تحریر: سید فیضان رضا امریکی شہرت یافتہ اخبار ”ٹائم” کے نمائندے لوئس کرار نے 23 ستمبر 1965 کے شمارے میں 65ء کی جنگ کا آنکھوں دیکھا احوال ان الفاظ میں بیان کیا: ”جو (پاکستانی) قوم موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا جانتی ہو اُسے کون شکست دے سکتا ہے” بھارت کے حکمرانوں نے پاکستان فتح کرنے کے لیے پہلا حملہ آزاد کشمیر پر کیا۔ 25 اگست کی رات بھارتی توپ خانے نے آزاد کشمیر کے علاقے بھارت گلی اور درہ حاجی پیر پر شدید گولہ باری شروع کردی۔ 26 اگست کو انڈین آرمی کے پورے بریگیڈ نے آزاد کشمیر کی چوکیوں پر حملہ کردیا۔ آزاد کشمیر کی صرف ایک کمپنی جس کی نفری ایک سو کے قریب تھی، مورچہ بندتھی ۔ جب انڈین آرمی پچاس گز کے فاصلے پر پہنچی تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ آزاد کشمیر کے مجاہدوں نے ان پر گولیوں اور گرینیڈوں کا مینہ برسا دیااور انڈین آرمی کو ناکام و نامرد لوٹا دیا ۔27 اگست کو بھارتیوں نے سکیم بدل کر حملہ کیا۔ انڈین آرمی کا پورا بریگیڈ جسے ڈویژن کے توپ خانے کی امدادی گولہ باری حاصل تھی نے چاروں طرف سے گھیرا لے کر گولہ باری شروع کردی۔
پاکستان آرمی کے 98 نوجوان رہ گئے تھے جو بے جگری سے لڑے لیکن تعداد ورسد میں کمی کی بنا پر بھارتی بریگیڈ کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے۔ درہ حاجی پیر اور بیڈوری کی چوکیوں پر بھی انڈین آرمی نے آٹھ دنوں کی بے تحاشہ گولہ باری کے بعد قبضہ کرلیا۔ یہ بھارتی سینا کی فتح تھی جس کا نشہ سر چڑھ کر بولا ۔اس فتح کا خمار تھا کہ بھارت نے سرحدی گائوں اعوان شریف گجرات پر گولہ باری کر کے معصوم دیہاتیوں کو اپنی جبلت کا نشانہ بنا ڈالا۔ یہ پاکستان پر باقاعدہ حملہ تھا۔اس کے علاوہ دشمن نے ٹولی پیر اور راولا کوٹ پر بھی چڑھائی کردی۔ معاملہ حد سے بڑھ گیا تھا، اب پاکستان آرمی میدان میں آگئی۔ دشمن کا راستہ روکنے کے لیے بلوچ اور پیجاب رجمنٹین بھیج دی گئیں جنہیں دیکھ کر انڈین آرمی کو مزید کمک اور مزید توپیں فراہم کردی گئیں۔
31 اگست کی رات پاک فوج کے بریگیڈئیر عظمت حیات اور بریگیڈئیر ظفر علی خان گجرات سے آگے نکل گئے تھے ان کے ساتھ آزاد کشمیر کے بریگیڈئیر عبدالمجید خان کا بریگیڈ تھا۔۔ امجد علی کی بریگیڈ نے رات کو ہی سرحد پر گولہ باری شروع کردی اور چھمب کے دفاعی نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ صبح کاذب کے وقت ہماری تینوں بریگیڈ برق رفتاری سے پیش قدمی کر رہے تھے۔یکم ستمبر کو چھمب کا سورج پاکستانی فوج کو کامیابی کی نوید سنا رہا تھا۔دن گیارہ بجے تک بھارتی سینا کا غرور پاکستانی غازیوں کے قدموں تلے روندا جا چکا تھا۔اب بھارت کے فرانسیسی ٹینکس پاکستان آرمی کا رستہ روکنے کی بھرپور کوشش کررہے تھے، مگر پاکستان آرمی نے رخ بدل کر دیو اپر حملہ کردیا اور پھر دیوا بھی پاکستانی فوج کی جھولی میں آگرا۔
Fighter Jets
