کراچی (جیوڈیسک) سندھ پولیس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں لگے کیمرے اپنی افادیت کھوتے جارہے ہیں ، 4 برس قبل لگائے گئے کیمرے موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتے ، ان کی ٹیکنالوجی پرانی ہوگئی ہے۔
زیادہ تر وارداتوں میں ملزمان کے چہرے انتہائی غیر واضح ہوتے ہیں جس کا تمام تر فائدہ ملزمان کو ہی پہنچتا ہے ، رہی سہی کسر کیمروں کی دیکھ بھال نہ ہونے سے پوری ہوجاتی ہے ، عبدالرشید گوڈیل اور ایڈووکیٹ امیر حیدر شاہ کیس واضح مثال ہیں ، تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے اپنی افادیت کھوتے جارہے ہیں ، سندھ پولیس نے سرویلنس سسٹم پر 2009 میں کام کا آغاز کیا تھا۔
2010 میں تمام تر کاغذی کارروائی مکمل کی گئی جس کے بعد 2011 میں کیمروں کی تنصیب کے بعد منصوبے کا افتتاح ہوا ، منصوبے کے تحت شہر کے مختلف علاقوں میں 960 کیمرے لگائے گئے تھے جس میں ساؤتھ زون کو مکمل طور پر مانیٹر (کور) کیا گیا ، ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ اُس وقت 2 میگا پکسل (2MP) کا کیمرا لگایا گیا تھا جوکہ اب 2015 میں پرانی ٹیکنالوجی میں شمار کیا جاتا ہے ، سسٹم میں اسٹوریج کی مدت بھی صرف ایک ماہ ہی ہے جوکہ کراچی جیسے بڑے شہروں کے لحاظ سے انتہائی کم ہے ، مذکورہ کیمرے موجودہ دور جدید سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔
مارکیٹ میں اب 5 میگا پکسل (5MP) سے بھی زائد کے کیمرے دستیاب ہیں، شہر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں جب تفتیشی حکام فوٹیجز حاصل کرتے ہیں تو وہ ان کے لیے زیادہ تر کیسز میں ناکارہ ہی ثابت ہوتی ہے۔
سی سی ٹی وی فوٹیجز میں ملزمان کے چہرے انتہائی غیر واضح ہوتے ہیں ، نمبر پلیٹ بھی بعض اوقات فوکس نہیں ہوتی جس کی وجہ سے نہ صرف تفتیش میں رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں بلکہ ملزمان بھی قانون کی گرفت سے آزاد رہتے ہیں ، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عبدالرشید گوڈیل پر قاتلانہ حملہ اور ایڈووکیٹ امیر حیدر شاہ قتل کیس اس کی واضح اور تازہ ترین مثالیں ہیں۔