تحریر: غلام مرتضی باجوہ پاکستان کے 2015ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی این اے 122 میں ہار کے چیئرمین تحریک انصاف کا موقف تھا کی عام انتخابات میں تاریخی دھدندلی ہوئی ہے۔ جس پر عمران خان نے اپنے دوستوں کی مشاورات کے بعد کئی میدان لگائے۔ عالمی وقومی ماہرین، مبصرین اور ماہرقانون دانوں کے ہزاروں گلے شکوے ہیں کہ کرکٹ ،سیاست اور حکمرانی میں بہت فرق ہے۔ لیکن تحریک انصاف نے لاکھوں قربانیوں سے حاصل کئے جانے والے پاکستان اور اس کے آئین وقانون کو ہوامیں اڑادیا اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے کارنامے پاکستانی قوم کے سامنے ہیں۔لوگ مررہے تھے ۔اور وزیر اعلیٰ کے پی کے اسلام آبا میں بھگڑے ڈال رہے تھے۔سانحہ پشاورپاکستان کی تاریخی کا بڑا سانحہ تھا لیکن عمران خان سوگ رات منانے میں مصروف تھے۔
حکمرانی کے حوالے اساتذہ بتاتے ہیں کہ ہزاروں سال قبل ”دریا کے اس پار جنگل کے تمام جانوروں نے جنگل کے بادشاہ شیر کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدیوں پر محیط فرسودہ اور آمرانہ نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے اور ہر بار شیر ہی جنگل کا بادشاہ کیوں بنے، دوسرے جانوروں کو بھی حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہیے، شہروں میں جمہوری طرز حکومت بڑی کامیابی سے چل رہا ہے، اب جنگل میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے، الیکشن ہوں اور جو جانور جیتے اسے بادشاہت کا تاج ملے، اس مطالبے میں لومڑی، ریچھ اور ہاتھی پیش پیش تھے، شیر نے جانوروں کے تیور دیکھتے ہوئے بادشاہت چھوڑدی اور گوشہ نشین ہوگیا، تمام جانور بے حد خوش تھے، الیکشن کا اعلان کردیا گیا، بادشاہت کے امیدواروں میں ہاتھی، چیتا، ریچھ، لومڑی اور بندر شامل تھے، الیکشن ہوئے ووٹ ڈالے گئے، اتفاق سے جنگل میں بندروں کی تعداد سب سے زیادہ تھی، ا نہوں نے اپنے ساتھی بندر کو ووٹ ڈیے، درختوں پر رہنے والیے کچھ پرندوں نے بھی اپنا ووٹ بندر کو دیا، اس طرح بندر واضح اکثریت سے کامیاب قرار پایا اور بادشاہت کا تاج اس کے سر پر سج گیا۔
کچھ دن تو آرام سے گزرے، پھر جنگل کا سکون خراب ہونا شروع ہوگیا، شیر کا اپنا ایک رعب ہوتا تھا، تمام جانورا س کی ایک دھاڑ سے سہم جاتے تھے، جب کہ بندر بادشاہ ہر وقت درختوںپر اچھلتا رہتا، یا پھر اپنے ساتھی بندروں کی جوئیں نکال نکال کر کھاتا رہتا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام جانور بے لگام ہوگئے، سب اپنی من مانی کرنے لگے، بڑے جانوروں نے چھوٹے اور معصوم جانوروں کو ستانا شروع کردیا۔ کبھی شکایت آتی کہ کوئی بڑا جانور چھوٹے جانور کے بچوں کو کھاگیا ہے کبھی پتا چلتا کہ کسی پرندے کے انڈے غائب ہیں مگر بندر بادشاہ اپنے حال میں مست تھے، ایک دن بی گلہری، بادشاہ بندر کے پاس واویلہ کرتی ہوئی پہنچی اور بولی ”بادشاہ سلامت! بھیڑیا آج زبردستی میرے گھر میں گھس آیا ہے اور میرے بچوں کو اٹھا کر لے گیا ہے۔
Monkey
