تحریر : عارف محمود کسانہ، سویڈن پاکستان میں مروجہ سرکاری ملازمت کے نظام میں اگر کوئی اپنا نہ صرف دامن بچا کر نکل جائے بلکہ فرض شناسی، حب الوطنی، ایمان داری، قانون کی پاسداری اور بااصول ماضی پیچھے چھوڑ کرجائے تو یہ واقعی قابل صد تحسین ہے۔ مزید یہ کہ کوئی عام ملازمت نہ ہو بلکہ محکمہ پولیس ہو جس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں اور اس میں ایک طویل عرصہ مختلف اہم ذمہ داریوں پر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے سب سے بڑے عہدے آئی جی تک پہنچنے تک ایک بے داغ عرصہ ملازمت رکھتا ہو تو تعریف تو کرنا ہی پڑے گی۔
یہ کوئی اور نہیں ذوالفقاراحمد چیمہ کی شخصیت ہے۔ پولیس سروس میں درخشاں مثال قائم کرنے کے بعد جب کالم نگاری کے میدان میں قدم رکھا تو یوں لگا جیسے وہ اس میدان میں سکہ بٹھانے چلے آئے ہیں۔ اسلام، رسول پاکﷺ، علامہ اقبال اور پاکستان سے محبت اُن کی ہر تحریر میں جھلکتی ہے۔ جب اُن کی کتاب دوٹوک باتیں شائع ہوئی تو پڑھنے کا اشتیاق ہوا۔ پاکستان سے آنے والی اپنی ایک عزیزہ سے کتاب کی فرمائش کی جو وہ اپنے ساتھ لے آئیں۔ میرے دوست زمان خان نے میرے مطالعہ کرنے سے سے پہلے ہی کتاب پڑھ ڈالی۔ پوچھا کیسی کتاب ہے ۔ کہنے لگے بہت اچھی کتاب ہے لیکن اس کا نام دو ٹوک باتیں نہیں، سفرنامے ہونا چاہیے تھا۔ میں نے پوچھا وہ کیوں۔ کہا کہ میں تو دوٹوک باتوں کی جستجو میں ورق گردانی کررتا رہا مگر اس میں دو ٹوک باتیں تو کوئی نظر نہیں آئیں۔ مصنف نے واقعات میں عام لوگوں کا نام اور تفصیلات تو لکھ دی ہیں لیکن جب کسی واقعہ میں کوئی بڑی شخصیت کا نام ہے ہے وہاں سے وہ کنی کترا کر نکل گئے ہیں اس لیے اس کتاب کاعنوان دو ٹوک باتیں مناسب نہیں لگتا۔
بحرحال جب کتاب پڑھنی شروع کی تو محسوس ہوا کہ ذوافقار چیمہ نے یہ کتاب بڑے درد دل کے ساتھ لکھی ہے جس میں ایک عام محب وطن پاکستانی کے دل کی آواز سُنی جاسکتی ہے۔ انہوں نے خود اپنے محکمہ کی خامیوں ، سرکاری ادراوں کی بے عملی، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ اور دوسری کئی برائیوں اور مسائل کی نشاندہی کی ہے ۔ انہوں نے اپنی تحریر میں امید کا پیغام دیا ہے۔ اپنے دین، مذہب، ملک اور اچھی روایات پر فخر کا درس دیا ہے۔ فکر اقبال اُن کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہے جس کا عکس ان کی تحریر وں میں دیکھائی دیتاہے۔ معاشرہ میں عزت کاجو معیار بن چکاہے اس حوالے سے جو مختلف واقعات انہوں نے پیشکئے ہیں وہ بھی برملا ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں ہونے والی فضولیات اور میڈیا کی مادرپدر آزادی کو انہوں خوب آڑے ہاتھوں لیا جس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ البتہ اعتراض ان کے صفحہ ۶۰ پر تحریر کردہ تجزئیے سے ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ” ہمارے ملک میں عوام کواپنے حکمران بنانے اور ہٹانے کا حق حاصل ہی “ ”ہمارے ملک میں عدلیہ ہر قسم کے دباو سے آزاد اور طاقتورادارہ ہے، اور اسے حکم سے بڑے بااثر بشمول وزیر بھی گرفتار ہورہے ہیں“ میں یہ تجزیہ پڑھ کر حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطہ زن ہوگیا کہ کیا پاکستان میں واقعی ایسا ہوگیا۔ اگر وہاں عوام کو اپنے حکمران بنانے اور ہٹانے کا اختیار حاصل ہے تو پھر سیاسی بے چینی، دھرنے، آمرانہ حکومتیں، انتخابی دھاندلیاں اور جو ہر روز رونا رویا جاتا ہے وہ کیا ہے۔ عوام کہاں اپنا حق استعمال کرتے ہیں اور کس طرح حکومت بناتے اور ہٹاتے ہیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ عوام تو سیاسی جماعتوں کو بھی خود نہیں بناتے۔ پاکستان کی کس سیاسی جماعت میں جمہوریت ہے۔ پاکستان کی کس جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرائے۔کیاانتخابی امیدواروں کو ٹکٹ کی عوام کی مرضی سے ملتا ہے۔ اگر یہ حقیقت ہوتی کہ پاکستان میں عوام کو اپنے حکمران بنانے اور ہٹانے کا اختیار ہوتا تو آج ملک کی تقدید مختلف ہوتی۔ فاضل مصنف بھی اس حقیقت کو جانتے ہیں اسی لیے کتاب کے آخر میں صفحہ ۲۸۴ پر وہ اس کے باکل برعکس اور متضاد لکھتے ہیں اور یہاں انہوں نے حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔
