تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 1965 کی جنگ جو ہم پر ہندوستان جیسے بڑے اور بزدل ملک کے چھوٹے اذہان کے نیتاﺅں نے اس غرض سے تھوپی تھی کہ پاکستان جیسی مملکتِ خدادکو اس دنیا کے صفحہِ ہستی سے ہی نا پید کر دیا جائے۔ مگر چشمِ فلک نے دیکھا کہ”باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہیں ہم سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمار ا “کشمیر جو ہماری شہ رگ اس پراس کو کاٹنے کے لئے ہندو جاتی سینکڑون جتن کر چکی ہے اور ہم پر چار خطر ناک جنگین بھی مسلک کر چکی ہے مگر پاکستانی قوم کے عزم کا مقابلہ کرنے میں وہ ہمیشہ ہی نا کام رہی ہے۔ پہلی جنگ اس نے ہم پر 1948 میں مسلط کی تھی۔ یہ جنگ ہم نے اپنے گوں ناگوں مسائل کو فیس کرتے ہوئے ۔کرتے ہوئے بے سرو سامانی کیحالت میںاس کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کو روکنے کیلئے لڑی ۔کیونکہ اس نے کشمیر کے الحاق کی جعلی دستاویز پرد مہاراجہ کشمیر سے زبردستی دستخط کرا کے 27 ،اکتوبر 1948 کوہندوستان نے کسی راہ داری کی غیر موجودگی کی وجہ سے ،رات کی تاریکی میں اپنی فوجیں جمو و کشمیر میں سری نگر کے ہوئی ادے پر خاموشی سے اتار دیں۔
پاکستان نے بے پناہ مسائل کے ہوتے ہوئے بے سرو سامانی کے عالم میں یہ جنگ قبائلی بہادروں اور کشمیری نوجونوں کی مدد لڑی اور ہندوستانی سورماﺅں کو اس قدر کھدیڑا کہ وہ دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ہند فوجوں کی پسپائی کو دیکھتے ہوئے پنڈت نہرو نے کشمیر کو اپنے ہاتھوں جاتا دیکھ کر خود ہی اقوامِ متحدہ میں اس مسئلے کو لے گیا ۔جہاں سے ایک قرار داد کے ذریعے ہندوستان سے کہا کہ وہ کشمیر میں استصوابِ رائے کرائے کہ کشمیری پاکستان یا ہندوستان میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ؟ جہاں ہندوستان ساری دنیا سے کشمیر میں رائے شماری کرانے کا وعدہ تو کر آیا ۔مگراپنے ذہنی فطور کی بنا پر اس وعدے پر اس نے کبھی بھی عمل درآمد نہیں کیا۔
کیونکہ ہندوستان کو نوشتہ دیوارنظر آرہا ہے۔ دوسری جنگ میں ہم نے ہندوستان کے غرور کو اس طرح خاک نشین کیا کہ اُس جنگ کے زخم ہندوستان آج تک چاٹ رہا ہے۔ پھر 1971 میں اس نے ہماری اندرونی حالت اور بد نظمی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم پر تیسری جنگ مسلط کردی جس میں ہمیںنے اندرونی دشمنوں کی سازشوں سے مشرقی بازو یعنی مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ 1965 کا معرکہ ہمیں کم سن ہونے کے باوجود صبحِ صادق کی طرح یاد ہے۔ابھی قوم فجر کی نماز سے فراغت کے بعد 6 ستمبر 1965 کی صبح 7بجے کی خبریں شکیل احمد کی پاٹھ دار آواز میں سن رہی تھی کہ خبر دی گئی کہ ہندوستان کی فوجوں نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کسی اعلان ِجنگ کے پاکستان پربزدلانہ حملہ کر دیا ہے۔یہ خبر لمحہ بھر میں ملک کے چپے چپے میں پھیل گئی۔ہر جانب سے آواز گونجی ”جاگ اٹھا ہے سارا وطن ساتھیو ! مجاہدو!“ ہر جانب ایک ایسا جذبہ ساری قوم کے اندر پیدا ہو گیاتھا کہ جس کی کوئی آج تک مثال قائم نہ ہو سکی ہے۔
Refugees
