تحریر: ابو الہاشم ربانی پاکستان کا ازلی دشمن انڈیا جس نے پہلے دن سے مملکت خداداد کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا دیا تھا ستمبر 1965ء میں نظریہ پاکستان پرکاری ضرب لگانے کی سازش تیار کی۔ وہ اس وقت اپنے جارحانہ رویے،توسیع پسندانہ عزائم، اکھنڈبھارت کی بدحواسی اور ایشیا کی قیادت کے نشہ میں مست تھا۔ نام نہاد ریڈکلف ایوارڈ کی ناانصافیوں وقلابازیوں کے ذریعے پاکستانی علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کر کے،پانیوں کی چوریاںاورپٹھان کوٹ سے جنت نظیر کشمیر کے راستے کی ڈکیتیاںکر چکا تھا۔حیدر آباد دکن،ریاست جونا گڑھ اور دیگر مسلم ریاستوں کو بھی ہڑپ کر چکاتھا۔ 1962ء میں چین سے ذلت آمیز شکست سے دوچار انڈیا نے رات کی تاریکی میں سرزمین پاکستان پر لاہور سمیت 6 اطراف سے آتش و آہن برسانا شروع کر دیئے۔ فضائیہ سمیت ہر طرح کی فوج کو جھونک دیا۔
اپنی مذکورہ بالا سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی طاقت اور گھمنڈ میں وہ یہ بھی بھول گیا کہ وہ مسلم قوم جس نے اس کی ”دھرتی ماتا” کو یک لخت کر کے برطانوی اور ہندو گٹھ جوڑ، ان کی ہر سازش اور دھاندلی کو ناکام کیا اور لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ کا پاکستان بنایا ۔ اس قوم میں قائدین تحریک پاکستان کی روح باقی ہے۔ اس میں وہی ولولے اور جذبے بھی موجود ہیں۔ جری اور دلاور افواج کے شانہ بشانہ نہ صرف دفاع پاکستان کر سکتے ہیں بلکہ بندر سانپ اور کتے کے پجاری مرلی بجانے والی ہندو قوم پر ضرب توحید لگا کر شکست وریخت سے دوچار کرسکتے ہیں۔ شاطر اور شریر بدحواس انڈین پالیسی ساز 6 ستمبر سے 22 ستمبر 1965ء کی 17 روزہ جنگ میں رسوائی اور جگ ہنسائی پر اس ”ذلت” کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال رہے تھے ۔ چونکہ پاکستان کے گلی کوچے اور ہر زبان پر یہ نعرہ جاری تھا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتے جائو ، آگے بڑھتے جائو۔ نغمے پڑھے جارہے تھے ” رکھ جگرا’ تے ہو جا ہن تگڑا’اینا نوں دیو رگڑا’ مک جائے کفر داجھگڑا’ اینا نوں دیو رگڑا”۔
قارئین محترم! ستمبر 1965ء میں مختلف محاذوں پر انڈین ”سورموں” پر کیا بیتی ؟آیئے چلیں پاکستان کے دل لاہور جہاں پر 5اور 6 ستمبر کی درمیانی شپ برکی ہڈیارہ، واہگہ اور بھسین سیکٹر پر بھارتی فوج پاکستانی فوج کے سجیلے جوانوں کے جذبہ شہادت اور دانت شکن عزائم کے مقابلے میں بے بس پڑی تھی۔ انڈین فوج گاجر مولی کی طرح کٹ رہی تھی۔ بھارتی میڈیا محاذ کے حالات سے بالکل بے خبر اندھا بہرہ ہوکر بڑی ڈھٹائی سے لاہور پر قبضے کی خبریں نشر کر رہا تھا۔ جس سے متاثر ہوکر بدحواسی میں بھارتی وزیردفاع یشونت رائو چوہان اور جنرل جویا نتو ناتھ چوہدری جم خانہ کلب لاہور میں فتح کا جشن منانا چاہتے تھے۔ زندہ دلان لاہور” مہمان نوازی” کی ریت کی وجہ سے ناشتہ کے لیے ”نئے نویلے جوتے” لیکربیٹھے رہے۔ فتح کا خواب دیکھنے والوں کے تینوں بریگیڈیرز تو پچھلے پہر تک ویسے ہی لاپتہ ہوچکے تھے۔ جن کی تلاش کے لیے آنے والے ڈویژن کمانڈر جنرل نرنجن پرشاد نے جب اگلے موچوں کا رُخ کیا تو پاک فوج کے جوابی وار سے ایسا بد حواس ہوا کہ اپنی کمان جیپ چھوڑ کر ہڈیارہ سے واپس ہولیا۔ یعنی”جھتوں دی کھوتی اوتھے جاکھلوتی”۔
1965 War
سیالکوٹ چونڈہ کے مقام پر بھارتی فوج وزیر آباد، گوجرانوالہ جی ٹی روڈ اور ریلو ے لائن پر قبضہ کر کے مغربی پاکستان کو دو حصوں میں کاٹ دینا چاہتی تھی۔ انڈین سورمے 8 ستمبر کو پٹھانکوٹ کے مقام پر فخر ہندآمرڈ ڈویژن کے 600 ٹینکوں سے حملہ آور ہوئے یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی کھیپ تھی۔ لاالہ الاللہ کے متوالوں اور محمد رسول اللہ ۖ کے جیالوں نے فولادی ٹینکوں کے مقابلے میں جو فدائی مشن کی تاریخ رقم کی وہ ہمیشہ سچے جذبوں کی فتح کا نشان بن کر چمکتی رہے گی۔ قوت ایمانی نے عسکری قوت پر غلبہ حاصل کیا اور دشمن کے 45ٹینک تباہ اور3ٹینک مال غنیمت کے طور پر حاصل کیے جبکہ اس محاذ پر دشمن کی فرسٹ آرمڈ ڈویژن کی ایک تہائی فوج ہلاک ہوگئی۔ بچے کھچے فوجی روتے پیٹتے ” ہالیو پالیو ،نالے میری بودی پٹی نالے مینوں ماریو” کی دوہائی دیتے واپس اماںجی کے پاس۔
پاک فوج کی ایک کمپنی نے 11 ستمبر کو کھیم کرن قصور پر قبضہ کرنے کے بعد بہت سارے علاقے پرپاکستانی سبز ہلالی پرچم لہرادیا۔ ان محاذوں پر بری طرح شکست سے دوچار ہوکر انڈیا نے لڑائی کو راجستھان تک پھیلا دیا۔ بھارتی فوج نے حیدر آباد سندھ پر قبضہ کرنے کی غرض سے پیش قدمی کی مگر تھرپاکر کے تپتے صحرائوں میں پاکستانی فوج کے ساتھ ”حر” مجاہدین نے دشمن کے ناپاک عزائم کو کچل کر رکھ دیا۔ 13ستمبر کو پاکستانی فوج اور حر مجاہدین نے راجستھان میں منا بائو ریلوے اسٹیشن پر قبضہ کرکے بھاگتی ہوئی بھارتی فوج کا کچومر نکال دیا اور ساتھ ہی اس محاذ کے سینکڑوں مربع میل کے علاقے پر قبضہ کرلیا۔
ستمبر 1965ء میں پاک فضائیہ نے اپنے سے پانچ گنا بڑی بھارتی فضائیہ کو عبرتناک اور تاریخ ساز شکست دی۔ 7ستمبر کو انڈین فضائیہ نے سرگودھا کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ اسلام کے عظیم سپوت، فخر پاکستان سکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں انڈیا کے پانچ لڑاکا طیارے ایک ہی ضرب تکبیر سے گرا کرفضائی جنگ کا ناقابل تسخیر عالمی ریکارڈ بنا دیا جو ابھی تک تابندہ حقیقت ہے۔ پاکستانی عقاب صفت ہوابازوں نے اس جنگ میں دشمن کے 110طیارے تباہ کیے جن میں 35 کو فضاء میں لڑائی کے دوران جبکہ 32 کو طیارہ شکن گنوں کے ذریعے تباہ کیا۔ 43 طیاروں کو پاکستانی شاہینوں نے اُڑنے کا موقع بھی نہ دیا اور ہوائی اڈوں پر کھڑے کھڑے ہی جلا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ بھارت نے پاک بحریہ کے دستے پرگولہ باری شروع کردی۔ کاٹھیاواڑ کے ساحل پر واقع دوارکا کی بندر گاہ سے انڈین بحریہ اپنے لڑاکا طیاروں کی رہنمائی کرتی تھی۔
