تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ تاریخ عالم کا رخ بدلنے میں جن خواتین نے اہم کردار سرانجام دیا ہے ان میں سرفہرست اور سنہری حروف سے لکھا گیا مقدس اسم گرامی ام الزہراء ،سیدہ خدیجةالکبری کا ہے۔ ام المومنین، سیدہ خدیجةالکبری عرب کی معزز ترین اور دولت مند خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ علم و فضل اور ایمان و ایقان میں بھی نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ پیغمبر اسلام آپ کی رفاقت اور غمگساری کو آخری سانس تک نہ بھول پائے اور فرمایا کہ خدیجہ جیسی رفیقہ مجھے کوئی اور نہ ملی۔ عرب کے کوہ ِافتخار کی دو بلند ترین چوٹیاں تھیں،ایک سیدالبطحا سیدنا ابو طالب اور دوسری مَلِیْکَةُالْعَرَبْ سیدہ خدیجہ الکبریٰ ۔ عزت و احترام کے علاوہ سیدہ خدیجہ دولت و ثروت میں بھی اپنا نظیر نہ رکھتی تھیں۔ذرائع آمد و رفت اور وسائل نقل و حمل کے حد درجہ محدوداور غیر ترقی یافتہ ہونے کے باوجود نہ صرف حدود عرب بلکہ جزیرہ نمائے عرب سے باہر دیگر ممالک تک آپ کا سلسلہء تجارت وسیع تھا۔ دنیا قومیت میں محدود تھی اور آپ کی تجارت بین الاقوامی تھی۔
سیدہ خدیجہ ،عزت و احترا م ،دولت و ثروت اور علم و عرفان میںبلند منزلت اور بین الاقوامی تجارت میں تن تنہا مالک تھیں۔آپ تاریخ ِاسلام میں نمایاں اور مرکزی مقام رکھتی ہیں۔ شرفِ زوجیت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے بھی آپ تاریخ ساز شخصیت تھیںاور پورے عرب میں آپ کا کوئی مثل نہ تھا۔عرب،جہاںعورت کو پیدا ہوتے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا وہاں ایسی عورت کا وجود جس نے تجارت میں مردوں کو گردِ کارواں بنا دیا اور گھر میں بیٹھ کر تجارت کرنا اور اتنے بڑے تجارتی نظام کو ترقی دینااور عورت ہو کر مختلف دیار و امصار میں پھیلی ہوئی دولت و تجارت کی دیکھ بھال کرنا اور پھر عورت کی تضحیک کرنے والے معاشرے کے رئوساء و تاجران،امراء و سربراہان ا ور بادشاہان کے پیامہائے عقد کو انتہائی حقارت سے ٹھکرا دینااور عرب کے پندار امارت وریاست کو چور چور کر دیناآپ کے تاریخ ساز اقدامات ہیں۔
دور جاہلیت میں بھی آپ مکارم اخلاق،صفات حمیدہ اور اعلیٰ انسانی اقدار کی مالک تھیںاور ان ایام میں بھی آپ کو طاہرہ اور سیدہء قریش کہا جاتا تھا۔آپ کی فکر و نظر طاہر،عقل و شعور طاہر،تہذیب و تمدن طاہر، خیالات و تصورات طاہراور آپ ابتدا سے انتہا تک طاہرہ تھیںاور ہر اعتبار سے سیدئہ قریش تھیں۔ سید ناطہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے لیے ایسی ہی رفیقہء حیات شایان شان تھیںجو خود ہر اعتبار سے طاہرہ ہوں۔مزاج کی یک رنگی، خیالات کی یکجہتی، فکر و نظراور قول و فعل کی ہم آہنگی سیدہ طاہرہ اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثال ازدواجی زندگی کا سنہرا باب ہے۔آپ کے تاریخی اقدامات میں ،یتیم عبداللہ سے عقد اور مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت میں آنے کے بعد اسلامی تاریخ کا آپ کے گرد طواف کرنا ،حضور پر سب سے پہلے ایمان لانا،سب سے پہلے نبوت کے ساتھ نماز ادا کرنا،پچیس برس مسلسل آواز وحی کو سننا،خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طیب و طاہر نسل مبارک کی امین،الکوثرفاطمہ الزہراء کو گود میں لے کر تین سال تک شعب ابی طالب کی قیداور ساری جمع پونجی اسلام کی بنیادوں پر خرچ کر دینے والی تاریخ ساز خاتون ، سیدہ خدیجہ الکبریٰ ہیں۔
