تحریر : ایم آر ملک ہم ایک تاریخی معرکے کی جانب بڑھ رہے ہیں جس کی پیشانی پر پاک فوج کی جرات اور جانفشانی کینئی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ایک فیصلہ کن فتح کے حصول کا خواب جس کی تعبیر میں محب ِ وطن باسیوں کی ماں دھرتی کا حقیقی تصور اُبھر رہا ہے ۔برسرِ اقتدار ٹولہ ابھی تک وسوسوں اور ابہام کی سولی پر مصلوب اپنی ناکام خواہشات کی تکمیل میں سرگرداں ہے ۔وطن عزیز کے جنم دن پر پہلی بار آزادی کے ٹھوس اور واضح تصورکی تصویر ہمارے پردہ بصارت پر اُبھری جس کے کینوس پر جنرل راحیل شریف نے حب الوطنی کے رنگ بکھیرے ۔جمہوری تہمتوں سے داغدار اور لتھڑا ہوا خاندانی بادشاہت کا نظام جو دہشت گردوں کی سہولت کاری کے ستونوں پر لرز رہا ہے جہاں ان دہشت گردوں کو اپنی جیت اور جعلسازیوں کیلئے پالا جاتا ہے ۔لوٹ مار کرنے والی ایک اقلیت نے اکثریت کیلئے وطن عزیز کو ایک ”وسیع الجثہ قید خانہ ”میں بدل دیا ہے جس کی زنجیروں میں جکڑے عوامی شعور اور احساس کی رگ و پے میں حقیقی آزادی کی جستجو مچل رہی ہے۔
سانحہ پشاور کے زخموں سے ابھی تک لہُو کی بوندیں ٹپک رہی ہیں اس المیئے کی چھاپ صدیوں پر محیط عہد کے شانوں پر محسوس کی جاتی رہے گی ۔ناراض بلوچوں کے ہتھیار ڈالنے کی تقریب جو ایک جانداراور بے باک مفہوم کا پہلا تعارف بنی مگر وطن عزیز کی بقا اور سالمیت کے ضامن عسکری ادارے پر جمہوری ٹولہ کے گماشتوں کی دانستہ ہرزہ سرائی اور گراوٹ ذہنی پسپائی کی بدترین مثال ہے ۔میثاق جمہوریت کے دو لاڈلے سیاسی اداکاروں نے باری کے کھیل میں اپنی تاریخی لوٹ مار کے خلاف قابل تحسین مزاحمت کو شکست دینے کیلئے اپنی غلاظت اُگلنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں چھوڑا ۔مسٹر سینٹ پرسینٹ کو اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا سبق اقتدار کے موجودہ ایوانوں کے چور دروازے سے ملا ۔کیا عوام اس تسلسل کو بھول سکتے ہیں
جو حقیقت بن کر سائے کی طرح ہر محب وطن پاکستانی کا پیچھا کر رہا ہے کہ خواجہ صفدر کے سیالکوٹی منڈے نے کس طرح پاک آرمی کے خلاف اپنی پست ذہنیت کا استعمال کیا ۔ اپنے فرسودہ جمہوری کردار کو کس طرح نبھایا ۔اور خواجہ رفیق کے بیٹے کے تو کیا کہنے ؟سینیٹر مشاہداللہ کی ہرزہ سرائی مجرمانہ حکمرانی کا ایک اور جواز بنی ہے حکمران لاکھ انکار کریں عوام بخوبی جانتے ہیں کہ خمیر کہاں سے اُٹھا ؟پس پردہ کس کا سازشی ذہن کار فرما ہے سرحد پار دشمن کے دلالوں کے چہرے بے نقاب ہو رہے ہیں آئیں بائیں شائیں کرنے سے یا بھیک میں لی گئی وزارت سے استعیفیٰ دے کر معاملے کی سنگینی کو کم نہیں کیا جاسکتا
National Assembly
