تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ 10محرم الحرام 61 ھ کو رونما ہونے والا خونچکاں سانحہ کرب وبلا کئی دلگداز،روح فرسا ،رقت انگیز یادوں کے ساتھ ہر اسلامی سال کے آغاز میں یاد کیا جاتا ہے۔ اہل ِ عشق کے کارواں سالار، فرزند ِرسول ، سیدالشہدا ، تاجدارِ کربلا سیدنا امام عالی مقام حضرت امام حسین کی لازوال قربانی شاہ صاحب کے اشعار میں واضح طور سے بیان کی گئی ہے جو آپ کی مودت کی عکاس ہے۔آپ نے سیدنا امام حسین اور ان کے اہل ِبیت، اصحاب ِباوفاو جانثاروں پر ڈھائے گئے مظالم کی داستاں جس رقت آمیز طرح سے بیان کی ہے اسے سن کر ہر انسان کا دل تڑپنے لگتا ہے۔
مدینہ سے روانگی ،کربلا آمد،اہل ِکوفہ کی بے وفائی و طوطا چشمی،حق وباطل کافسانہ ،شہدا کے عشق کی حقیقت،گھر لٹانے اور سر کٹانے کا سلیقہ،حضرت شاہ صاحب نے عمدہ پیرائے میں بیان کیے ہیں۔یزیدی فوج اور ابن ِزیاد کے کاسہ لیسوں کے ستم کے قصے ،خدا کی قدرت اور اس کے رازوں کو دلسوز انداز میں بیان کیا ہے ۔یہ دردبھری داستان سن کر ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے ۔ اہل ِعالم کے مشترکہ درد کے عکاس یہ اشعار “سُر کیڈارو ” (میدان ِجنگ) میں مرقوم ہیں ۔ حق وباطل کا عظیم میدان، کارزار ِکرب وبلا اس سر کا موضوع ہے ۔آپ نے شہادت ِامام عالی مقام کوحاصل ِعشق اور ہدف ِاولیا وصوفیا قرار دیا ہے ۔آپ سندھی اشعار میں داستان ِ کربلا بیان کرنے والے پہلے شاعر ہیں جس کے اتباع میں کئی شعرا نے اس موضوع پہ طبع آزمائی کی ۔اردو ادب کے قارئین کے لیے ان نورانی اشعار کی نثری تلخیص و ترجمہ پیش ِخدمت ہے۔
باب ِاول ہلال ِمحرم نظر آگیاجو اپنے ساتھ ایک شہزادے کی ناقا بل ِ فراموش ،مغموم یادیں لے کر آیا ہے۔ صرف خدا راز ِشہادت سے آگاہ ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ہلال ِ ماہ ِ محرم شہزادے کی تلخ وغمگین یادیں لے کر آیا ہے۔ اہل ِ مکہ و مدینہ اس المیے پرشاہراہوںپہ دھاڑیں مارکے روئے ۔ بے شک خدا لائق ِ حمد ہے جو ایسے احکام جاری کرتا ہے۔محرم تو آگیا مگر امام تشریف نہیں لائے۔ اے والی ٔ مد ینہ !برائے مہربانی مجھے آقاسے ملنے دیجئے۔محرم آگیا مگرآقا نہیں آئے۔ امیر مدینہ! میرے سخی سردار! زراہِ لطف مجھے میرے امام کی زیارت عطا فرمائیں۔تاجدارِ مدینہ نے اپنے جانثاروں کے ہمراہ مدینہ چھوڑا اور ضروری سازوسامان کے ساتھ ایک سخت معرکے کا رخت باندھا۔امیر مدینہ اور ان کے تابعین نے شاہراہ پہ سفر کیا۔ان کے سبک رفتاررہوارمنازل طے کرتے گئے ۔جہاں انہوں نے شب بسری کی وہ جگہیں کمال کی تھیں۔
Sur Kedaro
طویل اور تھکا دینے والی مسافرت نے ان بہادروں کے بدن جھلسا دیے۔امیر نے مدینہ چھوڑا مگر پھر لوٹ کے نہ آئے ۔بھائی رنگساز! میرا لباس سیاہ کر دے۔ میں ان مقدس مسافروں کا سوگوارہوں جنہوں نے خیر کے لیے سب کچھ قربان کردیا۔ میری بات غور سے سنو! تمہیں جاننا چاہیے کہ عام طور سے جو مظلومانہ شہادت بیان کی جاتی ہے وہ درحقیقت امام اور ان کے ساتھیوں کے لیے عروس ِوصل ہے ۔ یہ عشق کی داستان ہے جس سے یزیدمحروم تھا۔ حقیقت میں شہادت اولادِ علی کے لیے خدا سے ملاقات کا وسیلہ ہے۔المیہ شہادت لطف ِ الٰہی تھا۔ یہ عشق ِالٰہی کا ثبوت ہے جس سے یزید محروم تھا۔ حقیقت میں نبی ٔاکرم،امام اور امام کے والدین منشائے ایزدی سے پیش آئندواقعات ِشہادت پہ راضی تھے کیونکہ امت نے اس سے مستفیدہونا تھا۔شہادت کی سختیاں خالصتاََ عطیہ خداوندی ہیں۔یہ محبت کا اشارہ ہے جس سے یزید محروم تھا۔ یہ امام اور بقا کا باہمی رشتہ ہے۔شہادت کی سختیاں امتحان ِقدرت ہے جسے وہی سمجھ سکتا ہے جسے علمِ لدنی حاصل ہو۔ صرف وہی مضمرات ِشہادت اور قضیہ کربلا کو جان سکتا ہے۔
آج مومنوںکے امیر مدینہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ یہ صرف جا نہیں رہے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مدینہ کو خیرباد کر رہے ہیں۔ افسوس صد افسوس! وہ مدینہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔شمس وقمر اکٹھے ہو کر پیغمبر اکرم ۖکی بارگاہ میں تعزیت کو حاضر ہوئے ۔ہائے !ہائے! وہ مدینہ چھوڑرہے ہیں۔افسوس صد افسوس!المیہ شہادت کے بعد دنیا تاریکیوں میں ڈوب گئی ۔ ستارے غم والم میں سرگرداں رہے ۔ہائے !ہائے !وہ مدینہ چھوڑ رہے ہیں ۔
باب ِدوئم چاند طلوع ہوا تو میر مدینہ اپنے گھوڑے پہ سوار ہو ئے ۔ان کے ساتھ طبل،باز،تیشے ،نیزے اور خنجرتھے ۔امیر علی کی اولاد لڑائیوں میں یہ فولادی ہتھیار استعمال کرتی تھی۔ نمودِمہرمیں مدینے کے مسافر ،گائوں چھوڑ کر روانہ ہوئے ۔ان کے ساتھ طبل ،باز،تبر،نیزے اور خنجر تھے ۔اولاد ِعلی ناقابل ِشکست تھی اور ان ہتھیاروں سے لڑا کرتی تھی ۔ چاند طلوع ہوا تو مدینے کے تاجدار روانہ ہوئے ۔ان کے ساتھ طبل ،باز،کلہاڑے،نیزے اور علم تھے۔اولاد ِعلی ان ہتھیاروں سے تباہی کیاکرتی تھی ۔ انہوں نے میدان ِ کربلا میں خیمے گاڑے اور صلابت وبسالت سے یزیدی قوت سے پنجہ فگن ہوئے۔ہولناک جنگ میں تلواریں ٹکرا رہی تھیں مگر وہ ڈٹے رہے۔تمام اہل ِبیت،کربلا آئے ۔اپنی مصری تلواروں کے ساتھ جھوٹے دشمنوں کو دہلا دیا ۔یہ خوبصورت لوگ بنت ِرسول کی ذریت تھے ۔انسان ِکامل ،شیر سید ،کربلا تشریف لائے۔
Sur Kedaro
انہوں نے اپنی مصری تلواروں سے افواج ِمخالف کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیے۔ میر حسین کے حملے کے بعد سورمادہل گئے ۔کامل جانباز کربلا آئے ۔زمین یہ ماجرا دیکھ کر لرزگئی اور آسمان تھرتھرا گیا ۔یہ معمولی جھگڑا نہیں تھا بلکہ ان کا ذات ِالٰہی سے عشق اور اعتماد کا مظاہرہ تھا۔کامل لوگ کربلا آئے اور اپنی مرضی سے قیام پذیرہوئے ۔خیام میں بیٹھ کر آپس میں گفتگو کی ۔ہائے !ہائے !سردار حسین کے لیے کیا اندوہناک مقدر لکھاگیا۔آج امیر ِکامل کربلا تشریف لائے ۔انہوں نے اپنے دشمنوں کے جواب میں تیر اندازی کی ۔یہ امام کی پہلے سے لکھی ہوئی تقدیر تھی ۔اللہ تعالیٰ اپنے دوست ذبح کرواتا ہے ۔محب مروا دیتا ہے ۔اپنے خاص پیاروں کی سختیوں سے آزمائش کرتا ہے ۔اللہ بے نیاز ہے ۔جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ اس المیے میں گہرا راز ہے۔