Hazrat Khadijah al Kubra
سیدہ خدیجہ الکبریٰ کی سیرت مبارکہ پر آدمیت کو ناز ہے کہ آپ نے انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی نگہداشت فرمائی ۔اسلام کو ناز ہے کہ انہوں نے اس وقت اسے قبول فرمایا جب کوئی اسے جاننے اورماننے کو تیار نہ تھا۔دنیا کی ہر شریف بیٹی،اطاعت گزار بیوی اور مقدس ماں کو ناز ہے کہ انہوں نے ہر دور میں عورت کی شرم و حیا،غیرت و خودداری اور پیار و محبت کے جوہر کا تحفظ کیا۔ہر دور کی بچیوں کو ناز ہے کہ ان کی گود میں وہ بچی پلی جو وقار ِنسواں کا عنوان بنی۔
رشد و ہدایت کو ناز ہے کہ گیارہ خلفائے راشدین کی ماں ہیں۔قرآن کو ناز ہے کہ آپ کے بطن اطہر سے مفسر ملے۔کعبہ کو ناز ہے کہ تقدس کے محافظ ملے، آغوش نبوت کو ناز ہے کہ زینت ملی۔سیدنا ابو طالب کو ناز ہے کہ آپ نے پوری حیات طیبہ کو اللہ کی رضا کا آئینہ دار بنا دیا۔ توریت میں آپ کو ایک دریا سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس کا پانی آب ِحیات ہے ،جس کے دونوں کناروں پر درخت ِجاوداں ہیں اور ان درختوں پر بارہ قسم کے میوے لگے ہوئے ہیں ،ان درختوں کے پتے امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے شفا ہیں ۔عرب کے معروف نقاد و دانشور سیدنا ابو طالب عبد مناف فرماتے ہیں ،” اِنَّ خُدَیْجَةَاِمْرَاةکَامِلَةمَیْمُوْنَةتَخْشَی الْعَارََوَتَحْذِرُالْشَّنَارَ”بے شک خدیجہ ایک مکمل خاتون ہیں ،ہر قسم کے ننگ وعار اور بدنامی سے پاک ہیں ،ایک پروقار اور عزت والی خاتون ہیں۔
حرم کعبہ میں تما م صنادید عرب نے جن میں صلت بن ابی یہاب ، وُلَیْمَة بن الحجاج،ہِشام بن مغیرہ ،ابوجہل عمروْبن ہِشام ،عثمان بن مبارک عمیری ،اسد بن غویلب الدارمی، عقبہ بن ابی معیط ،امیہ بن خلف ،ابو سفیان بن حرب نمایاں ہیں، بیک زبان ورقہ بن نوفل کے سوال کے جواب میں کہا،”فَنَطَقَ الْعَرَبُ بَاَجْمَعَھُمْ،فَقَالُوْابَخّ ٍبَخّ ٍلَقَدْذَکَرَتْ وَاللّٰہِ اَشْرَفُ الْاَوْفِیْ وَاَنْسَبُ الْاَعْلیٰ وَالْرَّیْ الْازْکیٰ وَمَنْ لَایُوْجَدُلَھَانَظِیْرفِیْ نِسَائِ الْعَرَبِ وَالْعَجَمْ ”،”پس تما م سرداران ِعرب نے بیک زبان کہا ،واہ واہ سبحان اللہ !آپ نے تو ایسی خاتون کا ذکر کیا ہے جو فضل وشرف کے اعتبار سے بہترین اور حسب ونسب کے اعتبار سے بلند وبالا ہیں ۔صائب الرائے اور عمدہ فکر وشعور کی مالکہ ہیں ۔
Hazrat Khadijah al Kubra
