تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی سرہند شریف شیخ احمد سرہندی کا مزار پر انوار اور اُس کا گنبد مبارک میرے سامنے روشن تھا۔ آپ وہ عظیم بزرگ کہ جس کی مثل اللہ تعالی نے بہت کم کسی اور کو پیدا کیا رب ذولجلال نے وہ سانچہ ہی توڑ دیا جس میں حضرت مجدد الف ثانی جیسے عبقری ڈھلا کر تے تھے کیونکہ دین حق کا جو عظیم کام قدرت نے آپ سے لینا تھا وہ کسی اور کے مقدر میں نہ تھا کیونکہ حضرت امام ربانی قدس سرہ رسم شبیری سے خوب آگاہ تھے جس کا انہوں نے بھر پور عملی ثبوت دیا اکبر جیسے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہا اور جابر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ابطال باطل کیا۔ ماضی حال کے تمام اہل علم نے آپ کو مجدد کہہ کر پکارا اور مستقبل پر بھی آپ ہی کی گرفت نظر آتی ہے۔
آپ آنے والے تشنگان روحانیت کو وہ فیض روحانی عطا کر تے ہیں جس کو ظاہری آنکھوں سے دیکھا نہیں جا سکتا۔ آپ جیسے خدا تعالی کے انعام یا فتہ بندے جو دلوں پر لگی کفر کی مہریں توڑ دیتے ہیں جو بھٹکے ہوئوں کو شراب خانوں ، جوا خانوں ، زنا خانوں سے اٹھا کر مصّلے پر بٹھا دیتے ہیں جو مردہ اور بھٹکی روحوں کو نئی زندگی بخشتے ہیں ۔ میں اور روشن سنگھ نیم تاریک جگہ پر کھڑے تھے روشن سنگھ اپنی ماں کی داستان حیات جو لفظ لفظ کر ب بے بسی غم دکھ اور لا چارگی میں ڈوبی ہو تی تھی سنا رہا تھا۔
اُس کی پر سوز آواز اور ماں کی داستان ایسی تھی کہ جسے سن کر سنگ و آہن بھی رقیق سیال کی شکل اختیار کر لے ۔اُس کی درد میں ڈوبی ہو ئی آواز میرا دل اور نبض ِ کائنات رکتی ہو ئی محسوس ہو رہی تھی جذبات کی شدت سے اُس کے جسم پر لرزا طاری تھا اُس کی آواز اِس قدر رقت انگیز تھی کہ ایک ایک لفظ سے اُس کے دل کا درد جھلک رہا تھا ۔ میں عجیب سناٹے کا اسیر ہو کر رہ گیا تھا۔
روشن سنگھ اپنی ماں کا دکھ اور ظلم بتا رہا تھا اور میرے آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری تھا تقسیم کے وقت اُس کی ماں اپنی بہن دو بھائیوں اور ماں باپ کے ساتھ پاکستان کی طرف جا رہی تھی کہ اِسی شہر میں اُس کے ماں باپ اور بھائیوں کو اُس کے سامنے قتل کر دیا گیااِ سکی ماں کی عمر پندرہ سال اور اُس کی بہن کی عمر 12سال تھی روشن سنگھ کی ماں کو اُس کا باپ اُٹھا کر لے گیا جبکہ روشن سنگھ کی ماں کی بہن کو ئی اور اُٹھا کر لے گیا۔ میری ماں جس کے سامنے اُس کے سارے خاندان کو قتل کر دیا گیا ہو وہ نیم پا گل ہو چکی تھی اُس کی زبان پر خاموشی اور زبان بندی کے پہرے لگ چکے تھے میری ماںکو سختی سے کہا گیا کہ آج سے تم مسلمان نہیں سکھ ہو اس کے بعد میرے باپ نے میری ماں سے شادی کر لی میری ماں نے کمسنی میں ہی اپنے سامنے قتل و غارت اور خون کی ندیا ں بہتے دیکھیں ۔ اُس کے سامنے ہزاروں مسلمانوں لڑکیوں کو اٹھا لیا گیا جبکہ مردوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ظلم و بربریت اور وحشت کے اِس کھیل نے میری معصوم ماں کے ذہن پر بُرا اثر ڈالا وہ نیم پاگل اور چلتی پھرتی لاش کا روپ دھار چکی تھی۔