واویلا !واویلا !فرشتے روتے ہوئے ماتم کرنے لگے ۔ہائے !ہائے !شاہ حسین چلے گئے ۔کربلا کے میدان میں انہوں نے خیمے گاڑے ۔وہ اللہ کی رضا پہ راضی تھے ۔ہائے !ہائے! شاہ حسین چلے گئے ۔آج امیر کربلا کے میدان میں آئے ۔ان کی تقدیر بادل کی طرح سایہ فگن تھی ۔وہ انہیں شہادت کی طرف لے گئی ۔ہائے !ہائے !شاہ حسین چلے گئے ۔میر حسین پہ سختیاں دیکھ کرتمام انبیا زارزار روئے ۔فرشتے ،آسمان ،زمین روئے ۔عرش پہ زلزلہ آگیا۔ ہائے ! ہائے !شاہ حسین چلے گئے۔
باب ِسوئم کیا کل کسی نے بہادروں کی شجاعت دیکھی ؟ہاتھی جیسے قوی لوگوں کی ہڈیاں چکنا چور ہو گئیں۔بہت خون بہا۔ان کے لیے دشوارگزار،کٹھن اور خطرناک منازل طے کرنا آسان تھا میں نے انہیں سیاہ بادلوں کے سائے میں لڑتے دیکھا ۔وہ سیاہ نیزے ہاتھوں میں تھامے جوان گھوڑوں پہ سوار تھے ۔یہ وہ لوگ تھے جن کے لیے شکست موت تھی۔آہن گروں نے آکرجنگجوئوں کے تیغ وتبر صیقل کیے مگر بہادر لوگ کاندھوں سے تلواریں نہیں اتاریں گے ۔وہ مرنے پر آمادہ تھے ۔دشمن کو قریب پا کر مارنا ،للکارنا،دوستوں کی مدد کو پہنچنا ، جانبازوں کے خصائل ہیں ۔وہ انہیں گھمسان کی لڑائی میں بھی قائم رکھتے ہیں۔بہادروں کے مبارزہ میں تلواریں شدت سے کڑکتی ہیں ۔جنگجو رجز پڑھ کر مخالف کو للکارتے ہیں ۔ بے خوفی سے پچھاڑ کر اپنے لشکر کو بلند کرتے ہیں۔
Sur Kedaro
مگر کچھ شہید ہو جاتے ہیں اور ان کے سر کاٹ کر اچھالے جاتے ہیں ۔ یہ سب کچھ افسوسناک ہے۔اُدھر جنگ کے لیے للکارا جاتا ہے تواِدھرتلوار چمک کر لپکتی ہے۔دونوں طرف طبل وبگل بجتے ہیں ۔دولہا اور ان کے رہوار میدان میں یک جہت نظر آتے ہیں۔دولہا اور ان کے گھوڑے تھوڑے دن زندہ رہتے ہیں ۔چند دن بحفاظت مگر زیادہ تر میدان ِجنگ میں برسر پیکار رہتے ہیں۔ جب مقدس امام نے گھوڑے پہ زین رکھی توعلی شیر نے اپنے صاحبزادے کو صدا دی ؛ ”قضا کوکون بدل سکتا ہے ؟جیسے امر الٰہی۔ ”زخمی اور شہید ہو جانے والے جانباز خیموں میں لائے گئے جنہیں دیکھ کر ان کی ازواج نے اپنے چہرے خاک آلود کر کے واویلا کیا ۔انہوں نے ماتم کر کے افسردگی کا اظہار کیا۔
صحرا غمزدوں کی بکا سے گونج اٹھا۔(امام حسین نے اپنے داماد سیدنا قاسم سے فرمایا)اے دولہا!اپنے منقش عروسی لباس کے ساتھ میدان میں آئو۔جولان گاہ ِشمشیر میں فرغان ِشہادت حاصل کرو۔)ایک زوجہ نے اپنے جنگجوسرتاج سے کہا )اگر آپ شہید ہو جائیں اور میں آپ پر گریہ کناں ہوں توکچھ حرج نہیں مگر شکست خوردگی یا میدان سے فرار قابل قبول نہیں۔ یہ طعنہ ناقابل ِبرداشت ہے۔آپ شہید ہو جائیں اور میں آپ کی فرقت کا غم اٹھائوں تو کچھ حرج نہیں مگر میرے پاس میدان سے بھاگ کر نہ آئیں ۔طعنوں کی عمر انسان کی عمر سے زیادہ ہوتی ہے ۔میں یہ نہیں کہنا چاہتی کہ میرے شوہر میدان سے بھاگ گئے مگر میں فخریہ تیقن سے سنناچاہتی ہوںکہ میرے شوہر بہادری سے لڑتے شہید ہوگئے۔