عرب وعجم کی عورتوں میں کوئی بھی ان کا جواب ونظیر نہیں ،وہ بے مثل وبے عدیل ہیں ”۔عرب ناقدین عرب وعجم کی تہذیب سے بخوبی واقف تھے ۔متعدد ممالک ،دربار شاہی اور اکابرین عالم سے روابط رکھتے تھے ۔بیک زبان تمام جہاندیدہ افراد کی رائے سے سیدہ کے فضائل ومناقب اور مراتب ومحامدعیاں ہیں ۔عرب کی ہمہ جہت شہزادی بے مثل وبے نظیر تھیں ۔آپ روزانہ ہزاروں درہم غرباو مساکین میں تقسیم فرماتی تھیں۔آپ کے بعد سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تواتر سے غربا و مساکین کی امداد کرتے اور فرمایا کرتے،”خدیجہ نے مجھے ان لوگوں سے حسن سلوک کرتے رہنے کی وصیت کی تھی”۔
خاندان عرب کی مایہ ناز شہزادی،مومنین کی قابل احترام واکرام ماں،سادات عظام کی لائق صد افتخارجدہ ماجدہ،عرب کے مشہور شہرمکہ کے ایک معزز،باوقاراور علمی خانوادہ میں پیدا ہوئیں۔عرب کے نجس معاشرے میں جو چند گھرانے عزت و شرافت کی باوقار زندگی بسر کر رہے تھے اور بت پرستی و شرک سے دور رہ کر ادیان ِالٰہی کے پیروکار تھے انہیں میں ایک محترم گھرانہ، جناب خویلد کا بھی تھا جو تین پشتوں بعد چوتھی پشت میں خاندان نبی ِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔شرف و کرامت،خیر و برکت،فضل و شرافت اور امارت و سیادت میں یہ خاندان پورے عرب میں معروف تھااوربنی ہاشم کے بعد عرب کا قابل ذکر خاندان تھا۔
خاندان خویلد ہر دور میں اجدادِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیتا رہا اور سیدہ خدیجہ کے والدحضرت خویلدہمیشہ ہر محاز پراجداد ِمرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے۔شاہِ یمنتُبَّعْ الاصغر حسّا ن کے حجر اسود اکھاڑ کر یمن لے جانے کے ارادہ کے خلاف دفاع حجر میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔لائو لشکر کے ساتھ حملہ آور تبع نے آپ کی فدا کاری ومبارزہ کے نتیجہ میں اپنے ارادے کو ترک کر دیا اور حجر اسود سے متعرض نہ ہوا۔اس طرح آپ نے اہم شعائر اللہ کی حفاظت کی ۔اہل مکہ آپ کی بہادری وحق گوئی سے انتہائی متاثر ہو آپ کی مدح وثناکرنے لگے۔
Hazrat Khadijah al Kubra
حضرت خویلد کی اعانت ہمیشہ بنی عبد مناف کے حق میں سودمند ثابت ہوئی۔حضرت خویلد اپنے خاندان کے ممتازسرداراور نمایاں خصوصیات کے حامل تھے۔آپ کے دو بھائی نوفل و عمروْبھی سردار تھے جن کی سرداری پر قبیلہ بنی اسد کو ناز تھا۔ ان دونوں رئیس و سردار بھائیوں کی وجہ سے حضرت خویلد کے بازو بیحد مضبوط ہو گئے اور ان تین سرداروں کی موجودگی میں بنی عبد مناف ،اجداد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کسی کا آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی محال تھا۔
خُدَیْجَةُالْکُبْریٰ خدیجہ، خدج کے مادہ میںہے۔عربی زبان میں خُدَیْج اس بچے کو کہتے ہیں جو مدت مقررہ سے قبل پیدا ہو جائے۔ تذکیر کو خدیج اور تانیث کوخدیجہ کہتے ہیں۔سیدہ طاہرہ پانچ ماہ شکم مادر میں رہیںاور چھٹے ماہ کے پہلے دن دنیا میں جلوہ افروز ہو گئیں۔اس باعث والدبزرگوار نے آپ کو خدیجہ کہا ۔ہر عمل و فعل اور سیرت وکردار میںبلندی و برتری اورعظیم الشان بزرگی ،کمالات ویکتا اعلیٰ صفات کے باعث رسول اللہ آپ کو کبریٰ کے نام سے پکارتے جس باعث آپ ” خدیجہ الکبریٰ ” معروف ہوئیں۔ عام الفیل سے تین سال قبل ٥٦٧ء میں تشریف لائیں۔آپ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین سال، کبیر السن تھیں۔
