لاہور (اقبال کھوکھر) یوم اقلیت کو”یوم سیاہ” کے طور پر منانے کا مقصدحکمرانوں کو اقلیتوںکے حوالے سے قائداعظم کے ان وعدوں کی یاددہانی کروانا ہے جو انہوں نے قیام پاکستان کے لئے متحدہ پنجاب اسمبلی کے پہلے اسپیکردیوان بہادرایس پی سنگھاسے کئے تھے کہ پاکستان میں آپ کے فیصلہ کن ووٹ کو ہمیشہ یادرکھتے ہوئے ریاستی حقوق یکساں فراہم کئے جائیں گے مگر یہاں ریاستی حقوق تو ایک طرف پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص مسیحیوں کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔
ان کو ناانصافی،زیادتی اور ہرسطح پر استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے گو کہ ہمارے مسائل وحقوق کے لئے معاشرے کے باشعور،حساس اور سول سوسائٹی سمیت متعدد سیاسی وسماجی شخصیات ہمارے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں مگرمجموعی طور پرہماری صورتحال توجہ طلب ہے۔ان خیالات کااظہارقانونی ادارہ CLAASکے ڈائریکٹر وقدیم سیاسی جماعت پاکستان کرسچن نیشنل پارٹی اور21سیاسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان کرسچن الائنس کے نومنتخب چیئرمین ایم اے جوزف فرانسس نے 11اگست کو یوم اقلیت کی بجائے یوم سیاہ مناتے ہوئے پریس کلب لاہور کے سامنے پرہجوم احتجاجی مظاہرہ کے دوران مظاہرین سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام وتکمیل پاکستان میں اقلیتوں کا مثالی کردارتاریخ سے مسخ کرتے ہوئے ہر سطح پر اقلیتوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔لفظوں کے ہیرپھیر سے اقلیتوں کولالی پوپ دینے کی بجائے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اصولوں کے مطابق مساویانہ ریاستی شہری حقوق کی فراہمی ممکن بنانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔پی سی این پی سیکریٹریٹ لاہورسے جاری ہونے والے میڈیا پیغام میں ایم اے جوزف فرانسس نے کہا کہ جب تک اقلیتوں کو برابر کے آئینی حقوق میسر نہیں ہوتے تب تک ہم ہرسال کی طرح یوم اقلیت کو”یوم سیاہ” کے طور پر مناتے ہوئے احتجاج کرتے رہیں گے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قائداعظم کے11اگست کے خطاب کو آئین کاحصہ بنایا جائے اور ان کے تمام وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہمیںحقیقی طور پر برابرکے شہری تسلیم کرتے ہوئے مسیحیوں کے دیرینہ مسائل حل کئے جائیں۔