کراچی کے جس علاقے میں ہم مقیم تھے وہ حکومت کی بنائی گئی مہاجرین کے لئے پکی آبادی تھی ۔پورے اس شہر نماں علاقے میں کوئی بھی دولت مند نہ تھا ۔غربت و افلاس کے باوجود ہر شخص مطعن تھا۔نہ بڑے گھر کی اور نہ ہی دولت و سروت کی کسی کو فکر تھی جو شخص جس حال میں تھا خوش تھا۔ اس وقت سو دوسو گھروںمیں سے کسی ایک گھر میں ریڈیو ہوا کرتا تھا۔خوش قسمتی سے اس وقت ہمارے پورے محلے میں صرف ہمارے ہی گھر میں ایک سنورا ریڈیو تھا ۔جس پر خبریں سُننے کے لئے پورے محلے کے لوگ ہمارے گھر کے دروازے پرچار اپائیوں پر کٹھا ہو جاتے اور خبریں سُن کر ہر فرد اپنے اپنے انداز میں خبروں پر تجزیہ و تبصرہ کرتا اور یہ سلسلہ رات گئے تک چلتا رہتا۔جو اس جنگ کے دوران روز کا معمول تھا۔ہر فرد جذبات سے پر ہوتا اور دشمن کی شکست ریخت پر مزید پر عزم ہوجات۔
6 ستمبر کو رات آٹھ بجے صدرِ پاکستان فیلڈ ماشل ایوب خان کوخطاب کرنا تھا۔پورے پاکستان میں ہر ریڈیو کے گرد لوگوں کا ایک جمِ غفیر اکٹھاتھا اورہر شخص اس خطاب کا منتظر تھا ۔اس وقت لوگوں نے ایوب خان اور ان کے بیٹے کی بد اعمالیوں اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ان کے ظالمانہ سلوک کو بھی فراموش کر دیا تھا۔ قوم اپنے سارے گلے شکوے بھول کر دشمن سے متعلق اپنے صدر کی باتیں سُننے کے منتظر تھے۔ کہ ریڈیو پاکستان پر صدر ایوب کی آواز گونجی ۔جس میں ایوب خان کے ایک جملے نے ساری قوم کے گلے شکوے فراموش کرا دیئے۔”میرے عزیز ہم وطنو ! السلام علیکُم دشمن نے جس قوم کو للکارا ہے وہ لا اِلہ الااللہ محمدُ رسول اللہ پر یقین رکھنے والے پاکستان کے دس کروڑلوگ ہیں “اس جملے نے وہ جادوئی اثر دکھایا کہ ساری پاکستانی قوم ڈھاکہ سے کراچی تک ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمن کے سامنے صف آرا ہوگئی ۔ہر شخص اپنی بساط کے مطابق اس جنگ میں اپنے فوجی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑا تھا۔
دشمن کے جہاز آتے تو ہم محلے کے تمام بچے میدان میں نکل کر نعرہِ تکبیر اللہُ اکبر کی صدائیںبلند کرتے۔ نہ ہمیں کسی قسم کا خطرہ محسوس ہوتا اور نہ ہی ہمارے والدین ہمیں اس عمل سے روکتے تھے۔ایک جذبہ ِ دیدنی تھا ۔کہ ہر فردِ ملت محسوس کر رہا تھا کہ وہ بھی پریکٹیکلی اپنے جاں بازوں کے ساتھ اس جنگ میں برابر کا شریک ہے۔دشمن اچانک حملہ کر کے شہر لا ہور تک گھس آیا تھا ۔بلکہ ہماری ایک ڈبل ٹیکر بس اغوا کر کے لے گیا اور ساری دنیا کو یہ عندیہ دیدیا کہ”آج شام کو لاہور جیمخانہ میںدنیا کے صحافیوں کو بھی مدعو کریں گے“مگر ہندو بنیئے کی یہ تمنا تمنا ہی رہی ہماری فوجوں اور لاہوریوں نے لاہور کاایسا دفاع کیا کہ دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے ۔جس پر ایک مقبول ترانہ بنا” خطہِ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام شہریوں کو غازیوں کو شہہ سواروں کو سلام “ہمارے شہسواروں نے بی آر بی نہر دشمن کو عبور نہیں کرنے دی اور دشمن کی لاشوں کے کشتے کے کشتے لگا دیئے۔
MM Alam