Pakistan Navy
الحمد اللہ پاکستانی بحریہ نے 7 اور 8 ستمبر کی درمیانی شب دوارکا کی بندرگاہ پر حملہ کرکے اسے مکمل ناکارہ کردیا۔ 9 ستمبر کو انڈیا کے طیاروں نے پاکستانی بحریہ کے دستے پر گولہ باری شروع کردی۔ پاک بحریہ کی توپوں نے بھارت کے3طیاروں کو تباہ کرکے حملہ پسپا کردیا۔ 22ستمبر کو بھارتی بحریہ پر حملہ کرکے پاکستانی بحریہ نے بھارت کا ایک جنگی بحری جہاز ڈبو کر انڈیا کی بحری طاقت کو سمندر بوس کر دیا۔ انڈیا کے پاکستان کے بارے میں سارے اندازے اور تخمینے غلط ثابت ہوئے۔ وہ پاکستان کے دل لاہور پر قبضہ کرکے اپنی من مانی شرائط منوانا چاہتے تھے۔ مگر انڈیا کو ہر محاذ پر ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انڈیا مسئلہ کشمیر کو دبانا چاہتا تھا۔ فتح 1965ء نے کشمیریوں کی آواز کو اور بھی زیادہ بلند کردیا۔ قومی اتحاد ویکجہتی مستحکم ہوئی اور پاکستانی عوام میں اسلامی رجحانات میں اضافہ ہوا۔ اتحاد عالم اسلام کی طرف قدم مضبوط ہوئے انڈیا ذلت وسوائی میں غوطہ زن ہوا جس کے ہاتھ پائو پھولے اور اسے کوئی راستہ دیکھائی نہیں دیتاتھا۔
17ستمبر کو چین نے سکم کے مقبوضہ علاقے میں نئی بھارتی حلقہ بندیوں کو مسمار کرنے کا الٹی میٹم دیدیا۔ انڈیا کی کمر تو پاکستان نے پہلے ہی توڑ دی تھی الٹی میٹم نے غبارے سے ساری ہوا ہی نکال دی۔ 20ستمبر کو سلامتی کونسل نے ”دلالی” کرتے ہوئے ایک قرارداد کے ذریعے دونوں ملکوں کو جنگ سے روک دیا۔ پاکستان نے اس شرط پر جنگ بندی قبول کرلی کہ سلامتی کونسل3ماہ کے اندر اندر مسئلہ کشمیر کو حل کریگی۔
معزز قارئین! آپ لوگ اس بات سے پہلے ہی واقف ہیں کہ تحریک پاکستان ہویا تقسیم ہند کے وقت علاقہ جات کی تقسیم،پانی،فوج،کارخانے یا دیگر اثاثہ جات، فرنگی اور ہندو ایک پیج پر تھے۔کشمیر ہو یا 1965ء کی فتح انڈیا اور سلامتی کونسل ایک تھے۔مسلمانوں کے لیے ان نام نہاد عالمی اداروں کے پاس ”لارے لپے” اور ٹال مٹول کے سوا کچھ نہیں ہے۔مسلمانوں کتنے اور کب تک ان کے مکرو فریب کا شکار ہوگے؟۔آجائو عالم اسلام کے اتحاد کی طرف اپنے مسائل خود حل کرو۔ فلسطین رونا بند کردے گا،کشمیر آزاد ہوگا، حقوق محفوظ ہوجائیں ۔ یہ سارے کافر ایک دوسرے کے دوست خیر خواہ ایک دوسرے کا کام کرنے والے ہیں جبکہ تمہارا دوست صرف اللہ ہے اس کا رسولۖ ہے اور تمام مومنین ہیں اس پر استقامت اختیار کرو اللہ رسوا نہیں کریگاان شاء اللہ۔ جان من ذرا غور فرمائیے! آج پاکستان امریکی اور ”را” کی مشترکہ دہشت گردی کا میدان جنگ ہے۔ ہر ادارہ ، ہر طبقہ اور ہر شخص اس کی شدید زد میں ہے۔
Politics
