تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ سیدنا محمد بن عبد اللہ محض حسنی معروف بہ نفس ِزکیہ مقتول باحجار زیت سیدنا عبد اللہ محض کے ایک صاحبزادے محمد ابن عبد اللہ ہیں جو کثرت زہد وعبادت کے باعث نفس ِزکیہ معروف ہوئے ۔آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب مبارک قریش تھا۔آپ علم ِفقہ ،عقل و دانائی، شجاعت و سخاوت اور کثرت ِفضائل کے باعث ممدوح ِعوام وخواص تھے۔ خلافت ِاسلامیہ پر بنی عباس کے قبضہ سے سیدنا محمد اور آپ کے بھائی سیدنا ابراہیم ،قتیل با خُمریٰ عوام کی نگاہوں سے پوشیدہ ہو گئے ۔منصور دوانیقی ملعون نے سیدنا عبد اللہ محض کو قید کر لیاتو اس زمانہ میں آپ پوشیدہ طور سے دو عرب بادیہ نشینوں کے ذریعہ رابطہ میں رہے۔منصور نے آپ کی تلاش میں ہر طرف جاسوس چھوڑ رکھے تھے ۔سیدنا محمد نفس ِزکیہ بیان فرماتے ہیں کہ،” جب میںشعب ِجبال میںپوشیدہ تھا،ایک روزکوہ رضوی میں مقیم تھا ۔میری زوجہ بھی ہمراہ تھیںاور ایک شیر خوار بچہ بھی ساتھ تھا۔مجھے پتا چلاکہ ایک جاسوس مدینہ سے میری تلاش میں آپہنچا ہے۔
میں وہاں سے نکلا اور دوسری جگہ جانے کی کوشش کی ۔بچہ کی ماں بھی سیدزادے کو گود میں لیے دوڑ رہی تھی ۔ناگاہ وہ بچہ ماں کی گود سے گرا اور پہاڑ سے نیچے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔”اس موقع پر آپ نے کچھ اشعار ادا فرمائے،جن کا آخری شعر یہ تھا؛ قَدْ کَانَ فِْ الْمَوْتِ لَہُ رَاحَةْ وَالْمَوْتُ حَتْمُُ فِْ الرّقْبِ ِالْعِبَادَةْ یہ موت اس بچے کے لیے راحت تھی۔موت ضروری طور پر خدا کے بندوں کی گردن میں پڑی ہے۔
فرمان امیر المومنین اور خروج امیر المومنین،خلیفہ ٔرسول کریم،مولائے کائنات،سیدنا علی ابن ابی طالب ،نے خطبہ اخبار غیبیہ میں فرمایا، وَاِنَّہُ بِقَتَل عِنْدَ اَحْجَارِ زیتْ ، اوروہ احجار زیت کے قریب شہید ہوں گے۔سیدنا محمد نفس زکیہ نے145ھ میں قیام فرمایا اور دو سو پچاس آدمیوں کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوئے۔تکبیر کی آوازیں بلند کیں اور قید خانے میں داخل ہو کر قیدیوں کو رہا کر دیا۔ریاح بن عثمان ، داروغۂ زنداں کو گرفتار کر کے قید کر دیا۔منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ پڑھا جس میں منصور کی خباثت اور اس کے مثالب و مطاعن بیان کیے ۔جلد ہی سیدنا محمد نفس زکیہ ،مکہ و مدینہ کا انتظام سنبھالنے میں کامیاب ہو گئے اور ساتھ ہی ساتھ یمن پہ بھی آپ کا فرمان جاری ہو گیا۔منصور عباسی نے اپنے بھتیجے عیسیٰ بن موسیٰ کو جنگ کی تیاری کے لیے حکم دیا۔
Mufazzalliyat
عیسیٰ دو ہزار سوار اور چار ہزار پیادہ فوج کے ساتھ سیدنا محمد کے مقابلے کے لیے نکلا۔مقام فید پر اس نے نفس زکیہ کے ساتھیوں کو خط لکھاجس سے وہ آپ کی نصرت سے دست بردار ہو گئے۔ ادھر سیدنا محمد نے مدینہ کے اردگرد خندق کھدوائی۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں عیسیٰ نے مدینہ طیبہ کا محاصرہ کر لیا۔ سیدنا محمد نفس زکیہ کے دست حق پرست پر ایک لاکھ افراد نے بیعت کی تھی جن میں سے صرف تین سو ساٹھ آپ کے ہمراہ رہ گئے۔