بات بڑھ چکی تھی۔ پاکستانی افواج کی یلغار تباہ کن ثابت ہورہی تھی۔اسی موقع پر وائرلیس سیٹ پر ایک انڈین کمانڈر کی دہائیاں سنائی دینے لگیں۔وہ ہائی کمان کو چیخ چیخ کر پیغام دے رہا تھا، ”وہسکی بھیجو وہسکی بھیجو”۔ شام کے ساڑھے چار بج رہے تھے اور ”وہسکی” آگئی۔ یہ چار ویمپائر لڑاکا بمبار طیارے تھے جو اپنی بھاگتی ہوئی فوج کے قدم جمانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ بھارتی فوج کی حالتِ زار کا اندازہ کریں جو تین بریگیڈوں کے آگے ٹینک، توپیں، مارٹر اور مشین گنیں، پٹرول اور ہر طرح کے ایمونیشن کے بکس اور لاشوں کے ڈھیر پھینکتی چلی جا رہی تھی۔ آسمان پر انڈین ویمپائر طیاروں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی انہوں نے نہایت اطمینان سے پاکستانی دستوں پر آگ اگلنی شروع کردی۔
ہماری زمینی توپچیوں نے مقابلہ کیا مگر طیارے کا مقابلہ طیارہ ہی کر سکتا تھا۔ پاک فضائیہ کے دو شاہباز سکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی شہید اور فلائینٹ لیفٹینینٹ امتیاز بھٹی گجرات پر اُڑ رہے تھے۔ انہیں وائیرلیس پر پیغام ملا، ”دشمن ہمارے مورچوں پر فائرنگ کر رہا ہے مقابلہ کرو۔ اوور” دونوں پائلٹ پاکستان کا پہلا فضائی معرکہ لڑنے چھمب کی فضائوں میں پہنچ گئے۔ لیکن یہ فضائی جنگ بھی آسان نہیں تھی۔ بھارتی چار ویمپائر کو مزید طاقت فراہم کرنے کے لیے دو کینبرا طیارے بھی فضا میں اُڑ رہے تھے۔
پاکستانی شاہباز سیبر طیاروں پر تھے جو ویمپائر اور کینبرا کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ مگر ان دونوں شاہبازوں نے جان کی بازی لگادی۔ زمین پر پاک آرمی اور بھارتی سورما اس آسمانی معرکے کا نظارہ کر رہے تھے ، پھر یکایک آسمان میں مشین گنوں کے دھماکے سنائی دینے لگے اور ویمپائر طیارے باری باری بموں کی طرح پھٹ کر زمین بوس ہونے لگے۔ چاروں ویمپائروں کے پرخچے فضا میں بکھر کر زمین پر دور دور جا گرے۔ کینبرا طیارے اپنے چار ساتھیوں کا حشر دیکھ کر کھسک گئے۔”وہسکی” کی بوتل چکنا چور ہوگئی۔
Pak Fighter
بھارتی سینا نے اپنے بھاگنے میں تیزی کردی۔اس کے پیادہ اور بکتر بند دستوں کا مورال اور جذبہ اس حد تک ٹوٹ چکا تھا کہ پاکستانی توپ خانے کا کرنل بابر ‘اوپی’ ڈیوٹی کے لیے ہیلی کاپٹر اُڑا رہا تھا۔ اسے ایک جگہ پچپن بھارتی سپاہی پوزیشن میں نظر آئے۔ اس نے ہیلی کاپٹر اتار کر تن تنہاانہیں للکارا اور سارے سپاہیوں اور عہدیداروں نے نہایت برخوداری سے ہتھیار ڈال دیئے۔یہ نمبر ٥ سکھ لائٹ انفنٹری کے سورمے تھے۔ 3 ستمبر کے روز بھی پیش قدمی کی رفتار میں فرق نہیں آیا۔ بریگیڈیئر عظمت حیات اور بریگیڈیئر عبدالمجید نے دشمن پر دبائو برقرار رکھا۔انڈین ائیر فورس کے چھ نیٹ طیارے ایک بار پھر اپنی بھاگتی ہوئی فوج کی مدد دینے کے لیے پہنچ گئے۔ پاک فضائیہ نے ان کے مقابلے میں اپنے دو سٹار فائٹر (ایف۔١٠٤) اتار دیئے۔ چھ کے چھ نیٹ فارمیشن توڑ کر آسمان میں بکھر گئے۔ کوئی غوطہ لگا گیا کوئی اوپر چلا گیا اور جس کا جدھر منہ آیا بھاگ نکلا۔
مگر ایک کو اپنے اڈے کا رُخ تک یاد نہ رہا ، نہ یہ ہوش کہ ہندوستان کدھر ہے اور پاکستان کدھر۔ ہمارے شاہینوں نے اسے گھیرے میں لے لیا اور اسے ہانک کر پسرور لا اتارا۔ اس کا نمبر IE-1083 تھا اور اسے سکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ اڑا رہاتھا۔عین اسی وقت جب انڈین ائیر فورس منہ کی کھا رہی تھی آل انڈیا ریڈیو پیغام نشر کر رہا تھا کہ بھارتی فضائیہ نے چار سو بہتر (472) پاکستانی طیارے مار گرائے۔باوجود اس حقیقت کے کہ پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کی کل تعداد ایک سو پینتیس تھی۔ یہ معرکہ 65 ء کی ابتدا تھی۔۔!!