چکوال : امیرشریعت سید عطا ء اللہ شاہ بخاری نے تحفظ ختم نبوت کے لئے آندھی بن کر پورے ہندوستان میں مسلمانوں کو عقیدہ ختم نبوت کی حرمت اور حفاظت کا درس دیا ان خیالات کااظہارجمعیت علماء اسلام (ف) کے ضلعی امیر مولانا عطاء الرحمن قاسمی ضلعی جنرل سیکرٹری حافظ عبدالقدیر ،قاری زبیراحمد ،چوہدری عبدالجبار،حافظ محمد ادریس ،قای الطاف الرحمن ،اسامہ سلطان ،محمد انعام اللہ ،مولانا عزیز الرحمن عثمانی ،مولانا صابر حنیف،حافظ حسین احمد،قاضی محمد خالد ،قاضی محمد صادق ،قاری سعید احمد ،حسنین احمد مدنی قاری خبیب احمد لاوہ، اور حافظ محمد قاسم نے تحریک آزادی کے نامور مجاہد بانی احرار امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے یوم وفات پر ان کی ملّی و قومی اور دینی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ حضرت شاہ جی نے ہندوستان پر فرنگی سامراج کے انخلاء کیلئے تحریک آزادی کو جلا بخشی اور انگریز کے غرورتکبر کو سیدعطا ء اللہ شاہ بخاری نے پائوں تلے روندااور تحفظ ختم نبوت کیلئے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری جامع الصفات انسان تھے۔ لیکن ان کی شخصیت کا اہم پہلو اْن کی خطابت تھی۔ خطابت اْن کا فن نہیں فطرت تھی۔
انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس نعمت کو اسلام کے دشمنوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیا۔ ان کی ملّی و قومی اور دینی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس کے لیے دفتر درکار ہیںسید عطاء اللہ شاہ بخاری ، علامہ انور شاہ کشمیری کے عقیدت مند، علامہ اقبال کے نیاز مند، حضرت پیر مہر علی شاہ اور شاہ عبدالقادر رائے پوری کے مْریدِ با صفا تھے حضرت شاہ جی سٹیج پر آتے تولاکھوں کا مجمع ساکت و جامد ہو جاتا، لوگوں کی نظریں شاہ جی کے سرخ و سپید چہرے پر مرکوز ہو جاتیں۔ شاہ جی مجمع پر ایک بھر پور نگاہ ڈالتے، خطبہ پڑھتے، ادھر شاہ جی کی زبان سے الحمد للہ نکلتا ادھر لوگوں کے سینوں سے قلوب نکل کر شاہ جی کی مٹھی میں بند ہو تے۔ شاہ جی جب ان قلوب کو عشق رسول ۖ کی حدت دیتے تو لوگ تڑپ تڑپ جاتے۔
جب چاہتے اسی مجمع کو ایک تحریک بنا دیتے خطابت کو دنیاوی مفادات کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ان کی خطابت فرنگی اور اس کے خود کاشتہ پودے ”قادیانیت” کی سرکوبی کے لئے وقف تھی۔ وہ ساری زندگی فرنگی کے تخت پر زلزلے بپا کرتے رہے۔