سیدنا محمد اور آپ کے جانثاروں نے غسل کیا اور14رمضان المبارک145ھ، لڑائی کاآغاز ہو گیا ۔عباسی لشکر کے ایک لعین حمید بن قحطبة نے سیدنا محمد نفس زکیہ کونیزے کے وار سے شہید کر دیااور آپ کا سر اقدس ،عیسیٰ کے پاس لے گیا۔ آپ کی ہمشیرہ معظمہ سیدہ زینب اور صاحبزادی سیدہ فاطمہ نے آپ کا جسد اقدس جَنَّةُ الْبَقِیْع میں دفن کیا ۔آپ کا سر اقدس ،منصور ملعون کے پاس لے جایا گیا جس نے شہر کوفہ میں نصب کرنے اور بعدازاں شہروں میں پھرانے کا حکم دیا۔دوماہ سترہ دن قیام کے بعد وسط ِ رمضان المبارک 145ھ 6دسمبر762ء میں45برس کی عمر میں شہید ہوئے ۔
آپ کے چھ صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں تھیں؛ ١۔سیدنا عبداللہ بن محمد ٢۔سیدنا علی بن محمد ٣۔سیدناطاہر بن محمد ٤۔سیدنا ابراہیم بن محمد ٥۔سیدنا حسن بن محمد ٦۔سیدنا یحٰبن محمد ١۔سیدتنافاطمہ بنت محمد ٢۔سیدتنا زینب بنت محمد ٣۔سیدتنا ام کلثوم بنت محمد ٤۔سیدتنا ام سلمہ بنت محمد ٥۔سیدتناام سلمہ ثانیہ بنت محمد سےّدنا ابراہیم بن عبداللہ محض حسنی نفس ِرضیہ قتیل ِ باخُمریٰ مولائے کائنات،باب ِ مَدِیْنَةُالْعِلْم ،سیدنا علی نے فرمایا،”ابراہیم !باخمریٰ میں تسلط کے بعد شہید کیے جائیں گے اور غلبہ حاصل کر کے مغلوب ہوں گے۔”پھر آپ نے فرمایا،”ایک تیر آئے گا جس سے ان کی موت ہو گی۔کاش تیرچلانے والے پر سختی ہو۔ اس کے دونوں ہاتھ شل ہو جائیںاور اس کا بازو کمزور ہو جائے۔”
Tawheed e Mufazzal
باخُمْریٰ اے قتیل ِ ارض ِ باخُمریٰ کنارے السلام سےّد و سردار اے آقا ہمارے السلام باخمریٰ، کربلائے معلّٰی،عراق سے کوفہ کی طرف چھ فرسخ تقریباََ اڑتالیس میل کے فاصلہ پر ہے جہاں عباسی خلیفہ،منصور دوانیقی کے لشکر اور امام اہلبیت سیدنا امام حسن مجتبیٰ کے پڑپوتے، سیدنا ابراہیم کے جانثاروںکے درمیان خونریز تصادم کے باعث 25 ذی قعد 145ھ 14 فروری 763ء بروز پیر،دوپہر کے وقت، 46 برس کی عمر میںسیدنا ابراہیم کی شہادت ہوئی۔آپ امام حسن مجتبیٰ کے پڑپوتے اور سیدنامحمد نفس زکیہ کے بھائی ہیں۔آپ کا نسب نامہ سیدنا ابراہیم بن سیدنا عبداللہ محض بن سیدناامامزادہ حسن مثنّٰی بن سیدنا امام حسن مجتبیٰ بن سیدنا امام علی بن ابی طالب علیہم الصلاةوالسلام ہے۔جب عباسی حکام کے ظلم و جور اوراسلام دشمنی کے خلاف سیدنامحمد بن عبداللہ نفس ِزکیہ نے قیام فرمایاتو اپنے صاحبزادوںاور بھائیوں کو مختلف شہروں اور علاقوں میں پھیلا دیا۔آپ کے صاحبزادے سیدنا علی ، مصر گئے اور وہاں شہید ہو گئے۔آپ کے دوسرے صاحبزادے سیدنا عبداللہ ، خراسان تشریف لے گئے اور شہید ہوئے۔ایک صاحبزادے سیدنا حسن کو یمن بھیجا جو قید ہوئے اور شہید ہو گئے۔آپ کے بھائی سیدنا موسیٰ ،جزیرة میں شہید ہوئے۔ایک اور بھائی سیدنایحییٰ نے رے اور طبرستان کا سفر کیا اور شہید ہوئے۔