ان کے چہرے کے زخم صاف کرنا قابل ِقبول ہے مگر ان کی پشت کے زخم دیکھنا میرے لیے موت ہے ۔ (اے ایمان والو!جب تم کفار سے میدان ِجنگ میں مقابل ہو تو ان کی طرف سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔سورة انفال 15) میدان سے شکست خوردہ بھاگنا شرمندگی ہے ۔جوخواتین اپنے شوہروں کی شہادت سے سر بلند ہیں وہ ہمیشہ اس فرارکا طعنہ دیں گی۔آپ میدان سے بھاگ آئے اور مجھے شرمندہ کر دیا تو اپنے شوہروں کی شہادت سے سربلند مستورات نے تمسخر اڑایا ۔سر بلند خواتین نے گو نقصان اٹھایا ہے مگر وہ کہتی ہیں؛”دوستو !میرے بہادر شوہر نے اپنی شہادت سے اپنے تمام گناہ دھو ڈالے۔ ”
Sur Kedaro
یا علی ! یاعلی ! یتیموں کے سر پہ کیا آفت آگئی ۔ یاامام !یہ حکم الٰہی تھا۔یا علی !یا علی یتیموںکے سر پہ کیا آفت آگئی۔یہ موت کے بچھوڑے ہیں ۔ہائے !ہائے !چار دن کی زندگی کے بعد پھر جدائی ہے۔یا علی !یا علی !یتیموں کے سر پہ کیا آفت آگئی ۔پتھر اور کنکر اکٹھے کر کے بی بی نے دیگ میں رکھ دیے ۔(سیدة فاطمہ زہرانے ایک دفعہ حسنین ِکریمین کی خاطر ایک برتن میں سنگریزے ڈال کر آگ پہ رکھ دیے مگر ان کا دل توڑنا گوارا نہ کیا مگر افسوس آج ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا )یا علی !یا علی !یتیموں کے سر پہ کیا آفت آگئی ۔جن کے لیے انہوں نے (یہ دیگ )چڑھائی، آج انہی سے لڑا جا رہا ہے۔یا علی !یا علی ! یتیموں کے سر پہ کیا آفت آگئی۔
باب ِچہارم خاک ِکربلا غیر معمولی فضا کے ساتھ شبنم آلود ہو گئی۔علی شیر کے خاندان کو میدان میں رات آگئی ۔اے یزید !اولاد ِعلی کے ساتھ بغض ختم کر دے ۔تو وہ ابتہاج وانبساط حاصل نہیں کر سکتا جو میر حسین کے لیے ہے ۔افسوس! ان لوگوں پر جنہوں نے ذریت ِ علی سے بغض رکھا اور یزید کے ساتھی بنے تھے ۔اے بھائی ! یزید کی جماعت سے دور رہ جو اولادِ علی سے بغض رکھتے ہیں۔ کوفیوں نے یزید کا ساتھ دے کرظلم کیا ۔ ان پلید لوگوں نے میدان میں امام عالی مقام کا محاصرہ کر لیا۔جس باعث شیر شہادت رسید ہوئے ۔کوفیوں نے آپ کو خط لکھے اور خدا کی قسم دے کر کہا؛” ہم آپ کے تابع ہیں۔
آپ ہمارے شاہ ہیں۔ایک دفعہ یہاں آئیں تا کہ ہم آپ کو تخت نشین کر سکیں۔ ” کوفی کربلا میں پانی نہیں پینے دیتے تھے ۔شاہ زادے ، شاہ علی کو صدا دیتے تھے ۔”میر محمد عربی !ان کی مدد فرمایئے۔ ” کربلا سے ایک پنچھی آیا ۔پاک رسول ۖکے روضے پہ پہنچ کر رویا ،”میں نے آہنی چمک دیکھی ہے ۔میر محمد عربی !ان کی مدد فرمایئے۔ ”صبح سویرے ایک پرندہ آیا۔پاک رسول ۖکے روضے پر فریاد وفغاں کی ؛”بہادر امام دلیری سے دشمن ماررہے ہیں ۔میر محمد عربی !ان کی مدد فرمایئے۔ ”کل کربلا سے چلنے والا پرندہ آیا؛ ”آہ !خون آلود (امام کی حالت )حیران کن ہے ۔میر حسین کے تمام رفقا شہید ہو گئے۔ ”کربلا میں شہزادے کے خطبات گونج چکے تھے۔سلطان ِعالم اس کے بعد شہید کر دیے گئے ۔
