تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ایجویر روڈ لندن کے لبنانی ریستوران میں ہم دس لوگ آئے ہو ئے تھے ہما را میزبان جمال لندن میں کاروبار کر تا تھا اور یہاں پچھلے 25 سال سے کاروبار کر رہا تھا اور اب وہ ایک مضبوط اور منافع بخش کاروبار کا مالک تھا اِس لیے اُس نے دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ جتنے مرضی لو گ آئیں پاکستان میں میرے دوست کے یہ بڑے بھائی تھے پاکستان میں میرے دوست نے اِسے کہا تھا کہ پروفیسر صاحب کو کھانا کھلانا ہے۔
کھانے کا آرڈر دیا جا چکا تھا اب ہم کھانے کے انتظار میں تھے فارغ وقت کی وجہ سے آپس میں بات چیت چل رہی تھی گفتگو اب پاکستانی کی سیاست پر آگئی تھی یہاں پر زیادہ تر لوگ تحریک انصاف کی حمایت کرتے نظر آرہے تھے جبکہ نواز شریف صاحب کے دیوانے بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے دونوں طرف سے دھواں دار گفتگو اور دلائل بازی ہو رہی تھی۔تحریک انصاف کے حمایتی یہ یقین تکھتے تھے کہ پاکستان کو مشکلوں کی دلدل سے صرف عمران خان ہی نکال سکتا ہے۔
جبکہ نواز شریف لورز یقین کا یقین یہ تھا کہ جس طرح نواز شریف ملک کی خدمت کر رہے ہیں اِس بنا پر اگلا الیکشن بھی نواز شریف بھی نواز شریف ہی جیتیں گے۔دنیا کی کوئی طاقت نواز شریف کو نہیں ہرا سکتی جبکہ عمران خان کے حمایتی اِس یقین پر تھے کہ دھاندلی کی وجہ سے عمران خان الیکشن ہارا ہے اب کوئی طاقت عمران خان کووزیر اعظم بننے سے نہیں روک سکتی ۔ میں خاموشی سے دونوں فریقین کے دعوئے اور دلائل بازی سے محظوظ ہو رہا تھا مجھے پاکستان کے اخبارات اور TVچینل بھی یاد آئے جن پر روزانہ دونوں لیڈروں کے خوشامدی اپنے اپنے لیڈر کو آسمان کی بلندیوں پر بٹھاتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے کالم نگار ،دانش ور ادیب شاعر اورپڑھے لکھے لوگ بھی دو گروپوں میں تقسیم ہو کر اپنی تمام توانائیاں اپنے لیڈروں کی مدح میں صرف کر رہے تھے۔
اپنے لیڈر کی شان اور قصیدہ نگاری میں یہ تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اوراِسی سوچ کا پر چار کر تے نظر آتے ہیں کہ اُن کا لیڈر ہی واحد نجات دہندہ ہے یہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ دونوں لیڈر گوشت پوست کے انسان ہیں اور کو ئی آسمان سے اُتری انوکھی مخلوق نہیں ہیں ۔دونوں کا ماضی داغ دار بھی ہے اور حماقتوں کی لمبی داستان بھی ۔لیکن ہمارے یہ لیڈر اور اِن کے حمایتی کسی کی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں وطن عزیز کے سیاسی لیڈر وں اور اُنکے خوشامدی حواریوں کا رویہ اور انداز دیکھ کر مجھے ایرانی انقلاب کے وقت شاہِ ایران کا فرار یاد آگیا جب وقت کی ایک کروٹ سے وہ آسمان سے زمین پر آگرا آج حکمران تو کچھ بھی نہیںجس عروج اور اقتدار کے نشے کا شاہِ ایران انجوائے کر رہا تھا۔
Pakistan
ایسا بادشاہ جس کے ایک اشارے سے دنیا ادھر سے اُدھر ہو جاتی تھی جس نے ایک روز ایرانی شہنشاہت کا اڑھائی ہزار سالہ جشن منانیکا فیصلہ کیا ماہرین نے تاریخ کی ورق گردانی کی تو پتہ چلا ایرا ن میں بادشاہت کو ابھی ایک ہزار چار سو پندرہ سال گزرے ہیں جب بادشاہ کو یہ حقیقت بتائی گئی تو اُس نے حقیقت ماننے کی بجائے کیلنڈر کو ایک ہزار پیتیس سال آگے کر نے کا حکم جاری کر دیا اور پھر زمانے نے دیکھا کہ کیلنڈر کوواقعی آگے کر دیاگیا ۔ بادشاہ کی خوشامد اور خوشنودی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دن شاہ نے اپنے وزیر امیر عباس سے وقت پوچھا تو خوشامدی نے جواب دیا چھ بجے ہیں شاہ نے مجلسِ شوریٰ کے صدر مہندس ریاض سے پوچھا تو اُس نے بھی عرض کیا چھ بجے ہیں نازک مزاج بادشاہ کا مزاج بر ہم ہوا اپنی گھڑی اتار کر غصے سے بولا یہ تو پانچ بجا رہی ہے شاہ نے گھڑی کا ٹائم درست کر نے کے لیے ناب کو چٹکی میں دبایا تو خوشامدی وزیر امیر عباس چلا یا جہاں پناہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔
ہم آپ کے غلام یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ حضور کو گھڑی درست کرنے کی تکلیف اٹھانا پڑے آپ ٹائم کو اِسی جگہ رہنے دیں ہم 35 ملین عوام اپنی گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر لیتے ہیں ۔ شاہ ایران وہ طاقت ور بادشاہ جس نے ایک آرڈر کیا اور ایران میں 44ہزار امریکیوں کو سفارت کاروں کا درجہ مل گیا ۔ اُس کا شاہانہ مزاج ملاحظہ ہو کہ سرکاری سطح پر دو مردوں کی آپس میں شادی کرائی اور دعوت ولیمہ میں تمام فوجی جرنیلوں اور سرکاری افسران نے شرکت کی جس کے ایک حکم پر ایران میں داڑھی رکھنے پر پابندی لگ گئی ۔اور جب وہ دربار میں آتا تو خوشامدی قصیدہ کہتے تھے جو کچھ آپ نے عوام کے لیے کیا ہے اتنا کچھ سابقہ بادشاہوں نے اَڑھائی ہزار سال میں نہیں کیا شاہ ایران اور اُس کے خو شامدیوں کا بھی یہی ایمان تھا کہ اقتدار اور شہرت کی جس بلندی ہر شاہ ایران ہے۔
اُس کو کبھی اندیشہ زوال نہیں وہ شاہ ایران جو آخری سانس تک بادشاہت کر نا چاہتا تھا جس کو یہ غلط فہمی تھی کہ سورج اُس کے حکم سے نکلتا ہے اُسی کے حکم سے غروب ہو تا ہے وہ ہے تو امن ہے وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں اورپھر وقت نے صرف ایک ہلکی سی کر وٹ لی اور شاہ ایران کا اقتدار پانی کا بلبلہ ثابت ہوا وہ اپنی بیوی کے ساتھ ایران سے فرار ہو گیا ۔ یہ دونوں زوال کی اُس انتہا کو پہنچ گئے کہ گرتے پڑتے ایک ملک سے دوسرے ملک داخل ہو تے لیکن چند دنوں میں ہی اُس ملک سے نکلنے کا حکم ملتا تو وہ کسی دوسرے ملک کی چوکھٹ پر آگرتے وہ ملک بھی جلد ہی دونوں کو آگے جانے کا حکم جاری کر دیتا۔
بادشاہت چھن چکی تھی سوئیٹزر لینڈ کے بینکوں میں پڑی دولت ضبط ہو چکی تھی وہ جہاں جاتے دشمن اُن کا پیچھا کر تے اور حیرت کے امریکہ جو سب سے بڑا دوست تھا اُس نے بھی اُنہیں قبول کر نے سے انکار کر دیا بادشاہ اور اُس کی ملکہ چوروں اور مجرموں کی طرح بھاگ رہے تھے بادشاہ اِس ذلت کو برداشت نہ کر سکا ذلت اور غربت کی انتہا بر داشت نہ کر سکا قاہرہ میں 1980میں دم توڑ دیا شاہ کے خوشامدی اُس کو دعا دیا کر تے تھے کہ آپ کی عمر 120 سال ہو لیکن یہ شاہ 71سال کی عمر میں قاہرہ کے معمولی گھر میں فوت ہوگیا موت کے وقت شاہ کے پاس نا کو ئی ڈاکٹر نہ کو ئی حکیم نہ کو ئی خدمت گزار ۔اِس بد قسمت بادشاہ کو جنازہ تک نصیب نہ ہو اصرف 2,4بندوں نے اُسی مکان کے صحن میں اُسے دفن کیا اور چلے گئے آج بادشاہ کی قبرویرانی کا منظر پیش کر تی ہے نہ چراغ نہ دعا کر نے والا نہ مزار نہ شان و شوکت۔آج جب ہمارے لیڈر تکبر اور غرور کے آسمان پر کھڑا ہو نے کی کوشش کر تے ہیں تو میں سوچتا ہوں کاش یہ شاہ ایران کا انجام سوچ لیں لیکن اقتدار کے وقت بندہ اندھا بہرا ہوتا ہے۔
Prof Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org 03004352956