خروج اس قیام کے دوران سیدنا ابراہیم نے بصرة کا سفر اختیار کیا۔فارس ،اہواز اور واسط کے بہت سے لوگوں نے آپ کے دست حق پرست پہ بیعت فرمائی۔اسی طرح بغداد کے لوگ آپ کے بیعت ہوئے ۔ سادات عظام میں سیدنا زید شہید کے صاحبزادے ،عیسیٰ بن زید اور ان کے جانثار آپ کے لشکر میں شامل ہوئے۔آپ کے لشکر کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی۔ابو جعفر منصور دوانیقی کو خبر ملی کہ سیدنا ابراہیم کے دست حق پرست پر لوگوں کی کثیر تعدا د بیعت کر چکی ہے اور وہ فارس و اہواز پر فرمانروا ہیں۔ان کا مقصد اپنے بھائی محمد نفس زکیہ کا انتقام ہے تو اس کی نیندحرام ہو گئی اور وہ خوف و ہراس میں مبتلا ہو گیا۔اس نے عزم کیا کہ جب تک ابراہیم کا سر میرے سامنے نہیں آئے گا میں عیش ولذت میں مصروف نہیں ہوں گا۔منصور کے پاس دو ہزار سے زیادہ لوگ نہیں تھے۔ اس کے لشکر شام،افریقہ اور خراسان میں پھیلے ہوئے تھے۔اس نے عیسیٰ بن موسیٰ اور سعید بن مسلم کوروانہ کیا۔ 25نومبر762ء مقام ِباخُمریٰ پہ لشکر صف آرا ہوئے۔لڑائی کا آغاز ہوا۔ابتدائی معرکہ میں لشکر ابراہیم ،عباسی سپاہ پر غالب آیا اور عباسیوں کو شکست ہوئی۔عباسی لشکر بری طرح پسپا ہوا کہ مقدمہ کوفہ میں داخل ہو گیا۔سپہ سالار ِلشکرعیسیٰ بن موسیٰ اپنے خاندان کے سو افراد کے ساتھ میدان جنگ میں ڈٹا رہااور لڑائی سے روگرداں نہ ہوا۔
شہادت ِسیدنا ابراہیم قریب تھا کہ لشکر ابراہیم ان پر بھی فتح حاصل کر لیتااور انہیں صحرائے عدم میں دھکیل دیتا۔عیسیٰ بن موسیٰ راہ فرار اختیار کر چکا تھا۔سیدنا ابراہیم کو میدان جنگ کی گرمی اور حرارت تکلیف پہنچا رہی تھی۔وہ اپنی قمیض کے بٹن کھول رہے تھے کہ گرمی کی شدت ختم ہو جائے۔ناگاہ ایک ملعون نے تیر چلایاجو آپ کی گردن مبارک پہ گہرائی میں لگا۔اس وقت آپ فرما رہے تھے ، کانَ اَمْر اللّٰہِ قَدْراَََ مَقْدُوْراََ، اللہ کا امر پہلے ہی مقدر ہو چکا ہے۔آپ نے پہلے ہی گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈال دیے۔سیدنا عیسیٰ بن زید ، آپ کے ہمرکاب ثبوت ِوفا دے رہے تھے۔آپ نے انہیں بانہوں میں لے کر سینے سے لگا لیا۔اسی تیر نے آپ کو شہید کر دیا اور آپ دنیائے فانی کوخیر باد کہہ گئے۔
Sayyedna Ibrahim Qateel e Bakhumra a.s
14فروری 763ء کو آپ کی شہادت نے جنگ کا رخ بدل دیا۔قتل و غارت گری کی آگ کے شعلے تیز ہوئے۔عیسیٰ کے جو ساتھی فرار ہو چکے تھے پلٹ آئے اور گھمسان کی لڑائی ہوئی۔منصور کے لشکر نے تقویت پکڑی۔سیدنا ابراہیم کے جانثار شہید ہو گئے۔جانباز ساتھی بشیر رحال بھی شہید ہو گئے۔عیسیٰ کے ساتھی ، سیدنا ابراہیم کا سر اقدس کاٹ کراس کے پاس لے گئے۔عیسیٰ نے آپ کاسر منصور کو روانہ کر دیا۔وہ سخت مضطرب اور پریشان تھا کہ سیدنا ابراہیم کی شہادت کی خبر اسے ملی اور پھر آپ کا سر اقدس اس کے سامنے رکھا گیا۔اس نے آپ کا سر اقدس کو فہ میں لٹکا دیااور پھر ربیع حاجب کو حکم دیا کہ آپ کے والد بزرگوار ،سیدنا عبداللہ محض کے پاس قید خانے میں لے جائے۔