میرا باپ میری ماں کو زبردستی سکھ بنانے پر تلا ہوا تھا اُس کو بار بار گوردوارے لے کر جاتا اور میری ماں بے جان لاش کی طرح وہ کر تی جاتی جو میرا باپ اُسے کہتا ۔ کیونکہ خوف و دہشت بے بسی لا چارگی میری ماں کی روح اور ہڈیوں تک سرایت کر گئی تھی ۔ میری ماں بچپن سے ہی نماز سیکھ چکی تھی ایک دو بار جب میری ماں چھپ کر نماز پڑھ رہی تھی تو میرے باپ نے ظلمانہ طریقے سے بہت ہی بے دردی سے اُس کو مارا کہ آئندہ ایسی حرکت کی تو جان سے مار دوں گا ۔ میری ماں مردوں کی طرح زندگی گزار رہی تھی پھر میری ماں کی زندگی میں خوشی کی پہلی کر ن چمکی میری بڑی بہن پیدا ہو ئی پھر میرا بھائی پیدا ہو ا اور پھر میں پیدا ہوا ۔ میری بہن کے آنے کے بعد پہلی بار میری ماں کے مردہ جسم میں زندگی اور محسوسات کی حرارت جاگی اور میری ماں زندگی کی طرف لوٹنا شروع ہو ئی۔
Pakistan
جب کبھی بھی میرا باپ گھر پر نہ ہو تا تو میری ماں چھپ چھپ کر نماز پڑھتی اور ہم حیرت سے ماں کو دیکھتے میرا باپ میری بہن اور ہم دونوںبھائیوں سے دیوانہ وار محبت کر تا تھا خاص طور پر ہماری بہن پر تو جان دیتا تھا ۔ اُس کے منہ سے نکلی ہو ئی ہر بات پوری کرتا ۔ پھر میری بہن اور بھائی بڑے ہو ئے تو دونوں تعلیم حاصل کر نے کے لیے دہلی چلے گئے ۔ زندگی اِسی طرح چلتی رہی اِسی دوران ایک دن میں اور میرا باپ دہلی میں ماں اور بہن سے ملنے گئے وہاں ایک ایسا وا قع رونما ہوا جس کی میرے باپ کو بلکل بھی توقع نہ تھی جب ہم گھر میں داخل ہو ئے تو کیا دیکھا کہ میری ماں اور بہن نماز پڑھ رہی ہیں یہ دیکھ کر میرا باپ غصے سے پاگل ہو گیا دیوانہ وار میری ماں کو مارنا شروع کر دیا جب وہ میری ماں کو مار رہا تھا تو میری بہن میرے والد کے سامنے آگئی اور ساتھ ہی میرا بڑا بھائی بھی کہ آج کے بعد ہماری ماں کو کچھ کہا تو ہم اپنی جان دے دیں گے ۔ میری بہن زارو قطار رو رہی تھی اور بار بار باپ سے کہہ رہی تھی کہ مجھے تم جیسے جانور سے شدید نفرت ہے تو ظالم باپ ہو میں نے کبھی تمھارے پاس نہیں آنا۔
میری بہن کا اِس طرح رونا اور نفرت کا اظہار کر نا میرے باپ کے لیے بلکل حیران کن تھا۔ بیٹی کی حالت دیکھ کر کمزور پڑ گیا اور خود بھی رو نا شروع کر دیا اور اپنی بیٹی اور بیوی سے زندگی میں پہلی بار معافی مانگی ۔ کچھ عرصے بعد میری بہن اور بھائی کینیڈا چلے گئے جہاں پر میری بہن نے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کر لی ہے میں ماں باپ کے ساتھ رہنے لگا ایک دن میری ماں نے باپ کے سامنے ہاتھ جوڑے کہ مرنے کے بعد مجھے جلانا نہیں بلکہ سر ہند شریف کے قبرستان میں دفن کر نا میرا باپ رو پڑا اور مجھے وصیت کی کہ ماںکی خواہش پوری کرنا کچھ عرصے بعد میرا باپ مر گیا اور چند سال پہلے میری ماں بھی ہمیں چھوڑ گئی میں نے رات کی خاموشی میں اُس کا جنازہ کرا کر سرہند شریف کے قبرستان میں دفن کر دیا روشن سنگھ کی ماں کی داستانِ غم سن کر میری آنکھوں سے آنسوئوں کی آبشار مسلسل بہہ رہی تھی۔
میں نے روشن سے کہا مجھے اپنی ماں کی قبر پر لے چلو رات کے اندھیرے میں ہم ٹارچ کی روشنی میں پرانے بوسیدہ قبرستان پہنچے روشن پرانی قبروں سے گزرتا ہوا مجھے ایک قبر پر لے گیا اور اشارہ کیا کہ یہ میری ماں کی قبر ہے میں نے پو چھا تیری ماں کے قدم کدھر ہیں اُس نے اشارہ کیا میں جھکا اور اور اپنے ہونٹ اُس عظیم ماں کے قدموں پر رکھ دیے جو آخر دم تک مسلمان رہی اور کفر کے گھر میں تین مسلمان بچے دے گئی ۔ ایسی ہزاروں مائوں کا خون قیام پاکستان کی بنیادوں میں شامل ہے۔ سلام ہے ایسی ہزاروں مائوں اور شہداء کو جن کی قربانیوں سے پاکستان وجود میں آیا۔
Professor Mohammad Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org 03004352956