عزم بے کراں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہوگئے اور نتیجتاً 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا الحمد للہ علی ذالک۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک کے لیے بڑے بڑے اور اہم ترین مسائل میں ایک انتہائی اہم مسئلہ مسلم ریاستوں کا الحاق پاکستان تھا۔
ہندوفرنگی نام نہاد گٹھ جوڑ پوری طاقت کے ساتھ اس سازش کے لیے میدان میں اترا کہ کوئی مسلم ریاست کسی صورت پاکستان کے ساتھ الحاق نہ کرسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کسی قسم کے سیاسی معاہدات کی پاسداری نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کی کوئی اخلاقی حیثیت تھی۔ صرف اور صرف دہشت گردی اور سینہ زوری کرتے ہوئے اسلام دشمنی میں غرق یہ لوگ مسلم ریاستوں پر ٹوٹ پڑے۔ برصغیر میں تقسیم کے وقت ریاستوں کی تعداد 562 تھی جن میں 18 ریاستیں مکمل اسلامی تھیں جبکہ 14 ریاستیں تو پاکستان کے ساتھ متصل تھیں۔ریاست جوناگڑھ جو زراعت اور تجارت کے وسائل سے مالا مال ریاست تھی اس پر ہندو اور فرنگی رال ٹپکا رہے تھے اور وہ ہر صورت اس پر قبضہ چاہتے تھے۔ نواب آف جوناگڑھ پاکستان کے پہلے روز یعنی 15 اگست 1947ء کو نہ صرف پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر چکے تھے بلکہ دستاویزات پر دستخط کر کے حکومت پاکستان کو ارسال بھی کردیں جس پر قائد اعظم محمد علی جناح نے بحیثیت گورنر جنرل دستخط کر کے منظورکرلیا۔ پھر کیا تھاکہ ریاست کو بھارتی افواج نے تین اطراف سے گھیر لیا اور سمندر میں بحری بیٹرے پہنچ گئے ۔ طیاروں کے اسکواڈرن ، خطرناک ٹینک ، سامان حرب و ضرب کی بارش کے ساتھ ساتھ انڈین انجینئر اور میڈیکل کور کے دستے بھی پہنچادئیے گئے ۔ خوف و ہراس اور دہشت پھیلادی گئی۔ جونا گڑھ ہائوس پر قبضہ کر کے عملہ گرفتار کر لیا گیا ۔ فوجی ظلم و جبر اور اسلحہ کے زور پر کٹھ پتلی ریاستی حکومت کا شامڑداس گاندھی کو حاکم اعلیٰ بنا دیا ۔ ساری ریاست پر فوجی قبضہ کر کے ہندو ریاست بنا دیا۔
Pakistan
13ستمبر 1948ء میں ساڑے 4 بجے 22 اطراف سے ہندوستانی فوج ریاست حیدر آباد دکن میں داخل ہوئی اس حملے کو آپریشن ”پولو” کا نام دیا گیا۔ چار دن مسلسل لاکھوں انسانوں کا قتل عام اور املاک کی لوٹ کھسوٹ کی گئی جبکہ باقی ماندہ کو نذر آتش کیا ۔ 17 اور 18ستمبر 1948ء کی درمیانی رات کو اس عظیم مسلم ریاست حیدر آباد دکن پر انڈین دہشت گرد فوج نے قبضے کا اعلان کردیا۔ ریاست جموں کشمیر کی سرحد 900 میل پاکستان کیساتھ ملتی ہے۔جس کی 85فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں بہنے والے ندی نالے اور دریائوں کے پانیوں کے قدرتی راستے پاکستان کی طرف ہیں۔1947ء میں ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا تو انہوں نے ہجرت کے لیے پاکستان کا رخ کیااور پانچ لاکھ کشمیری پاکستان پہنچے۔ 27 اکتوبر 1948ء کو بھارتی فوج ،سکھ جتھے ، RSS کے غنڈے ، مہاراجہ کی فوج نے رائل انڈین فضائیہ کے طیاروں، ٹینکوں اور توپوں سے حملہ کردیا ۔ اس سب کچھ کے باجود مجاہدین استقامت سے آگے بڑھ رہے تھے۔ اتنی فوجی قوت اور اسلحہ کی بھرمار کے باوجود مجاہدین کا مقابلہ کرنا انڈیا کے بس کی بات نہیں تھی۔ مجاہدین نے پٹن بارہمولہ سرنگری جرنیلی شاہراہ پرشدید حملہ کرکے کرنل رائے کو نہ صرف پسپا کردیابلکہ مجاہدین کے ہاتھوں بے شمار انڈین فوجیوں سمیت کرنل بھی ہلاک ہوگیا ۔ ہر محاذ سے پسپائی اور کشمیر انڈیا کے ہاتھوں سے نکلتا ہوا دیکھ کر جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ جاپہنچا اور پاکستانی قیادت پر دبائول ڈلوا کر مجاہدین کے بڑھتے قدموں کو رکوا لیا۔آج اس جرم کی سزاء معصوم کشمیری قوم اپنے خون کے نذرانے دے کر بھگت رہی ہے۔مگر آفرین اور سلامِ عقیدت ہے اس قوم کو کہ وہ آج بھی تحریک آزادی کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ اقوام عالم لاکھ آنکھیں بند کر لیں کشمیریوں کا نعرہ حریت آج بھی زندہ ہے۔ ہندو فرنگی ریشہ دوانیوں سے تمام اسلامی ریاستیں انڈیا ہڑپ کر گیا حتیٰ کہ 1965ء میں پاکستان پر کاری ضرب لگانے کی ناکام کوشش کی۔ لیکن اللہ کے فضل و کرم سے اسے ذلت آمیز شکست و ریخت کا سامنا کرنا۔
اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا اور1971ء میں مشرقی پاکستان پر حسب عادت فوجی دہشت گردی کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنا دیا جس کا اقبالی مجرم نریندر مودی آج یہ کہتا ہے کہ مشرقی پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش انڈیا نے بنایاہے ۔ یہ تو ہندو فرنگی سازشیں مسلم ریاستوں کے الحاق پاکستان کی ہیں ۔ آج تک اسلام اور پاکستان دشمنی اور عداوت ہندو کے سینے میں بسی ہوئی ہے۔ ایک بار پھر قیام پاکستان کے وقت جغرافیائی اور اثاثوں وغیرہ کی تقسیم کی طرف چلتے ہوئے ہندو اور فرنگی جیسی بد عہد اور سازشی قوموں کا ” نظارہ ” کرتے ہیں۔ وائسرائے مائونٹ بیٹن اندر سے ہندو مفادات کا مکمل حامی تھا اور ساتھ ساتھ نہایت بدنیت بھی ۔ تقسیم کے بعد بھی دونوں ملکوں کا مشترکہ گورنر جنرل بننے کا خواب بھی اس کی آنکھوں میں سمایا ہوا تھا۔ مگر دوسری جانب مسلمان تو اس بات کو سننابھی گوار نہیںکرتے تھے ۔ سرحدی تقسیم ، اثاثوں کی تقسیم، زرعی و صنعتی ، ذرائع مواصلات ، معدنی وسائل ماہرین کی کمی ،نہری پانی ، تعلیم صحت سرکار ی ملازمین وغیرہ کی تقسیم میں انصاف کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں گئیں۔ مائونٹ بیٹن اور گاندھی جی نے سازش سے سینئر وکیل سر سائڈل ریڈ کلف کو ثالث بنایا اور اسی کے نام پر ہی ریڈ کلف ایوارڈ بنایا گیا۔
آئیے ذرا دیکھئے انصافِ تقسیم اور ریڈ کلف ایوارڈکی کارستانیاں!ریڈ کلف ایوارڈ انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے اس کی مثال تاریخ میں ڈھونے سے نہیں ملتی ۔ یہ ایوارڈ غیر اخلاقی ، غیرقانونی اور انتہائی بدنیتی پر مبنی تھا۔ اس نے برعظیم میں مسلم ہندو دشمنی کا مستقل بیج بویا۔ مائونٹ بیٹن منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بڑی تیزی سے اقدامات کر رہا تھا۔ دوسری جانب کانگریس تقسیم ہند کو مسلم لیگ کی فتح اور اپنی شکست سمجھتی تھی۔ اس نے ہندوستان کی تقسیم کو بھارت ماتا اور گائو ماتا کی تقسیم قراردیا ۔ ہندو قوم نے تقسیم سے دل برداشتہ ہوکر مسلمانوں کو سزاء دینے کے لیے وسیع پیمانے پر لوٹ کھسوٹ ، گھیرائو جلائو اور قتل و غارت کا بازار گرم کردیا اس لیے ریڈ کلف ایوارڈ ہندوئوں کے مصنوعی سخت دبائو میں تھا۔ پنجاب میں مسلم اکثریتی علاقے انڈیا میں شامل کرکے نہ صرف بدنیتی کی بلکہ پاکستان اور انصاف پر کاری ضرب لگائی ۔ گورداس پور اور بٹالہ کی دو مسلم اکثیریتی تحاصیل انبالہ ، فیروز پور کی تحصیل زہرا ہندوستان کے حوالے کر کے انڈیا کی کشمیر تک رسائی ممکن بنادی اور یہی علاقے ہندوستان میں شامل کرنے سے پاکستان کے لیے پانی کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ جالندھر اور نکودر پنجاب کی آٹھ تحاصیل ریڈکلف نے بلا جواز ہندوستان کے حوالے کر کے ”انصاف” کی کالک اپنے منہ پر مل لی۔ ایک طرف مذکورہ بالا مسائل کے حل کے لیے ریڈ کلف ایوارڈ تیار کیا گیاتو دوسری طرف مائونٹ بیٹن سکھوںسے دل لگی کررہا تھا کہ مشرقی پنجاب سے دہلی تک سکھوں کی حکومت ہوگی۔ ادھر یہ سکھ اور مسلم آبادی والے علاقوں میں بٹوارے کرنے لگے تو سکھ اور ہندو اکھٹے ہوکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ہندو اور سکھوں نے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنا شروع کردی۔ ریاستوں کے ہندو اور سکھ راجائوں نے نہایت کمینہ اور ذلیل کردار ادا کیا اور ریاستی فوجوں نے ہندئووں اور سکھوں سے ملکر مسلمانوں کو تہہ و تیغ کیا پولیس بھی غیرمسلم ہندو اور سکھوں کی پشت پناہی کرتی رہی جو مسلمانوںکا قتل عام کر رہے تھے ۔ہر روز سینکڑوں افراد کو قتل کرتے اور ہزاروں کو بہ نوک شمشیر پاکستان کی طرف بھگا دیتے۔
Independence Day of Pakistan
مسلمانوں کے دیہات اور گھر مکمل طور پر نذر آتش کردیئے جاتے اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت مشرقی پنجاب میں5لاکھ مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔ جبکہ 10لاکھ مسلمانوں کو جبری طور پر ہندو اور سکھ بنایا۔50ہزار مسلم عورتیں مشرقی پنجاب میں اغوا کر لی گئیں۔1970ء تک70لاکھ مہاجرین پاکستان پہنچ چکے تھے۔ایک بار پھر کہنا چاہوں گا کہ مائونٹ بیٹن کانگریس کا ہم نوا تھااور پاکستانی معیشت کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔نام نہاد کمیٹی نے چار ارب روپے محفوظ سرمائے سے20کروڑ روپے دیکر باقی ماندہ ادائیگی یہ الزام لگاکر روک دی کہ پاکستان کی فوج کشمیر کی جنگ میں ملوث ہے۔فوج کی تقسیم میں64فیصد انڈیا اور36فیصد پاکستان کو ملنا تھا مگر33فیصد پر ہی ٹرخا دیا کیا گیا۔قیام پاکستان کے وقت متحدہ ہندوستان کے921بڑے کارخانے تھے جن میں سے صرف34پاکستان کے حصے میں آئے۔کپڑے کے394کارخانے کام کررہے تھے۔جن میں سے380ہندوستان اور صرف14 پاکستان کو دیئے گئے۔ ذرائع مواصلات سڑکوں کی کل لمبائی2لاکھ95ہزار میل تھی۔95ہزار پختہ تھیں جن میں سے پاکستان کے حصے میں14ہزار8سو میل سڑکیں آئیں،ریلوے لائن کی کل لمبائی41ہزار141میل تھی جس میں سے پاکستان کے حصے میں صرف7ہزار میل آئی تھی۔فرنگی ہندوکا بٹوارہ سازش کامیاب ہوگئی اور پاکستان دیکھتا رہ گیا۔