نسب نامہ آپ سیدہ خدیجہ بنت خویلدبن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی ہیں۔آپ کی والدہ معظمہ فاطمہ بنت زائدبن الاصم بن ہرم بن رواحہ بن حجر بن عبدبن معیص بن عامربن لوئی ہیں۔اسطرح آپ پدری سلسلہ میں چوتھی اور مادری سلسلہ میں آٹھویں پشت میں نسب نامہ ء فخر موجودات میں شریک ہو جاتی ہیں۔ ۔آپ کی والدئہ معظمہ کا سایہ بچپن ہی میں اٹھ گیا اور حرب الفجار کے روز والد بھی انتقال فرما گئے۔ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے باوجودسیدہ خدیجہ طاہرہ،خاندانی شرافت اور فطری غیرت و حمیت کے گہوارہ میں تربیت پا کر اس طرح پروان چڑھیںکہلِسَانِ وَمَایَنْطِقْ نے فرمایا، ”عالم کی تمام عورتوں میں سب سے بہترچار عورتیں ہیں،مریم بنت عمران،آسیہ بنت مزاحم زن فرعون، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ”۔آپ محاسن کرداراور مکارم اخلاق کے تمام زیورات سے سر تاپا آراستہ و پیراستہ تھیں۔
Hazrat Khadijah al Kubra
تجارت ماں باپ کے ترکہ سے ملنے والی دولت کو آپ نے تجارت میں لگایا۔پہلے یہ مال ِتجارت مکہ کے بازار سے آگے ذوالمخبة،ذوالمجازاور عکاظ کے بازاروںاور میلوں میں جاتا تھاجومکہ کے اطراف و جوانب میں لگتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجارت کے کاروبار میں وسعت پیدا ہوتی گئی یہاں تک کہ آپ کا مال تجارت اس وقت کی عظیم تجارتی منڈیوں شام،لبنان،مصر ،طائف،عراق ،بحرین، عمان، حبشہ، یمن، روم اور فلسطین میں بھی جانے لگا۔اپنی عالی دماغی،خوش فکری، عقلمندی، خداداد فہم و فراست، حزم و احتیاط اور تدبر و تفکر سے سیدہ خدیجہ طاہرہ ،مکہ کی امیر ترین خاتون بن گئیںاور پھر نہ صرف مکہ بلکہ جزیرہ نمائے عرب کا کوئی شخص ،مال و دولت میں ان کا مدمقابل نہ رہا۔نہ فضل و شرف میں کوئی ثانی تھا نہ دولت و ثروت میں ۔سخت پردہ میں رہتے ہوئے بھی آپ نے بے مثال تجارت قائم کی اور اپنی خداداد صلاحیت واستعداد کی بنا پر اتنا بڑا تجارتی نظام قائم کیا کہ جس کی نظیر نہیں مل سکتی۔اسی ہزار اونٹ ،ہزار غلام ،ہزار کنیزیں اور ان اونٹوں کی خوراک و ادویات کوٹنے کے لیے سونے چاندی کے دستے،ثروت ِخدیجہ کا ایسا رخ ہیں جن کی مثل پیش کرنے سے مئورخین قاصر ہیں۔چارسوغلام اور کنیزیں آپ کے محل کی خدمت گزاری کے مختلف امور میں دست بستہ کھڑے رہتے۔
طبقات ابن سعد کے الفاظ ہیں،”جناب خدیجہ ،بے حد صاحب ِشرافت اور بے پناہ مال کی مالک تاجرہ تھیں۔ان کا مال ملک شام تک جایا کرتا تھا۔پورے رئوسائے قریش کا جتنا مال تجارت ہوا کرتا تھااتنا مال تجارت تنہا جناب خدیجہ کا ہوا کرتا تھا۔ا۔آپ لوگوں سے اجرت پر کام لیا کرتی تھیںاور شرکت منافع پر مال دیا کرتی تھیں”۔یہی الفاظ ابن ہِشام،طبری،صاحب اصابہ،تاریخ خمیس اور فصول المہمہ کے بھی ہیں۔تمام مئورخین اسلام نے آپ کی پاکیزگیء نسب،پختگیء شعوراور کمال عقل کا بیک زبان اعتراف کیا ہے اور سب کو تسلیم ہے کہ آپ صائب رائے،صحیح الفکر،عالی ظرف،وسیع النظر،بلند کردار،باوقاراور قابل رشک و اتباع سیرت مبارکہ رکھنے والی خاتون تھیں۔