ابھی وہ زیادہ دور نہیں گیا ہوگا، آپ میری مدد کریں اور میرے معصوم بچوں کو بھیڑیے کے چنگل سے آزاد کرائیں، ورنہ وہ میرے بچوں کو چیر پھاڑ کر کھا جائے گا، بندر بادشاہ نے کہا اچھا میں کچھ کرتا ہوں، اس کے بعد انہوں نے ایک درخت پر چھلانگ لگائی، وہاں سے دوسرے، پھر تیسرے اور پھر بھاگتے ہوئے بی گلہری کے پاس آئے اور پھر ایک درخت پر چڑھ گئے، وہاں سے دوسرے، پھر تیسرے درخت پر چھلانگتیں لگاتے چلے گئے، اتنے میں بی گلہری نے دیکھا کہ بھیڑیا اس کے بچوں کو کھا چکا تھا، اونچے درختوں سے بندر بادشاہ بھی یہ منظر دیکھ کر بی گلہری کے پاس آئے اور غمگین صورت بنا کر بولے ”میں نے بھاگ دوڑ تو بہت کی لیکن اللہ کی یہی مرضی تھی” بی گلہری روتی دھوتی بندر کو بددعا دیتی چلی گئی اور بندر بادشاہ پھر سے اپنی اچھل کود میں مصروف ہوگئے۔
جنگل کے تمام جانور اس نااہل بادشاہ سے تنگ آچکے تھے، وہ شرمندہ چہروں کے ساتھ شیر کی کچھار میں داخل ہوئے اور درخواست کی کہ شیر دوبارہ سے بادشاہت سنبھالے اور جانوروں کو نااہل اور نامعقول بادشاہ سے نجات دلائے۔ شیر نے انہیں یاد دلایا کہ جمہوری اصولوں کے مطابق پانچ سال سے پہلے بندر کو بادشاہت سے نہیںہٹایا جاسکتا، ہاں اگر اس دوران بادشاہ مرجائے تو پھر متفقہ فیصلے سے دوسرے بادشاہ کا اعلان کیا جاسکتا ہے، یہ سن کر تمام جانور پریشان ہوگئے اور سوچ بچار کرنے لگے کہ اس بادشاہ سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔
چالاک لومڑی نے پرجوش لہجے میں کہا۔ بھلا کیا، تمام جانوروں نے بیک زبان پوچھا، لومڑی نے کہا، جیسا کہ آپ کو پتا ہے کہ بندروں کی ایک عادت ہوتی ہے کہ انہیں خاص طور پر متوجہ کرکے کوئی حرکت کی جائے تو وہ اس کی نقالی کرتے ہیں اور جیسا کرتے جاوایسا ہی کرتے ہیں، اب ترکیب یہ ہے کہ کوئی جانور بندر بادشاہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اسے نقالی کرنے پر مجبور کردے اور عجیب و غریب حرکت کرتا ہوا اسے جنگل کے کنارے بنے پرانے کنویں پر لے جائے، اس کے بعد وہ جانور اس کنویں میں چھلانگ لگادے، بندر بادشاہ بھی اسی جانور کی نقل کرتے ہوئے اس گہرے کنویں میں چھلانگ لگادیں گے، اس طرح ہم سب کو اس نااہل بادشاہ سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔
Frog
منصوبہ مکمل تھا، فوراً ہی اس پر عمل کیا گیا۔ تمام جانور درختوں کے پیچھے چھپ گئے اور مینڈک بندر بادشاہ کے سامنے آکر انہیں متوجہ کرنے کے لیے ٹرانے لگا، ساتھ ساتھ وہ اچھل بھی رہا تھا، بندر نے جب یہ دیکھا تو وہ بھی اچھلنے لگا اور ٹرانے کی کوشش کرنے لگا، مینڈک کبھی آگے کو اچھلتا، کبھی پیچھے کو قلابازی کھاتا اور مسلسل ٹراتا ہوا آہستہ آہستہ کنویں کی طرف بڑھنے لگا، نقالی بندر اس کی نقل کرتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے تھا، کنویں کے نزدیک پہنچ کر مینڈک نے ایک لمبی جست لگائی اور ٹراتا ہوا کنویں کے اندر چلا گیا۔
بندر نے بنا سوچے سمجھے چھلانگ لگادی اور چھپاک سے سیدھا پانی کے اندر جاگرا، تمام جانور درختوں کے پیچھے سے نکل کر کنویں کے گرد جمع ہوگئے اور بندر بادشاہ کو ڈوبتا ہوا دیکھنے لگے، اچانک اندر سے کوئی چیز اڑتی ہوئی نکلی اور کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئی، یہ مینڈک تھا، تمام جانور اسے باہر دیکھ کو خوش ہوگئے۔ ضرورت اس امر کی ہے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو ملکی حالات کے پیش نظر بیانات اور اقدامات کرنا ہونگے ۔ ورنہ سیاستدانوں اورحکمرانوں اس سیاسی کھیل کا فائدہ اٹھاتے ملک دشمن عناصر اپنے ناپاک عزم میں کا میاب ہوجائیں گے۔