اسلام آباد (جیوڈیسک) قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا اسکینڈل سامنا آیا تو پوری دنیا ہل کے رہ گئی جبکہ ملک کی بدنامی ہوئی الگ، اقوام متحدہ نے رپورٹ طلب کی اور حکومت نے ایسا جواب دیا کہ پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا۔
ہم 68 سال میں اپنے بچوں کو جنسی زیادتی سے تحفظ دینے کا کوئی قانون نہیں بنا سکے، یہ جواب تھا وفاقی وزارت قانون و انصاف کا اقوام متحدہ کو۔اقوام متحدہ کو طفل تسلی یہ دی گئی کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنانے، انہیں فحاشی کے لیے استعمال کرنے پر تعزیرات پاکستان کی دفعات 292، 293 اور 294 کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔
ان دفعات کے تحت ملزمان کو 3 ماہ سے 6 ماہ تک قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے، جرمانہ کتنا ہو سکتا ہے ، اس کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ پنجاب میں رائج قانون کے تحت سیڈکشن پر 3 سال جب کہ خیبر پختونخوا میں 7 سال تک قید ہو سکتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ملک بھر میں بچوں کو جنسی زیادتی سے تحفظ کا قانون نہ ہونے یا سقم کے باعث قصور واقعہ کے ملزم بھی شاید سزا سے بچ جائیں، بعض قانون ساز اپنی غفلت پر معافی کے خواستگار بھی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا صرف معافی سے کام چلے گا ؟ کیا اپنے بچوں کو معاشرے کے درندہ صفت لوگوں سے محفوظ رکھنے کے لیے عملی اقدامات فوری کیے جائیں گے یا کسی اور سانحہ کا انتظار؟