معزز قارئین ! ہندو ایک کمینی ، متعصب اور عداوت پالنے والی قوم ہے۔ بیسیوں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہیں ، جو باقاعدہ بھارتی حکومتی ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں۔ ان تحریکوں میں دن بدن شدت بڑھ رہی ہے جو بھارت سرکار کو کھائے جارہی ہیں۔لیکن ہندوئوں کو ہندوستان میں ”ہندو مت” کے علاوہ کوئی مذہب قبول ہی نہیں۔ یہاں نہ تو کسی کی جان، مال ، عزت و آبرو محفوظ ہے اور نہ ہی ان کے عبادت خانے ۔ آئے روز ددسروں کو خون میںنہلانا ہندو قوم کا وطیرہ اور مشغلہ بن چکا ہے ۔ نام نہاد عدالتی کاروائی کرواکر بے گناہ مسلمانوں کا عدالتی قتل صرف عوام کے جذبات کا خیال رکھنے کی عدالتی بے بسی اور سرکار طرح طرح کی شرارتیں اور سازشیں کرنے میں مصرف عمل۔ کبھی LOC ، ورکنگ بائونڈری پر اشتعال انگیزفائرنگ، کبھی عام شہریوں کا قتل ، کبھی کبوتر کا ڈرامہ ، کبھی کشتی کی چیخ و پکار، کبھی گورداس پور تھانہ کی سازش ۔ اصل میں نریندرمودی سرکار انتخابی منہ شگافیوں اور عوام سے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ کشمیر کے ریاستی الیکشن میں جوتے اور وہاں آئے روز پاکستانی نعروں ، نغموں اور پرچموں کی بہار ، BJP سرکار پر ہی نہیں مودی پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ۔ یہ سب وجوہات ہیں جن کے سبب انہیں انڈیا کے اندر منہ چھپانے کو کوئی جگہ نہیں مل رہی تو یہ پاکستان کی طرف منہ کر کے بکواس کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس عادت کو وہ پکا کر چکے ہیں۔ انڈیا سے نہ کبھی پہلے اور نہ آئندہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان کو تسلیم کرے۔ یہ بات عبس ہے کہ وہ اچھے ہمسائیوں کی طرح اچھا رویہ اور اچھے تعلقات اپنائیں۔ میرے خیال میں جتنی حکمت ، دانائی اور قربانی پاکستان کے قائدین نے دی آئندہ کوئی پاکستانی سیاستدان عوام سمیت نہیں دے سکتے۔تو جب ہندو ہمارے آباء و اجداد کے ساتھ امن و آشی کے تعلقات نہیں رکھ سکاتو ہماری سوچ کہ ہم ہندو کو تبدیل کرلیں گے کیا ممکن ہے ؟ نہیں۔
میرے عظیم پاکستانی بھائیوں! برصغیر میں فرنگی اور ہندوئوں کی ثقافت اور وی آئی پی کلچر ان کی مذہبی حیثیت رکھتا تھا۔ اونچ نیچ ، گورے کالے اور برصغیر میں باقاعدہ ولائتی یا فرنگی اور دیسی اصلاحات انہوں نے ہی شروع کیں۔ برصغیر میں ایک ہزار سال مسلسل مسلمانوں نے حکومت کی جس وجہ سے عوام میں مسلم روایات کافی حد تک مقبول تھیں۔ مسلم بادشاہ، وزراء ، حکام اور نواب ایک باقاعدہ تشخص رکھتے تھے۔ شاہی درباروں، نوابوں کے ڈیروں اور دیگر عوامی مقامات پر یہ ثقافتی مناظر بھرپور نظر آتے تھے۔ نہ صرف یہ ایک ثقافت تھی بلکہ مسلم راہنمائوں، افسروں، قاضی کے احترام و اکرام اور وقار کی علامت بھی سمجھے جانتے تھے۔ فرنگی اور ہندئوں سے آزادی حاصل کرنے کے باجود آج بھی ہم ان کی غلامی میں جکڑے نظر آرہے ہیں۔ تعلیمی اداروں ، عدالتوں، حکومتی ایوانوں، ہوٹلز وغیرہ میں، ٹیچرز، جج صاحبان ، سرکاری حکام، بیورو کریٹس اور وی آئی پی مہمانوں کی آمد پر پہلے سے گیٹ پر جناح کیپ اور مسلم زعماء اور نوابوں کی پگڑی پہنے کچھ لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا جو اس بات پر خوش ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں تو اس نے اپنا ٹھکانا جہنم بنا لیا۔ جج صاحبان چوبوتروں پر موجود وکلاء گردنیں جھکا کرآداب پیش کرتے ہیں اور گفتگو میں My Lord کی التجائیں کرتے ہیں۔ بادشاہوں، وزراء نواب اور ملت کے دیگر زعماء جو پگڑی پہنتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابائے قوم قائداعظم اور قوم کے بڑے لوگ جس ٹوپی کا استعمال کرتے تھے آج اردلی اور نائب قاصد کی یونیفارم ہے۔ پاکستانیوں ! الحمد للہ ہمارا ملک ایٹمی اور میزائل پروگرام کا حامل ملک ہے۔ اس کے باشندوں کے سینے نور ایمان سے مزین ، توحید و رسالت کے پروانے اور اسلام پر مر مٹنے کو سعادت اور شہادت سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں جذبہ جہاد سے سرشاراور ہر خطرے کا مقابلہ کرنے والی پر عزم چاک و چوبند افواج موجود ہیں جو افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر امریکہ اور نیٹو کے اتحاد کو شکست سے دوچار کر چکی ہیں۔
وطن عزیز کے اندر دشمن کی پھیلائی ہوئی دہشت گردی کو کچلنے کا اعزاز رکھتی ہے ۔ میری گذارش ہے محترم سیاستدان اور حکام اس طرف توجہ کریں یہ فرسودہ بھگوڑی اور شکست خوردہ اقوام کے پلید کلچر ترک کرکے مسلم تشخص اور اسلامی تہذیب اپنا کر آبائو اجداد اور قوم کا وقار بلند کریں۔ امیر جماعة الدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید یہ نعرے دے چکے ہیں ”نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے”، ”نظریہ پاکستان ہی تکمیل پاکستان ہے” ۔ ”پاکستان اللہ جل شانہ کا تحفہ اور محمد رسول ۖ کی جاگیر ہے”۔ پاکستانی قوم ، سیاسی سماجی اور مذہبی افکار اور نظریات، زبانیں حتیٰ کہ برادی اور خاندان جدا جدا رکھنے کے باوجود اگر اتحاد کر سکتی ہے تو یہ صرف اور صرف نظریہ پاکستان ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو عالم اسلام کی اُمیدوں کا مرکز بنا رہا ہے۔ مسلم ممالک آپ سے اخلاقی اور عسکری مدد کے طلب گار ہیں تو یہ بھی اس کلمہ حق کی عظمت ہے۔ حکمران، افواج اور عوام آگے پڑھیں اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر قائدین تحریک پاکستان کے نعرہ کو ایک بار پھر اسی جوش و لولہ اور جذبہ ایمانی سے لگائیں ، ایک منظم مربوط زندہ بیدار قوم بنیںعلاقائی حدود و قیود سے نکل کر اس عالمی نعرہ کو بلند کریں دنیا آپ کو سلامی دینے کے لیے اپنا رخ تبدیل کررہی ہے۔ مغرب کے غرور خاک میں مل رہے ہیں اور وہ طاقت کے توازن تبدیل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ تاریخ ایک مرتبہ پھر ہمارے آباو اجداد کے نظریاتی اور سیاسی حرارت کو تبدیلی دے رہی ہے۔ بقول مصور پاکستان ، حکیم الامت علامہ محمد اقبال
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تونے؟ تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا؟ کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاج و سردارا