کراچی (جیوڈیسک) ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی کارکردگی کافی بہتر جار ہی تھی ،مگر چند دنوں کے دوران ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے،جس کے بعدڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 2 فیصد سے زائد کم ہوئی ہے۔
25 اگست کو اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر 104 روپے 80 پر فروخت ہواجبکہ اسی روز اس کی قیمت 17 ماہ کی بلند ترین سطح یعنی 105 روپے 10 پیسے تک پہنچ گئی۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت آنے کے بعد یعنی 07 جون 2013 میں ایک ڈالر 98 روپے 50 پیسے کا فروخت ہورہا تھا۔ 2 دسمبر 2013 تک یہ 108 روپے 50 پیسے تک پہنچا۔ڈالر کی اس بڑھتی قدر کو روکنے کیلئے وزیرخزانہ نے وارننگ جاری کی، جس کے بعد 31 دسمبر 2013 تک ڈالر 105 روپے 29 میں فروخت ہوتارہا۔سال 2014 میں ڈالر 98 روپے کی سطح تک پہنچا اور سال کے اختتام 31 دسمبر 2014 میں یہ 100 روپے 46 پیسے کی سطح پر ٹریڈ ہوا۔
2015 کے آغازسے اگست کےشروع تک روپیہ مضبوط رہااور ایک ڈالر 101روپے میں فروخت کیلئے دستیاب تھا مگر 24 اگست سے ڈالر کو ایسے پر لگے کے یہ 17 ماہ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا ۔معاشی تجزیہ کار اس اضافے کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔
جس میں کچھ اسے دانستہ حکومتی اقدام قرار دے رہے ہیں تا کہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ ہوسکے اور بھارت، بنگلہ دیش اور چین کی کرنسی کی قدر میں کمی کےمنفی اثرات سے بھی بچ سکے ۔ کچھ کا خیال ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کی وجہ سے تاجر اور عوام ڈالر میں سرمایہ کاری کررہے ہیںاور حاجیوں کی جانب سے ڈالرزخریدنے سے اس کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