علمی مذاکرے عزت و دولت کی مالک خدیجہ علم و عرفان کی زندگی بسر فرما رہی تھیں۔دنیا جہالت و جاہلیت کے اندھیروں میں تھی اور کتب ِسماوی اور علوم لدنی کے درمیان سیدہ خدیجہ کی شمع حیات روشن تھی۔آپ علمی مباحث فرمایا کرتی تھیںاور جید علما ئے کتب آسمانی اور احبار یہود سے آپ کے علمی مباحث جاری رہتے تھے۔آپ مدبر ،دانشور اور مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ ادیبہ ،شاعرہ اور ماہر لسانیات تھیں ۔آپ کے خاندان کو صرف سیادت و سروری ہی کا فخر حاصل نہیںتھا بلکہ اس خاندان میں زمانہء قدیم سے علم بھی خیمہ زن تھا۔ورقہ بن نوفل کی شخصیت ،غیر معروف نہیں ہے ۔آپ،سیدہ خدیجہ طاہرہ کے چچا زاد بھائی اور کتب سماوی کے جید عالم تھے۔آپ نے انجیل ِمقدس کا عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ ان کے ساتھ علمی مذاکرے،آسمانی کتابوں کے تذکرے اور صحف انبیا کے چرچے ہوتے رہتے تھے۔آپ کی تلاش و جستجو، حقیقت کی دریافت کا شوق اور مسلسل تگ ودواور غور و فکر کی نورانی تڑپ صفحات ِتاریخ میں بکھری نظر آتی ہے۔
Hazrat Khadijah al Kubra
مشیت ایزدی مشیت الٰہی بھی قدم قدم پر آپ کی تلاش و جستجواور ذوق ِتحقیق کو سہارا دیتی رہی۔ایک دفعہ آپ کچھ سہیلیوں کے ساتھ ایک مقام پر تشریف فرما تھیں۔یکایک ایک شخص یہ کہتا ہوا گزرا،”مکہ کی عورتو! تمہارے شہر میںایک نبی مبعوث بہ رسالت ہونے والا ہے جس کا نام احمد ہو گا۔تم میں سے جس کی قسمت یاوری کرے اس کو چاہیے کہ وہ اس کی رفیقہء حیات بن جائے”۔اس منادی کے بعد کچھ لڑکیاں زیر لب مسکرا کر رہ گئیں،کچھ نے اسے برا بھلا کہااور کچھ نے اس پر کنکریاں پھینکیںلیکن شہزادیِ عرب کی سنجیدگی و متانت میں تہہ در تہہ اضافہ ہو گیا اور وہ فکروتدبرکے گہرے سمندر میں کھو گئیں۔
شہزادی عرب نے ایک رات خواب دیکھاکہ سورج کعبہ کے اوپر چکر لگا رہا ہے اور آہستہ آہستہ نیچے آتا گیا ،بالآخر ان کے گھر میں اتر گیا اور اس کی روشنی سے مکہ کے تمام گھر اور در و دیوار جگمگا اٹھے ۔حسب دستور اٹھیں اور انتہائی مسرت و عقیدت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سیدھی ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچیںاور اپنا خواب بیان کر کے تعبیر پوچھی۔ورقہ بن نوفل نے تعبیر بتائی کہ آپ کا عقد ایسے شخص سے ہو گا جس کو اللہ رب العزت نبوت و رسالت کے عہدئہ جلیلہ سے سرفراز فرمائے گا۔خواب کی اس تعبیر نے شہزادی کے عزم و ارادے کو مزید تقویت بخشی اور آپ کو یقین واثق ہو گیاکہ خاتم النبیین ۖ کی زوجیت کا شرف انہیںکا مقدر ہے اور اسی یقین کی بنا پر آپ رئوسا و بادشاہان عرب کے تمام پیغامات عقد ،پائے حقارت سے ٹھکراتی رہیں۔آپ کی دور رس نگاہیں ماورائے مادیات،روحانیت کی بلندیوں پر تھیں۔
