تحریر: نعیم الرحمان شائق موت قدرت کا اٹل فیصلہ ہے۔ موت بر حق ہے۔ چودہ صدیاں قبل دنیا کی سب سے اہم ترین کتاب نے انسانوں کو ان کے خالق کا یہ پیغام سنایا کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کئی لوگ روزانہ مر جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں۔ لا ریب ان کا جسم فانی ہو جاتا ہے لیکن وہ کتابوں میں، نصابوں میں اور لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رہتے ہیں۔ ان کے زندہ رہنے کی وجہ ان کے کار نامے ہوتے ہیں۔ ملک و قوم کے ضمن میں ان کی خدمات ہوتی ہیں۔ انھوں نے انسانیت کے دکھوں کی چارہ جوئی کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہوتی ہے۔
بے شک جنرل حمید گل مر کر بھی امر ہوگئے ہیں۔ ان کا جسم فانی ہو چکا ہے ۔ لیکن وہ اب تک اپنی قوم کے لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں ۔ ان کی پر حسرت وفات پر ان سے اختلاف رکھنے والوں نے بھی افسوس اور غم کا اظہار کیا ۔ ایسے لوگ خال خال ہوتے ہیں ، جن کی وفات پر ان کے مخالف بھی اشک بہائیں ۔ ان کے جذبہ ِ حب الوطنی پر نہ ان کی زندگی میں آنچ آئی نہ ان کی وفات کے بعد آنچ آئی ۔ بلا شبہہ وہ ایک محب ِ وطن شخص تھے ۔ محب ِ وطن شخص وطن کے دشمنوں کے خلاف تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر بات نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا ۔ اگر وہ بھارت کے خلاف تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حب الوطنی کے جذبات سے سرشار تھے ۔ ان کی حب الوطنی یہ تقاضا کرتی تھی کہ وہ کھل کر اپنے موقف کا اظہار کریں ۔ اپنے خفاہو ں تو ہو جائیں ۔ غیر بے گانہ ہو ں تو ہو جائیں ۔ مگر زہر ِ ہلااہل کو قند نہ کہا جائے۔
General Hameed Gul Family
حمید گل مرحوم کھرے انسان تھے ۔ وہ کثیر المطالعہ شخص تھے ۔ایک دن میں دس اخباروں کا مطالعہ کرتے تھے ۔ وہ اس بات کا ضرور ادراک رکھتے ہوں گے کہ اس وقت پوری دنیا میں سکیولر ازم کا غلبہ ہے ۔ ایسے وقت میں ایک ایسے شخص کو ، جس کی پوری زندگی پاک فوج جیسے مضبوط ادارے سے وابستہ رہی ہو ، کھل کر مذہبی لوگوں کی حمایت کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ لوگ کیا کہیں گے ؟؟۔۔۔لیکن اس کے با وجود انھوں نے ساری زندگی کھرے پن کا مظاہرہ کیا ۔ جسے صحیح سمجھا ، اس کا بر ملا اظہار کیا ۔ مذہبی لوگوں کی کھل کر حمایت کی ۔ 9/11 کے بعد طالبان کو بھر پور سپورٹ کیا ۔ 2012ء میں دفاع ِ پاکستان کونسل بنی تو دنیا نے دیکھا کہ آئی ایس آئی کے سابق چیف”مولویوں ” کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔ لوگوں نے طعنے سنائے ۔ انھیں بھٹکا ہوا راہی قرار دیا ۔ مگر انھوں نے وہی کیا ، جس پر ان کا ضمیر مطمئن تھا۔ لوگوں کے طعنوں اور “حقائق کا اداراک ” رکھنے والے “دانشورں ” کی باتوں نے ان پر ذرا اثر نہیں کیا۔
جنرل حمید گل مرحوم 20 نومبر 1936 ء کو پیدا ہوئے ۔ 1954 ء میں انھوں نے آرمی جوائن کی ۔ ان کی زندگی کا سب سے اہم دور 1987 ء سے 1989 ء تک کا ہے ۔ اس دوران وہ پاکستان کی سب سے اہم انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ رہے ۔ انھیں ضیا ء الحق مرحوم نے آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا تھا ۔ شروع سے ہی ان کا جھکاؤ مذہب کی طرف زیادہ تھا ۔ان کے ناقدین ان پر دو وجوہات کی بناء پر تنقید کرتے ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انھوں نے 1988 ء میں ، جب کہ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے ، انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کرنے والوں کا ساتھ دیا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ انھیں “فادرآف طالبان” سمجھا جاتا تھا ۔ اپنی بات کروں تو مجھے فادر آف طالبان کا خطاب صرف مولانا سمیع الحق صاحب پر جچتا ہے ۔ “فادر آف طالبان” ایک انگریزی لفظ ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ انھیں یہ خطاب انگریز سرکار نے دیا ۔ انگریز کی اصطلاح 9/11 سے پہلے تک برطانوی گوروں کے لیے استعمال ہوتی تھی ۔ مگر آج کل یہ اصطلاح امریکی گوروں کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دیسی سے زیادہ بدیسی اشیاء زیادہ پسند کی جاتی ہیں ۔ یہ بات صرف اشیاء تک محدود نہیں۔
اس عمل کا دائرہ کار علم ، عقل اورافکار تک جا پہنچا ہے ۔ قصہ ِ مختصر یہ کہ امریکا نے انھیں فادر آف طالبان کہا تو ہمارے لوگوں نے بھی کہنا شروع کر دیا ۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا جھکاؤ طالبان سے زیادہ گلبدین حکمت یار گروپ کی طرف تھا ۔ جب وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے تو اس وقت طالبان کا وجود ہی نہیں تھا ۔ افغان طالبان کا ظہور ان کی فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد ہوا ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ 2001 ء میں جب نہتے افغانیوں پر امریکا نے بم باری کی تو اب وہ اس گروپ میں کھڑے ہوگئے ، جو امریکا کا مخالف ، اور طالبان کے موافق تھا۔
Hameed Gul
انھوں نے ہر پلیٹ فارم پر بڑی بے باکی اور جراء ت سے امریکا کی مخالفت کی۔ امریکا کی ایک عادت یہ ہے کہ جو بھی اس کے خلاف بات کرے، وہ اس کو بہت سے القابات سے نوازتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی امریکا کے حلیف انڈیا کے خلاف اپنے موقف کا کھل کر اظہار کرے تو امریکا اسے بھی آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ اس ضمن میں امریکا حافظ محمد سعید صاحب کو عالمی دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔ حالاں کہ کشمیر کے بارے میں ان کا موقف پاکستان کے موقف کے عین مطابق ہے۔
آخر میں دعا ہے کہ رب تعالیٰ حمید گل کو جنت افردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ (آمین)