امام سارا دن میدان میں رہے۔تمام دن! میدان میں۔میدان میں !تمام دن رہے ۔ہائے !ہائے !میدان میں رہے ۔کونج !جا کر ،ہائے !ہائے !میرے نانا کو میرا سلام دے۔ ہائے ! ہائے ! میدان میں رہے ۔(کہنا )میرے دشمنوں نے مجھے گھیر لیا ۔مولا!بارش برسا ۔ہائے !ہائے !میدان میں رہے ۔(روضةالشہداکی روایت کے مطابق امام عالی مقام کے خون ِاطہر کو ایک پرندے نے اپنے پروں سے مس کیا اور روضہ ٔ رسول ِاکرمۖ جا کر اس افسوسناک سانحہ کی خبر سنائی ۔ وہ پرندہ متعدد جگہوں پر اُڑا اور جہاں جہاں اس خون ِاطہر کے قطرے گرے وہاں وہاں یادِ شہید کربلا میں محافل و مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔شاہ صاحب نے ان اشعار میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔)
باب ِپنجم امام حسین کے ساتھ نہ ان کے بڑے بھائی امام حسن تھے اور نہ کوئی اور جانثار ساتھی ،ان کا آبائی وطن بھی ان سے دور تھا۔اے یزید !کیا ان حالات میں بھی تیرا یہ غیر دانشمندانہ اقدام ناگزیرتھا ؟افسوس ! اگر لشکر امام حسین میں امام حسن بھی ہوتے تو اپنے برادر ِخورد کے گرد یوںرہتے جیسے شمع کے گرد پروانے رہتے ہیں۔ دشمنوں کے حملوں کا کامیابی سے دفاع کرنے کے لیے میر حسین کا مدد گار اب کون رہ گیا ہے ؟میدان ِجنگ میں تمام جنگجو بہادر نہیں ہوتے۔ صرف وہی شہادت پاتے ہیں جن کے نزدیک شکست باعث ِخفت ہے۔ خودکو آلات ِ حرب سے وہ مرصع کرتے ہیں جنہیں دنیا میں رہنے کی ہوس ہوتی ہے۔ درحقیقت وہی بہادر ہے جو ان کے بغیر جنگ میں حصہ لیتا ہے۔
اے بہادر انسان!اگر تو فتح کا اتنا ہی خواہشمند ہے تودل سے وہم نکال دے ۔ اپنے دشمن کو دوبدو لڑائی میں مصروف رکھ۔ اس پر نیزے سے حملہ کر اور اپنا دفاع بھی مت چھوڑ ۔ اگر تمہاری تلوار تمہارے دشمن سے ٹکرا گئی تو تم ایک بہادرگردانے جائو گے۔حر( امام کے پاس) آیا ۔ وہ ایک بہادر و جانباز انسان تھا۔( اس نے کہا کہ)” میں پروانے کی مانند شمع کا عاشق ہوں۔ اے بہادر آقا! آپ کے جدپیغمبر اسلام کی رضا کی خاطر میں آپ پہ اپنا سر قربان کرنا چاہتا ہوں جو کہ باعث ِعظمت ہے۔”در اصل حر کی ہدایت ازل سے اس کا مقدر تھی ۔ وہ ظالم فوج چھوڑ کر امام کے لیے لڑنے آیا۔ اس نے امام کی دست بوسی کی اور کہا کہ میں خود کو آپ پہ قربان کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ اللہ نے کہا ہے کہ وہ کسی انسان کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
Bhit Shah
میں آپ کے لیے ہر ممکن خدمت بجالائوںگا۔افسوس !امام اور یہ شیر دلحُرْ دونوں ہی دوران جنگ شہید ہو گئے۔بہادر امام بیش قیمت خود پہنے میدان جنگ میں نمایاں تھے۔ان کے خود میں جواہر جڑے تھے۔ میر حسین کی دستار عنقریب خون آلود ہونے والی تھی۔امام کے دندان و ریش مبارک خون سے تر ہو کر ایک پھول کا منظر پیش کر رہے تھے۔ آپ کی دستار مبارک میدان جنگ میں چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہی تھی۔ بروز حشر امت ِمحمدیہ کے درمیان امام کی والدہ محترمہ آپ پر فخر کریں گی۔ امام مٹی میں ریزہ ریزہ ہو چکے تھے۔امام کی ریش ِاطہر خون سے سرخ ہو گئی۔ آپ کے دندان مبارک موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ آپ کی پیشانی مہ کامل کی طرح روشن تھی۔ اللہ آسمانوں کا نور ہے اور اس نور کی زمین پر جھلک امام تھے ۔ان کے چہرئہ اقدس پر سجدوں کے نشان نمایاں تھے۔
