لاہور (جیوڈیسک) دہشت گردی کے سبب دربدر ہونے والا بچہ نامور کرکٹر بن گیا، امن کی تلاش میں کراچی آنیوالے خاندان کے یتیم لڑکے انور علی نے نوجوانوں کیلیے عزم و ہمت کی مثال قائم کردی، فیکٹری کا مالک رات کی شفٹ میں کام کرنے کی اجازت نہ دیتا توکرکٹ کا شوق اپنی موت آپ مر جاتا۔
تفصیلات کے مطابق سری لنکا میں پاکستان کو دوسرا ٹی ٹوئنٹی اور سیریز جتوانے والے انور علی کا آبائی گاؤں ذکاخیل ہے، سوات کے اس نواحی علاقے میں انتہا پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہونے پر ان کے خاندان نے امن کی تلاش میں کراچی کے انڈسٹریل ایریا میں جائے پناہ ڈھونڈ لی۔
والد کا انتقال ہونے کے بعد مشکلات مزید بڑھ گئیں اور انور علی کو جوتے بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کرنا پڑا، آتے جاتے ہم عمروں کو کرکٹ کھیلتے دیکھ کران کے دل میں بھی جذبہ پروان چڑھتا، کارخانے کے مالک نے رات کی شفٹ میں کام کرنے کی درخواست منظور کرلی یوں انھیں خاندان کی کفالت اور کھیل دونوں جاری رکھنے کا موقع مل گیا۔
بعد ازاں کوچ اعظم خان نے انھیں مزدوری سے ملنے والی یومیہ اجرت 150روپے ادا کرنے کی حامی بھرلی تاکہ وہ کرکٹ جاری رکھ سکیں،کراچی الیکٹرک میں ملازمت ملنے پر ان کے روزگار کا بندوبست ہوگیا،انڈر 19 ورلڈکپ2006 میں بہترین کارکردگی کے بعد بھی حالات زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہے۔
غیر متاثر کن ٹی ٹوئنٹی ڈیبیو کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ میں جگہ مستقل نہ ہوسکی۔ انور علی نے ملک کی نمائندگی کا خیال چھوڑ کر اپنی توجہ اپنے خاندان پر چھائے غربت کے اندھیرے دور کرنے پر صرف کردی، انگلینڈ میں لیگ کرکٹ سے مالی حالات سدھارنے اور گھر بنانے کا موقع ملا۔
اس دوران انھوں نے بولنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ پر بھرپور توجہ دیتے ہوئے اپنا کھیل نکھارا اور 2013میں سلیکٹرز کی توجہ حاصل کرلی، نومبر میں انور علی اور بلاول بھٹی نے فتح گر شراکت سے میزبان جنوبی افریقہ کیخلاف ون ڈے سیریز کی ٹرافی چھین لی تاہم دونوں بعد ازاں بھی ٹیم کے مستقل رکن نہ بن سکے، دورئہ سری لنکا میں انور علی نے کروڑوں شائقین کے دل جیت لیے، آل راؤنڈر اب نوجوانوں کیلیے روشن مثال بن چکے ہیں۔