سہولت کار کی اختراع ایک بار پھر بامعنی لباس زیب تن کرکے سامنے آرہی ہے ۔قومی اسمبلی کے سابق جعلی کسٹوڈین آف ہائوس نے ”رائ”کے ایجنٹ کو فون کرکے اُسے اُس کی اوقات سے بڑھ کر اہمیت دی ۔کیا ایاز صادق نے ایک سہولت کار کا کردار ادا نہیں کیا ؟یہی کردار کراچی پر مسلط مافیا کے استعفوں کے سلسلہ میں ہمارے بانکے وزیر اعظم کا ہے جس نے سرحدی مولوی کو دہشت گردوں کو منانے کا ٹاسک سونپا ۔بے گناہ انسانیت کی لاشوں کی راکھ پر کھڑے اس مفاداتی ٹولہ کا کردار محب وطن حلقوں میں اس تاثر کے ساتھ اُبھر رہا ہے کہ نظریاتی سرحدوں کے محافظوں کے دشمن ہمارے حکمرانوں کو دوستوں کی طرح عزیز ہیں بے گناہ انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے ٹارگٹ کلرز کے کھرے ان سہولت کاروں کی دہلیز تک جاتے ہیں۔ کیا اس حقیقت سے ہم نظریںچرا سکتے ہیں کہ رانا ثنا اللہ کی الیکشن مہم میں لشکر جھنگوی ہراول دستہ تھا ؟کیا ملک اسحاق کے بیٹے موصوف کے انتخابی معرکہ میں عوام کے مخاطب نہ تھے ؟چوہدری شیر علی کی وہ پریس کانفرنس بھی رانا ثنااللہ کی سہولت کاری پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے کہ جنرل راحیل شریف فیصل آباد میں بھی آپریشن کریں
اس پریس کانفرنس میں رانا ثنااللہ کو 20افراد کا قاتل ڈیکلیئر کیا گیا ایک سابق وزیر داخلہ اور بزرگ مسلم لیگی میاں زاہد سرفراز کا ایک پریس کانفرنس کے دوران سابق ڈی پی او فیصل آباد سہیل تاجک کے حوالے سے یہ انکشاف کہ فیصل آباد میں ٹارگٹ کلرز موجود ہیں شیر علی کے موقف کو طاقت فراہم کرتا ہے پھر شہید وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کے دو قاتلوں کی فیصل آباد سے گرفتاری بھی شیر علی کی صداقت کی گواہی ہے سہیل تاجک کو اس انکشاف کی قیمت یہ ادا کرنا پڑی کہ اُنہیں فیصل آباد سے ٹرانسفر کرادیا گیا ایک ٹارگٹ کلر نوید جو ایک مفرور اور لے پالک انسپکٹر رانا وحید کا کارندہ ہے کے اس بیان کو کیسے پس منظر میں دھکیل سکتے ہیں کہ اُسے ”وفاقی وزیر عابد شیر علی ،میاں طاہر جمیل ایم پی اے ،میاں محمد نواز ایم پی اے اور عرفان منان کو قتل کرنے کا ٹارگٹ ملا ”اس کے باوجود ہم ایک تاریخی معرکے کی جانب بڑھ رہے ہیں ایک آغاز کی ابتدا دیکھ رہے ہیں ایک ایسی جرات آمیز للکار جس نے شہر قائد پر چھائی دہشت کے جامد و ساکت ماحول میں ارتعاش پیدا کیا اور امن کی چادر تان دی ایسے وقت میں جب باری کے کھیل میں دو بڑی پارٹیاں شتر مرغ کی طرح حقائق سے چشم پوشی کر کے لاشوں کا کھیل کھیلتی رہیں
قانون کی دفعات اور آئینی ضابطے محض زیر دست عوام کو محکوم رکھنے کیلئے بناتی رہی ہیں اور اس کھیل میں دو تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کھسک گئی ،ان کے عسکری ونگز کی بدولت نہ سفر محفوظ رہا ،نہ گھر کی چار دیواری ،نہ سکول جاتے بچوں کے پلٹ آنے کی کوئی ضمانت ،نہ روزی روٹی کیلئے گھر سے جانے والوں کا تحفظ رہا اور انہی کے زیر سایہ عدالت کی عمارتوں میں بیٹھے شہ نشینوں کے چہروں کی کرختگی سائل کی بے بسی دیکھنے کے بجائے کاغذوں کے پلندوں کے اُلٹ پھیر پر زیادہ یقین رکھتی ہے ،جن کے ایوانوں میں آئین کو توڑنے والی وہ ترامیم آئینی ہوتی ہیں جن کو آئینی تحفظ دیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود قوم ایک محب وطن جنرل راحیل شریف کی قیادت میںفیصلہ کن فتح کے حصول کا خواب دیکھ رہی ہے