آپ کی والدہ محترمہ آپ کے جسم اقدس سے کربلا کے کنکر دور کر رہی تھیں اور آپ کے والد علی مرتضٰی آپ کے زخموں سے خون صاف کر رہے تھے۔ خالق ِ حقیقی نے شہادت ِامام کے باعث امت محمدیہ کو بخش دیا۔میدان ِکربلا خون سے بھر گیا۔( امام کے گھوڑے) دُ لدُل کے قدم بھی خون میں ڈوبے تھے۔ سورج ڈوب گیا تو بھی شیرکے حملے جاری تھے۔ (امام نے) کمر کے گردچار تلواریںاور سر پہ دستار باندھی تھی۔ امام نے میدان ِجنگ میں اپنے آبائے کرام کی بہادرانہ روایت کو برقرار رکھا۔
آج اما م نہیں آئے ۔واویلا !مومنو!ماتم !واویلا !ان کے پاس پانی تھا نہ آسمان نے بارش کی ۔مومنو!ماتم !واویلا !وہ نو راتیں ،دس دن گھمسان کی لڑائی میں مصروف رہے ۔ مومنو ! ماتم !واویلا !شاہ کے گھوڑے دُلدُل کی زین سرخ ہوگئی ۔مومنو!ماتم !واویلا !شیر شہزادے (سیدنا قاسم )بھی چلے گئے ۔سید نے سیج ِعروسی نہ دیکھی ۔مومنو !ماتم !واویلا !
باب ِششم سید نا امام حسین کی جنگ تمام جہاں کے ساتھ امام حسن نے بھی سنی۔ دوران ِجنگ آبنوسی پروں والے پرندے قطار اندر قطار اڑتے رہے۔ یقینا امام نے اس کارِعظیم سے خودکو، اپنے والدین کو اور اپنے آبائو اجداد کو ایک عظیم الشان مرتبہ عطا کیا۔ (امام )حسن ،میر حسین پہ زاروقطار روئے ۔مخلوق ِالٰہی کی تین اقسام نے مقدس امام پہ گریہ کیا۔ انسان گھروںمیں، ملائیک جنتوں میں اور حیوانات جنگلوں میں (مقدس امام کو روئے)۔ پرندوں نے پیارے امام کے دنیا سے تشریف لے جانے کی خبر سن کر خود کو زمین پر گرا دیا۔
افسوس شہزادے! خالق ِحقیقی اس گریہ زاری کو خاموش فرما(بھیج اس کو جسے پردے میں چھپا رکھاہے ۔) شہزادے! جہاد کے شیدائی ہیں،جان کی پرواہ نہیں ۔ جب تک آپ زندہ ہیں، خود کو دشمنوں کی تلواروں کی دھار سے جام شہادت نوش کرنے کے لیے آمادہ رکھیں۔گرجھیں(چیلیں) صدیوں سے انسانی گوشت کی بھو کی ہیں۔ان مقدس ہستیوں نے اپنے قدم کبھی زمین پر نہ لگائے تھے۔ دشمنوں کی تلوار نے ان گھوڑوں کی زین کاٹ ڈالی جس کے باعث شہزادے زمین پر گر پڑے۔ ان گرجھوںنے آپ کے تشریف لاتے ہی آپ کے ٹکڑے کرنے شروع کر دیے۔جیساکہ پہاڑوں پرجنگلی بکریوں کے ریوڑ ہوتے ہیں ویسے ہی صحرائے کربلا گرجھوںسے بھراتھا۔ یہ اِدھر ُادھر جارہے تھے اور لڑائی کر رہے تھے۔
شہدا کی ازواج اپنے شوہروں کے گہرے غم میں مبتلا تھیں۔ وہ سیاہ لباس پہنیں گی۔گرجھوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ یہ جنگوں کی پیاسی ہیں۔ میدان ِکربلا میں یہ امام حسین اور امام حسن کے صاحبزادے اور ان کے جانثار ساتھیوں پر اڑتی رہیں۔ یہ بہت خوش تھیں۔گرجھیں خوراک کی تلاش میں وسیع علاقے میں گھومتی ہیں۔ یہ سرگو شیوں میں ایک دوسرے سے میدان جنگ کی مسافت اور جگہ پوچھتی ہیں۔ انہوں نے بہادروں کے لشکر کا معائنہ کیااوربزدلوں سے صرف ِنظر کیا۔گرجھ ،گائے کا گوشت نہیں کھاتی نہ ہی وہ بھینس کے گوشت کی خوگر ہے۔ وہ خود والے بہادر سروں کی تلاش میں رہتی ہے۔اے گرجھ! شہزادے کی آنکھیں نہ نکال، نہ ہی ان کا گوشت کھا جب کہ تو ان کے لشکر پر آئے جو کہ میدان ِکربلا میں ریت میں دبا تھا۔
Shah Latif’s Charisma at Socio Cultural Sindh.
