نیویارک (جیوڈیسک) غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یونیسیف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک کروڑ کے قریب بچوں کو فوری طور پر انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یمن کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں پانچ لاکھ کے قریب حاملہ خواتین کی پہنچ طبی سہولیات تک نھیں ہے جس کے باعث دورانِ زچگی اور حمل میں پیچیدگیوں کے دوران انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یاد رہے یمن میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی حوثی جنگجوئوں کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔
تنازعے کے باعث لاکھوں افراد پھنس کے رہ گئے ہیں جبکہ امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ لوگ بھوک کا شکار ہیں۔ یونیسیف کے مطابق بچوں کو درکار بنیادی ضرورتیں تہس نہس ہو چکی ہیں۔ ایک ہفتے پہلے تک 398 بچے ہلاک، 377 بچوں کو لڑائی کے لئے بھرتی کر لیا گیا جبکہ 13 لاکھ بچوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے ہیں۔
رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے بتایا کہ جمعہ تک ہونے والی لڑائی میں کم از کم 1950 شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ دونوں جانب سے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ عام شہریوں کی زندگیاں بچانے کے لئے اقدامات نھیں اٹھائے جا رہے۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوامِ متحدہ سے کہا ہے کہ مبینہ جنگی جرائم کی تفتیش کے لئے کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اقوامِ متحدہ اور دوسری امدادی تنظیموں کی جانب سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا، ایندھن، ادویات اور دیگر ضروری سامان یمن پہنچانے دیا جائے۔ تاہم اتحادیوں کے جانب سے ہوائی اور سمندری حدود میں سفر پر سخت پابندیاں عائد ہیں اقوامِ متحدہ کی طرف سے مختلف ذرائع سے امداد بھیجنے کی کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ یمن میں تمام فریق کی جانب سے اپنی افرادی قوت میں اضافے کے لئے نو عمر لڑکوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے۔ یہ نوجوان اپنے خاندان کی معاشی مدد کرنے کی غرض سے لڑائی میں شامل ہوتے ہیں۔ دوسری جانب انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈکراس نے کہا ہے کہ اس کو یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں بڑھتی ہوئی ان لاشوں پر شدید تشویش ہے جن کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