Pakistan
اس سے بھی زیادہ قابل اعتراض اُن کا یہ لکھنا کہ ”ہمارے ملک میں عدلیہ ہر قسم کے دباو سے آزاد اور طاقتورادارہ ہے، اور اسے حکم سے بڑے بااثر بشمول وزیر بھی گرفتار ہورہے ہیں“ ممکن ہی سرکاری ملازمت آڑے آرہی ہو اور وہ ایسے لکھ گئے ہوں لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ کاش ایسا ہی ہوتا جو انہوں نے لکھا ہے ۔ اگر ایسا ہی ہوتاتو پاکستان آج ایسا نہ ہوتا جو ہمارے سامنے ہے۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی تامل نہیں کہ پاکستان کے حالات کی ابتری کی سب سے بڑی وجہ وہاں کی عدلیہ ہے۔ اگر وہاں کاعدالتی نظام ہی عدل پر مبنی ہوتا تو آج کا پاکستان بہت مختلف ہوتا۔ عدالتی فیصلوں میں تاخیر، عدل کے منافی فیصلے اور عدم عمل درآمد نے سسٹم کو ناکارہ اور عوام کے لیے پریشان کن بنارکھا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ سے انصاف لینے کے لیے عمر خضر، صبر ایوب اوردولت قارون چاہیے۔ پارلیمنٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں کے قیام اور خود سپریم کورٹ کی جانب سے اس پر مہر تصدیق ثبت ہونے سے وہاں کے عدالتی نظام پر عدم اعتماد ثابت ہوگیا ہے۔
اگر پاکستان کی عدالتیں بغیر دباؤ کے فیصلے کرتیں تو فوجی عدالتوں کی ضرورت کیوں پیش آتی۔ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا طریقہ کار خود انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ ماضی بعید کو چھوڑیے حال ہی میں عدلیہ میں جو مقدمے گئے ہیں اُن کا کیا بنا ہے۔ ایان علی، سانحہ ماڈل ٹاؤن، نندی پور، میمو گیٹ اسکینڈل، رینٹل پاور، این آئی سی ایل، حدیبیہ پیپر مل، اصغر خان کیس، ارسلان افتخار کیس اور نیب کی جانب سے ۱۵۰ کرپٹ ترین افراد کو عدلیہ نے کون سی سزا دی۔ عدلیہ کے بارے تفصیلات تو اتنی زیادہ ہیں کہ ایک کالم کیا کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ۔ یہاں بھی چیمہ صاحب نے آگے جا کر صفحہ ۱۶۳ اپنے موقف پر نظر ثانی کرلی ۔ توقع ہے کہ اہ اگلے ایڈیشن میں وہ اس تجزیہ کوکتاب سیحذف کرکے اپنے اس موقف کو اپنائیں گے جو انہوں نے بعد میں تحریر کیا ہے۔
متناسب نمائدگی، بلدیاتی انتخابات، پالیمنٹ کی چار سالہ مدت، صوبائی خود مختاری، ایف آئی اے کو غیر جانبدار بنانا اور بیرون ملک پاکستانی سیاسی جماعتوں کی شاخیں کھولنے پر پابندی جیسی تجاویز بالکل درست ہیں لیکن دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو اپنے آبائی ملک میں Public Office کے لیے نااہل قرار دینے کے تجویز قانون اور عدل کے تقاضوں کے منافی ہے۔ جب دوہری شہریت والوں پر وطن ثانی میں ایسی کوئی پابندی نہیں تو آبائی وطن میں ایسی پابندی Discrimination ہے۔ جب پاکستان پر کوئی آفت آتی ہے تو انہی دوہری شہریت والوں کو کہا جاتا ہے کہ آپ پاکستانی ہیں آگے آئیں اور مدد کریں لیکن جب دینے کا وقت آتا ہے تو کہا جاتا کہ آپ غیر ملکی ہیں۔ جب پاکستان کو ضرورت ہوتی ہے اُس وقت ہمیں کیوں غیر ملکی نہیں کیا جاتا بلکہ ایک کام کریں دوہری شہریت کا قانون ہی منسوخ کردیں تاکہ جو جہاں رہ رہا ہے وہ وہیں کا ہو کر رہے اور دو کشتیوں کی سواری کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہو۔