امام عالی مقام کو قبل ازشہادت نوسونوزخم آئے۔ گزشتہ رات آپ کو آپ کی والدہ نے روتے ہوئے خدا کے سپرد کیا تھا۔اے گرجھ! تیرے پر گر جائیں اور تجھ پہ رعشہ طاری ہو جائے کہ تو نے شہزادے پر پھول نہیں برسائے۔گرجھوں نے کافی فاقہ کشی کی ہے۔ جب سے بہادر لوگ جوان ہوئے ان کا پسندیدہ فعل جہاد ہے۔ ان گرجھوں کو اب فکر خوراک نہیں رہی۔جہاد کے شوقین بہادر جنگجونہیں رہے۔ امام کے سامنے کربلامیں سب نے اپنی جانیں قربان کر دی تھیں۔ درحقیقت ان لوگوں کا مقصد ہمیشہ راہ ِخدامیں جدوجہد کرنا ہے۔ ان کی شہادت کے بعد حور ان ِبہشت نے ان کی سہرابندی کی اور ہار پہنائے۔یہ بہادر لوگ مسلح جنگجو تھے۔
ایک بھائی، دو بھتیجے ان کے اعزا اور مخلص دوست، اللہ کے فضل سے انہوں نے اپنے دشمنوں کو مبارزے میں شکست دے دی۔ ان شہدا کو حوروں نے ہار پہنائے اور سہرا بندی کی۔شہدا کا مقام جنت ہے۔ ان مقدس نفوس کو فردوس بریں میں خوش آمدید کہا گیا۔ فنا فی اللہ مقام کے بعد یہ ملاء اعلیٰ میں داخل ہوئے۔ اے پروردگار! اپنے احسان سے مجھے ان دمکتے چہروں کی زیارت عطا فرما۔
جو سیدنا امام حسن اور امام حسین سے عقیدت وہمدردی نہیں رکھتے وہ خالق ورر ب ِجبار کے قہر سے نہیں بچ پائیںگے۔امام کا ماتم کرو۔ شہدا کا ماتم کرو۔امام کا ماتم کرو ۔تمہاری روتی آنکھوں سے ان کے لیے خون کیوں جاری نہیں ہوتا ۔امام کا ماتم کرو ۔جو امام کی سرداری کے قائل ہیں وہ اشکبار آنکھوں سے امام کا ماتم کریں ۔امام کا ماتم کرو ۔ اشعار شاہ بھٹائی سے درس ِحیات
حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے اشعار میں حقائق و معارف کے قلازم ِزخارموجزن ہیں۔یہ متبرک اشعار جہاں آپ کی امام حسین سے گہری محبت اور ان کے غم میں ڈوبے رہنے کے عکاس ہیں وہیں قرآن وحدیث اور افکار ائمہ اہل ِبیت اطہار کے بھی ترجمان ہیں ۔ فلسفہ شہادت حسین سے متعلق گفتگوامر محال ہے۔اسلام کی بقا شہادت ِحسین سے ہے۔ جوہر پیغام الٰہی امام عالی مقام ہیں۔امام عالی مقام نے اس شہادت عظمیٰ سے دین محمد کو قائم کیا ہے۔ اسوئہ شبیری سنت ِنبویۖ ہے۔ تمام اولیائے کرام نے اسوئہ حسینی کا درس دیا ہے اور اپنے اپنے الفاظ میں آپ کو سپاس ِعقیدت پیش کیا ہے ۔شہادت ِحسین اور اس کے نتائج کے متعلق بتاتے ہوئے مخبر صادق ۖ نے فرمایا؛ اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْنَ حَرَّارَةً فِْ قُلُوْبِِ ِالْمُؤمِنِیْنَ لاَتُبْرَدُاَبَداً ،بے شک حسین کے قتل سے مومنوں کے دلوں میں ایک حرارت پیدا ہو گی جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہو گی۔قتل ِحسین کی یہی حرارت اسلام کی بقا کا باعث ہے اور دین محمدیۖ اسی حرارت سے توانائی لے رہا ہے۔