سیدنا عبداللہ محض کا فرمان جب آپ کا سر اقدس ،سیدنا عبداللہ محض کے پاس پہنچا تو آپ نماز میں مصروف تھے اور پوری توجہ اللہ رب العزت کی طرف تھی۔لوگوں نے کہا،”اے عبداللہ !نمازجلد ختم کرو اور تعجیل اختیار کرو کہ تمہیں ایک امر درپیش ہے۔”جب سیدنا عبداللہ محض نے نماز ختم کی تو اپنے صاحبزادے کا سر مبارک اپنے سامنے دیکھا۔سر اقدس کو سینے سے لپٹا کر فرمایا،”رحِمَکَ اللہ ٰیا اَبااْلقاَسِم، اھْلاََ بِک َ وَ سَھْلاََ لَقَدْ وَفَیت، ِبعَھْدِاللہ ِوَ مِیَثاقِہ”،اے نور چشم!اباالقاسم خوش آمدید۔خدا!آپ پر رحمت نازل کرے ۔آپ نے اللہ کے عہدومیثاق کو پورا کیا۔ اَلَّذِینَ ےُوْفوُنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَ مِیثَاقِہْ۔ پھرربیع سے فرمایا،” منصور کو کہہ دیناکہ ہماری سختی اور شدت کے دن ختم ہو گئے۔تیری نعمت کا زمانہ بھی ایسا ہی ہے۔وہ ہمیشہ نہیں رہے گا۔ہم اور تم قیامت کے دن خدائے حکیم کے روبروپیش ہوں گے۔وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا۔”
مفضلیات اور اختیار الشعرائ سیدنا ابراہیم جہاں قوی ہیکل اور مردِ توانا تھے وہیں علوم و فنون میں بھی منفرد مقام رکھتے تھے۔بصرہ میں آپ کا قیام مفضل کے گھر پر تھا ۔آپ نے مفضل سے کتابیں طلب فرمائیں ۔مفضل نے آپ کو شعرائے عرب کے دیوان پیش کیے۔آپ نے ان میں سے سات قصائید منتخب فرمائے۔ آپ کے شہید ہو جانے کے بعد مفضل نے ان کو جمع کیا اور ”مفضلیات و اختیار الشعرائ”نام دیا۔یہ کتاب عربی ادب کے انمول ذخائر میںسے ہے۔مفضل ،آپ کی شہادت کے دن آپ کے ہمرکاب تھے اور آپ کی شجاعتوں کے داستان گو رہے۔آپ کے چند اشعار انہی سے منقول ہیں۔
سیدنا ابراہیم کے جانثار،اولاد ِاطہار سیدنا ابراہیم لوگوں سے عدالت اور خوبی سیرت سے پیش آتے تھے۔بہت سے علماوفضلا اور ناقلین ِآثار نے آپ کی بیعت کی اور عوام الناس کو ان کی نصرت کی ترغیب دی جن میںسیدنا عیسیٰ بن زید شہیدفرزند امام زین العابدین ،شبیر رحال،اسلام بن الواحل،مفضل بن محمد،مسعر بن لدام،عباد بن مسعود ،قاضیٔ بصرة،ہارون بن سعید فقیہ اور ان کے خواص وتابعین نمایاں ہیں۔اعمش بن مہران ،لوگوں کو سیدنا ابراہیم کی نصرت کی ترغیب و تحریص دیتے فرماتے تھے کہ اگر میں نابینا نہ ہوتاتو خود ان کی نصرت کو نکل پڑتا۔سیدناابراہیم بن عبداللہ محض کے دس صاحبزادے تھے ؛ ١۔سیدنامحمد بن ابراہیم ٢۔سیدنا اکبر بن ابراہیم ٣۔سیدنا طاہر بن ابراہیم ٤۔سیدنا علی بن ابراہیم ٥۔سیدنا جعفر بن ابراہیم ٦۔سیدنا محمد اصغر بن ابراہیم ٧۔سیدنا احمد اکبر بن ابراہیم ٨۔سیدنا احمداصغر بن ابراہیم ٩۔سیدناحسن بن ابراہیم ١٠۔سیدنا ابوعبداللہ بن ابراہیم
Dr Syed Ali Abbas Shah
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ ریکٹر والعصر اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