ان کی ریشہ دوانیوں نے تمہارے قومی تشخص کو پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے بیٹے دشمن کے ہرکارے بن کر پاکستان کو لہو لہو کر رہے ہیں۔ تمہارے سیاستدان ”بھا بھا” کی بولیاں بول رہے ہیں۔ معذرت کے ساتھ لوٹ کھسوٹ اور کرپشن ”سیاست” بن چکی ہے ۔ رزیل سے رزیل مفادات کے لیے دشمن کے ہاتھوں کھیل کر ملکی سالمیت اور قومی وقار پر سودے بازی ”سیاسی کاروبار” بن چکا ہے۔ تم ہر سال انڈیا کی آبی دہشت گردی کا شکار بن رہے ہو۔ گلگت بلتستان ہو یا خیبر پی کے، سندھ بلوچستان ہو یا پنجاب، اربوں کی فصلیں تباہ، زمین اور املاک برباد ، مویشی ہلاک ۔ تمہارے کسان در بدر بندوں اور ٹیلوں پر اپنی عفت مآب بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے بے یار ومددگار بڑے رہتے ہیں۔ باقی قوم ان کے ریسکیو، ریلیف اور بحالی پر جوتی رہتی ہے۔ ڈیموں کا فائدہ قومی اثاثہ ہے تو پھر اس کی مخالفت کیوں؟ یہ وطن عزیز سے محبت ہے کہ دشمن کی چال؟۔ انڈیا کل بھی پاکستان کا بدترین دشمن تھا، آج بھی ہے۔
نہ اس کی سوچ بدلی اور نہ ہی اس کی پالیسی تبدیل ہوئی۔ دسمبر 1971ء میں پاکستان کا ایک بازو فوجی دہشت گردی سے توڑا جس کا آج انڈین وزیر اعظم نریندر مودی ” اقبالی مجرم” ہے ۔ پاکستان کے اندر جنگ کا مکمل ذمہ دار انڈیا ہے۔ ”مذاق رات” سے اپنے جرائم پر پرددہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ نام نہاد عالمی ادارے اور عالمی طاقتیں دانستہ طور پر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔ کشمیریوں کے حقوق کا قاتل اور تمہارے پانیوں کا ڈکیٹ بلاشک و شبہ انڈیا ہے۔ انڈیا کے اندر مسلمانوں کے حقوق کا غاصب اور قاتل ، مساجد اور اسلامی شعار کا دشمن۔ مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم کے نام پر اور بڑوں کو زبردستی ہندو بنانے والا مکار ہندو۔ تم بھول جاتے ہو وہ کل قائدین تحریک پاکستان سے لڑا ، آج تک پاکستان دشمنی اس کے رگ و ریشے میں رچی بسی ہے۔ ہندو کے بارے کبھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ۔ بقول شاعر ”سپاں دے پتر متر نہ ہوندے پاویں چلیاں دودھ پیائے”۔
عزیزان وطن! پچاس سال بیت گئے کہتے ہو سیاسی پارٹیوں کے الگ الگ منشور اور اختلافات ”جمہوریت کا حُسن” ہیں۔ مذہبی و دینی مسائل و احکام میں اختلاف ”علماء کا اخلاص” ہے۔ جبکہ ایک نظریہ ، ایک قوم، ایک منزل جہد مسلسل قوموں کا طرۂ امتیاز کی مکمل بصیرت بھی رکھتے ہو۔ ایمان- اتحاد- تنظیم قائد اعظم کے رہنما اصول کے وارث بھی ہو تو پھر کھڑے کہاں ہو؟۔ جب ہم جزوی طور پر متحد ہوئے تو بقول جہاد افغانستان کے ہیرو اور نظریہ پاکستان کے پاسبان جنرل حمید گل کہ! کل آپ نے امریکہ کے ساتھ مل کر سوویت یونین کو توڑا اور آج امریکہ کے ساتھ مل کر امریکہ کو شکست و ریخت سے ہمکنار کیا۔ پچاس سال پہلے سے زیادہ پر عزم، نہ صرف عالمی شاہکار ایٹم اور ایٹمی میزائل پروگرام بلکہ ایمان تقویٰ جہاد فی سبیل اللہ کا ماٹو رکھنے والی افواج ہر پاکستانی اور عالم اسلام کا فخرہے۔ امریکہ سمیت دنیا دیوالیہ ہونے جارہی ہے جبکہ آپ اکنامک کوری ڈور بنانے جارہے ہیں۔ آپ کی عسکری ٹیکنالوجی کی دنیا خریدار بن رہی ہے۔ دوسری جانب انڈین فوج کے ظلم و ستم میں جکڑی کشمیری قوم کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگا رہی ہے۔
14th August 1947
تو میری پاکستانی سیاستدانوں ، دینی مذہبی جماعتوں کے قائدین ، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب علم و دانش سے گذارش ہے کہ سب اختلافات اور باہمی تنازعات ختم کر کے کھلے دل ، بیدار مغز ، عقابی نظر ، باہمی محبت اوررواداری کے ساتھ یک جان ہو کر دشمن اور دشمن کی سازشوں کو نہ صرف بے نقاب کریں بلکہ نیست و نابود کریں۔ پھر سے نظریہ پاکستان لاالہ الاللہ محمدرسول پر متفق و متحد ہوجائیں۔ اگست 1947ء کو پاکستان اسی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھااور ستمبر 1965ء میں اسی کلمہ توحید کی بنیاد پر دفاع پاکستان ہوا جسے میں” فتح پاکستان”کہتا ہوں اور اُس وقت اللہ جل شانہ نے ہمیں عطا فرمائی تھی۔ سوویت یونین اور امریکی اتحاد اسی کی برکت سے نہ صرف شکست خوردہ ہوئے بلکہ رسوا اور کنگال ہوئے۔
میرے محترم ہم وطنوں! آج بھی نظریہ پاکستان پر استقامت کی اشد ضرورت ہے۔ جوان نسل کو اس کی تعلیم و تربیت دیں، نظریہ پاکستان کے احیاء کی تحریک برپا کریں۔ ہمارے تمام مسائل اور مشکلات کا حل اسی میں ہے۔ ہم عالم اسلام کو اسی کی بنیاد پر متحد اور اُمت مسلمہ کو منظم مربوط بھی کرسکتے ہیں۔ اسی میں غلبہ اسلام کا راز مضمر ہے۔ اول و آخر ہماری متاع یہی ہے غرض ہمارا جینا اور مرنا اسی سے ہی وابستہ ہے۔ جبھی تو محترم جناب پروفیسر حافظ محمد سعید امیر جماعة الدعوة پاکستان کا نعرہ حق ہے کہ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے۔
6 September
میں آخر میں پاکستانی قوم کو 6 ستمبر 1965ء کی فتح کی مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ قوم کے عظیم سپوت جو منصب شہادت پر سرفراز ہوئے ان کے درجات کی بلندی کی دعا کرتا ہوں اور ان کے ورثاء اور لواحقین کے خدمت میں سلام عقیدت پیش کرتا ہوں۔ جو غازی بنے ان کی استقامت اور ثابت قدمی کو تحسین پیش کرتا ہوں۔ حدیث مبارکہ کی روشنی میں ” صحابی رسول کریم ۖ سیدنا ابو ہریرہ کی خواہش تھی کہ اللہ کے رسول ۖ نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا ۔ اگر غزوہ ہند میری زندگی میں ہوا تو میں مدینہ منورہ سے ہجرت کر کے غزوہ ہند میں شریک ہوں گا۔ شہید ہوا تو افضل شہید ہوں گا اور اگر غازی بن کر لوٹا تو جہنم کی آگ سے آزاد ابو ہریرہ ہوں گا۔ (سنن نسائی شریف) پاکستان زندہ باد ، نظریہ پاکستان پائندہ باد