یہی حرارت قال سے حال میں آتی ہے تو کنکر کوگہر بنا دیتی ہے۔ بندئہ خاکی کو ہمسایہ جبریل ِامیں بنا دیتی ہے۔ انسان کو ولایت اور سلوک الی اللہ سے روشناس کراتی ہے۔حضرت شاہ صاحب نے اپنے دیوان ”شاہ جو رسالو” میں متعدد مقامات پہ اہل ِبیت ِاطہار کا ذکرکیا ہے۔ اسوہ شبیری کو مرکزی تخیل بناتے ہوئے سندھ کی لوک داستانوں کودلچسپ انداز میں بیان کیا ہے جس کے باعث آپ کا دیوان نہ صرف علم و ادب کا انمول خزینہ ہے بلکہ سندھ کی تہذیب و ثقافت اور روایت و تاریخ کا بھی مستند ذریعہ ہے۔شاہ صاحب کے کلام کے بغور مطالعہ سے نہ صرف آپ کے قادر الکلام شاعر ہونے کا پتہ چلتا ہے بلکہ آپ کے ایک مستند مئورخ ، باعمل مسلمان اور متبحرو جید عالم دین ہونے کا ثبوت بھی سامنے آتا ہے۔ آپ نے اپنے اشعار میں بکثرت آیات ِقرآنی، احادیث نبویۖ کے ساتھ ساتھ عربی و فارسی کے ادبی الفاظ استعمال کیے ہیں جو آپ کے وسیع مطالعہ کے آئینہ دار ہیں۔حضرت شاہ صاحب نے فنا و بقا کا مئوثر درس دیاہے۔ خود آپ نے اپنے کلام میں فنافی اللہ سید الشہدا امام حسین کو بے مثال خراج عقیدت پیش کیا اور حسینی فلسفہ ٔ حیات کو اسلام کی نشاط ِثانیہ کا نقطہ آغاز قرار دیا ہے۔
Shah Abdul Latif Bhittayi r.a
حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا لوح مزار شاہ عبداللطیف بھٹائی نے نہ صرف سندھی بلکہ عربی اور فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی اشعار کہے ہیں۔ آپ کی فارسی کی ایک رباعی آپ کا لوح مزار ہے جس میں آپ نے ائمہ اہل بیت کی مدح سرائی کی ہے؛ گل محمدۖ ، گل علی ، گل فاطمہ خیرالنسا گل حسن ، گل حسین ، گل بود زین العبا گل باقر و گل جعفر و گل موسٰی کاظم ، رضا گل تقی ، گل نقی، گل عسکری، مہدی،خدا اس رباعی میں آپ نے چہار دہ معصومین کو گلشن ِوحدت کے مہکتے پھول بتایا ہے اور حضورنبی کریمۖ سے لے کر امام محمد مہدی آخر الزمان تک گلدستہ عصمت و طہارت کا خوبصورت تعارف کرایا ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے قلم کار حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی بارگاہ میں ہر دور کے اہل قلم اپنی استطاعت واستعداد کے مطابق نذرانہ عقیدت پیش کرتے رہے ہیں جن میںتیمر فقیر، مائی نعمت ، سیدعظیم شاہ ، ڈاکٹرارنسٹ ٹرمپ،قاضی محمدابراہیم ،سید دوست علی متعالوی،میر عبدالحسین سانگی،تاراچند،میرزا قلیچ بیگ،ڈاکٹر ہوتی چند گربخشانی ،غلام محمد سہوانی ،مولانا غلام مصطفٰی قاسمی ،کلیان ایڈوانی ،ڈاکٹر ٹی ایچ سورلے،مولوی دین محمد وفائی،میر عبدالحسین خان ٹالپر،لیلا رام وطن مال،جیٹھ مالپر سام ،ڈاکٹر اینیمیری شیمیل ،محمد یعقوب آغا،پروفیسر اکرم انصاری،امینہ خمیسانی اورشیخ ایازکی کاوشیں لائق ِتحسین ہیں۔
Dr. Syed Ali Abbas at Bhit Shah
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ ریکٹر والعصر اِسلامک ریسر چ انسٹیٹیوٹ