کراچی : معروف مذہبی اسکالر اور جامعہ بنوریہ عالمیہ کے رئیس وشیخ الحدیث مفتی محمد نعیم نے کہاکہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیاجائے،بھارت اسرائیل اور امریکا کے اشاروں پر خطے میں بالادستی چاہتاہے۔
کنٹرول لائن پر جارحیت اور مسئلہ کشمیر سے راہ فرار اختیار کرنا خطے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے، طاقت کے ذریعے کشمیر کی حریت کی تحریکوںکو دبا یا نہیںجاسکتا،عالمی برادری اور اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں کبھی سنجیدہ نہیں رہے، پاکستان کی امن پسندی کو بھارت کمزوری نہ سمجھے دوستی کی طرح دشمنی کا نباہ بھی جانتے ہیں۔
ہفتہ کوجامعہ بنوریہ عالمیہ سے جاری بیان میں مفتی محمد نعیم نے کہاکہ بھارت کی ہر اینٹ کا جواب پتھر سے دیاجائے بھارت کسی صورت خطے میں امن نہیں چاہتا اور وہ عالمی دشمن قوتوں سے ملکر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے ،اور پاک چین کولیڈور منصوبوں سے بھارت بوکھلاہٹ کاشکار ہوچکاہے اور دشمن طاقتیں بھارت کو خطے کا چوہدری بنانا چاہتی ہیں اوربھارت کی خطے میں بالادستی کا خواب کسی صورت پورا نہیں ہوگا بلکہ ماضی کی طرح اس کے تمام عزائم خاک میں مل جائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے بھارت کی جانب سے طاقت کا استعمال حریت کی تحریکوںکو نہیں دبا سکتا،مسئلہ کشمیر ایک کروڑ 50لاکھ انسانوں کی آزادی ، بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھارت مذاکرات سے کسی صورت راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا،انہوںنے کہاکہ اگر عالمی برادری چاہتی تو کشمیر کو مسئلہ کب کا حل ہوچکا ہوتا مگر آج تک عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ صرف یوم یکجہتی کشمیر یا کسی خاص مسئلے پر کشمیر کا نام لیا جاتاہے باقی کشمیر میں غصب کیے گئے مسلمانوں کے حقوق اور چھینی گئی آزادی کے خلاف کسی نے بھی کچھ نہیں کیا بلکہ ہر دور میں اس مسئلہ کو سیاسی مفادات کی پھینٹ چڑھاکر کشمیری مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیاہے۔
انہوں نے کہاکہ آمر جنرل پرویز مشرف کے کشمیر پالیسی پریوٹرن اور یکطرفہ پسپائی نے کشمیر کازکو نقصان پہنچایا ہے جس کا خمیازہ آج بھگتنا پڑ رہاہے،، انہوںنے کہاکہ پاکستان کے خلاف بھارت تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہے مسئلہ کشمیرکے ساتھ ساتھ اس مسئلے کو بھی عالمی سطح پر اٹھایا جائے،مذاکرات محض تجارت ، ثقافتی طائفوں اور وقت گزاری کے لیے نہیں کور ایشوز یعنی کشمیر اور دریاؤں کے پانی پر ہونے چاہئیں تاکہ حقیقی معنوں میں مذاکرات دونوں ممالک کے عوام کے لیے بار آور اور مثبت اثرات کا ذریعہ بن سکیں۔