پھر 11 ستمبر کو ہمارے ایک بنگالی شاہین ایم ایم عالم نے اپنے فرسودہ سیبر جٹ طیارے سے آنِ واحد میں دشمن کی سر زمین پر اس کے 6 عدد جدید طیار ے جو جدید سازو سامان اور ہتھیاروں سے لیس تھے تباہ کر کے فضائیہ کی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کر کے دشمن کی کمر توڑ کے رکھ دی۔جس پر ہمارے ایک شاعر نے ہندوستا کو للکار ” جنگ کھیڈ نئیں ہوندی اے زنانیاں دی۔۔لال قلعہ تے تاج محل سہانوں چھیڑ کے یاد دلاﺅندے ہوسہانوں قسم اے اِنا نشانیاں دی اسیں سبھے حساب چکاون گے“اور پھرہمارے غازیوں اور شہیدوں نے چونڈہ کے مقام پر ہندوستان کے جدید ٹینکوںسے لیس ہونے کا غرور ہمیشہ کے لئے توڑ کرچونڈہ کو ہندوتانی فوجیوں کا مرگھٹ اور سنچوریم ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا تھا۔ جس پر ہمارے ایک شاعر نے کہا تھا ”خطہ ¾ لاہور کیا رتبہ ہے تیری خاک کا تُو ہے اسٹالن گراڈ اس سر زمینِ پاک کا“ (اسٹالن گرراڈ روس کا وہ مقاہے جہاں جنگِ عظیم میں دنیا کی ٹینکو کی سب سے خطر ناک جنگ لڑی گئی تھی) اس کافر و مسلمان کی جنگ میںمیجر عزیز بھٹی شہید نے اپنے سینے کو تو چھلنے کرا لیا تھا مگر دشمن کو آگے نہیں بڑھنے دیا تھا۔جس کے صلے میں قوم نے اپنے اس شہید کو نشانِ حیدر سے نوازا۔
جس نے ہمارے ایک شاعر کے بقول ”ملت کے جونوں کو یہ پیغام سُنادو پھر خالد و طارق کیہ میں شان دکھا دو“ ہم اُس وقت کے بچوں کو پچاس سال پہلے کے ترانے آج بھی از بر ہیں۔جب حکومت پاکستان کی جانب سے ایک پیسہ فی ٹینک دفاعی فنڈمانگا گیا تو ہم محلے کے تمام بچوں نے جنہیں ایک یا دو پیسے جیب خرچ کے ملتے تھے نے اپنے اپنے جمع کئے ہوئے کسی نے ایک آنہ کسی نے دو آنے،جس کے پاس جو پونجی جمع تھی وہ اُس نے دفاعی فنڈ میں دے ڈالی ۔ہر محلے سے فوجی بھائیوں کے لئے دفاعی فنڈ اکٹھا کیا گیا ۔ ہر گھرا نے اپنی بساط کے مطابق فوجیوں کے لئے لحافوں برتنوںغرض یہ کہ ضرویاتِ زندگی کا ہر ہر سامان ٹرک کے ٹرک بھر کربھیجے بعض لڑکیوں نے اپنے جہیز تک کا سامان اپنے ڈھول سپاہیوں کی نذر کر دیا تھا۔ 1965 کی 17 روزہ جنگ نے پہلی اور آخری بار ہمیں ایک متحدہ قوم ہونیکا احساس بخشا تھا۔ جس میں ہر فرد کا جذبہ دیدنی تھا۔
ہر پاکستانی اپنے آپ کو اس جنگ میں شریک سجھ رہا تھا ۔اس جنگ میں مشرقی پاکستان کے لوگ بھی کسی بھی معاملے میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ہمنے بحیثیت قوم اپنے سے دس گناہ بڑے دشمن کو ذلیل کر کے رکھ دیا تھا۔آج ایک مرتبہ پھر دشمن ہم سے پنجہ آزمائی چاہتا ہے۔جس نے گذشتہ دو مہینوں سے ہمارے نہتے شہریوں کونشانہ بنانا شروع کیا ہوا ہے ۔جس کا واضح مقصد یہ ہے کہ وہ ہمیں آگے بڑھتا دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔اس چھیڑ چھاڑ میں وہ اپنے مکروہ چہرے کو بھی چھپانا چاہتا ہے۔کیونکہ اس کے بد نماں چہرے کے بہت سے داغ بمعہ ثبوتوں کے دنیا کو دکھانے کےلئے ہم نے اکٹھا کر لئے ہیں ۔آج دنیا کے بڑے بڑے تھنک ٹینک جن کو ہماری قوت کا اندزہ ہے وہ ہندوستان کو پاکستان سے نہ بھڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ہندوستان کے جنگی نیتاﺅں کو جان لینا چاہئے کہ آج کا پاکستان 1971 کے پاکستان سے بہت مختلف ہے۔
Shabbir Khurshid
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbir23hurshid@gmail.com