ورقہ بن نوفل نے سیدہ خدیجہ کو آگاہ کیاکہ میرے پاس حضرت عیسیٰ کے زمانہ سے لکھا ہوا موجود ہے جس کی بنیاد پر آنے والے واقعات کو پرکھا جاسکتا ہے ۔میرے پاس پانی لائیں ۔پانی حاضر کیا گیا۔جناب ِورقہ نے لکھے ہوئے تعویز پر پانی چھڑکا اور اس پانی سے غسل کرنے کا کہا۔سیدہ نے عمل کیاجس کے بعد ورقہ بن نوفل نے زبوروانجیل سے چند کلمات کو ایک تختی پر لکھا اور تاکید کی کہ سوتے وقت ان کو اپنے سر کے نیچے رکھیں تا کہ آپ کو آنے والے واقعات سے آگاہی ہو سکے ۔سیدہ نے ایسا ہی کیا اور محو استراحت ہوئیں ۔ بحالت خواب دیکھا کہ ابو طالب کے گھر سے ایک میانہ قامت گھوڑ سوارنوجوان نکلے جن کی آنکھیں بڑی ،سیاہ ،ابرو نازک اور ہونٹ سرخ تھے ۔ان کے چہرئہ اقدس سے متانت، جلال وبزرگی کے آثار نمایاں تھے اور دونوں کندھوں میں ایک خصوصی نشان نبوت تھا۔اُن پر بادل کا ایک ٹکڑا سایہ بردار تھا۔وہ نوجوان ایک گھوڑے پر سوار تھے جس کی لگام سونے کی تھی ۔گھوڑے کی شکل انسان نما تھی ۔دم کے بال رنگارنگ اور پائوں گائے کے پائوں کی طرح تھے ۔اس کے ایک قدم کا فاصلہ آنکھوں کی نظر کی پہنچ کے برابر تھا۔
Hazrat Khadijah al Kubra
سیدہ خدیجہ نے گھوڑ سوار کو دیکھا تو اُن کے قدموں سے لپٹ گئیں ۔آنکھ کھلی تو اُس کے بعد نہ سوئیں اور صبح ہوتے ہی ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں ۔وہ شدت جذبات سے مغلوب تھیں ۔آتے ہی سلام کیا ۔ورقہ نے کہا،”خدیجہ !مجھے یقین ہے آپ نے گزشتہ شب خواب دیکھا ہے ”۔سیدہ نے جواب دیا،”ہاں !میں نے ایک سوار کو ان خصوصیات کے ساتھ خواب میں دیکھا ہے ”۔اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنا پورا خوا ب ورقہ بن نوفل کے گوش گزار کیاجسے سن کر ورقہ نے کہا،”بہن خدیجہ !اگر آپ نے یہ خواب دیکھا ہے تو یقیناآپ کو کامیابی اور دنیا وعقبیٰ کی سعادت نصیب ہو گی کیونکہ جنہیں آپ نے خواب میں دیکھا ہے ان کے سر پہ نبوت کا تاج ہے اور وہی قیامت کے دن گناہگاروں کی شفاعت کرنے والے ہیں۔
وہ آقائے دوجہاں ،شہنشاہِ عرب وعجم حضرت محمد ابن ِعبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ”۔حضرت خدیجہ نے کہا ،”بھائی !میں کس طرح ان تک پہنچ سکتی ہوں جبکہ میں ایک مجبور عورت ہوں اور وہ ایک عظیم انسان ہیں ؟”۔اس کے بعدآپ کی بیتابی میں د ن بدن اضافہ ہوتا گیا۔اسی بیتابی اور شوق ِوصال میں ان کی آنکھیں برسنا شروع ہو گئیں ۔ رات دن بے چین رہتیں اور بارگاہ ِرسالت میں اشعار کا نذرانہ پیش فرماتیں ۔عباس محمود العقاد لکھتے ہیں،”اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص منشا اور تصرف کے تحت خدیجہ جیسی پاکباز اور غمگسار خاتون کو آپ کے لیے منتخب فرمایا”۔سیدہ طاہرہ کا طرز عمل ثابت کرتا ہے کہ آپ ، پیغمبر اکرم کے علاوہ کسی کو بھی اپنا ہمسر قرار دینے پر رضامند نہیں تھیں۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، ” اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی کفو نہ تھا”اسی طرح ”اگر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو خدیجہ طاہرہ کا بھی کفو ممکن نہ تھا”۔
Dr Syed Ali Abbas Shah
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ ریکٹر والعصر اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