تحریر : ڈاکٹر سید علی عباس شاہ قُسْطَنْطَنِیَةْ؛ یونانی لفظ Constantinus Augustus، قُسْطَنْطِیْنِ آگَسْٹا سے مشتق ہے ۔قسطنطین ِاعظم !الاریائی تھریشئن خانوادے کے چشم وچراغ،قسطنطین ِآگسٹا ٢٧ فروری ٢٧٢ تا ٢٢مئی ٣٣٧ئ، یونان ِقدیم کے بادشاہ اور کیتھولک عیسائیت میںApostleکادرجہ رکھتے ہیں جو یونان پہ ٣٠٦تا٣٣٧ء فرمانروا رہے ۔آگسٹایعنی واجب التعظیم اورقُسْطَنْطِیْن بمعنی شہ زوروثابت قدم ، انگریزی کالفظ Constant،جہد ِ مسلسل،استقلال اسی سے مشتق ہے جو لاطینی سے فرانسیسی اور پھر انگریزی میں شامل ہوا۔٣٣٠ء میںبحیرہ باسفورس کے کنارے بازَنْطِیَمْ Byzantiumنامی یونانی آبادی کو Nova Roma روم ِنوقرار دیاجسے رومی ایوان ِبالا نے ١١مئی ٣٣٠ء میںKonstantinoupolis ، قُسْطَنْطَنِیَةْسے موسوم کیا جو ١١٢٣سال تک عیسائیت کا مرکز،بازنطینی سلطنت کا دارِحکومت اورقیصران ِ روم کا پایہ تخت رہا۔ ١٤٥٣ء میں نام تبدیل کر کے اسلامبول ، مَدِیْنَةُالْسْلاَم قراردیاگیاجو١٩٢٢ء ،٤٧٠سال تک سلطنت ِعثمانیہ کے جاہ وتمکنت کا مظہر رہا۔٢٨مارچ ١٩٣٠ء کواسلام بول ،استنبول (وسط ِشہر میں بدل دیا گیا۔حکیم الامت کے نزدیک؛ چاک کردی ترک ِناداں نے خلافت کی قبا،سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ ۔قسطنطنیہ کو Vasileousa Polis، مَلِیْکَةُ الْبِلاَدْ شہروں کی ملکہ کہا جاتا ہے ۔ علامہ محمد اقبال کہتے ہیں؛
خطہ ء قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار مہدیٔ امت کی سطوت کا نشان ِپائیدار صورت ِخاک ِحرم یہ سرزمیں بھی پاک ہے آستان ِمسند آرائے شہ ِلولاک ہے نکہت ِگل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا تربت ِایوب ِانصاری سے آتی ہے صدا اے مسلماں !ملت ِاسلام کا دل ہے یہ شہر سینکڑوںصدیوں کی کشت وخوں کا حاصل ہے یہ شہر ٤٩ھ میں ایک لشکر قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے بھیجا گیا اور ابو ایوب انصاری اس لشکر میں شامل ہو کر تشریف لائے۔اسّی سال سے زائد عمر مبارک اور انتہائی ضعیف العمری کے باوجود مدینہ منورہ سے شام اور ساحل ِشام سے عازم ِقسطنطنیہ ہوئے رومی فرمانروا قسطنطین ِچہارم کو اس لشکر کشی کا حال معلوم ہواتو اس نے بھی مدافعت کی تیاری کی اور چند ہی دنوں میں ہزارہا مسلح مسیحی جنگجو لیس ہو کر اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔حضرت ابو ایوب انصاری دیگر مجاہدین کے ہمراہ ایک بحری بیڑے زُہْرَةُ الْرّوْم میں بحر روم سے گزر کر آبنائے باسفورس میں داخل ہوئے اور قسطنطنیہ کے سامنے موزوں مقام پہ لنگر انداز ہو گئے۔
پھر کفرمقابل ہے آیا رومیوں نے مسلمانوں کو دم لینے کی بہت کم مہلت دی اور ان کا لشکر جرار قسطنطنیہ سے نکل کر مسلمانوں پہ حملہ آور ہوا۔مسلمان بھی لڑائی کے لیے پوری طرح تیارہو گئے تھے۔ انہوں نے نہایت استقلال و ہمت سے رومیوں کے حملے کو روکا ۔گھمسان کا رن پڑا۔مسلمانوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ وہ دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے ۔ایک مجاہد عبد العزیز بن زرارة تنہا رومی صفیں الٹتے دور تک چلے گئے ۔ مسلمان انہیں دیکھ کر پکارنے لگے کہ آپ فرمان ِایزدی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیْکُمْ ِلَی الْتَّھْلُکَةِ أَلْبَقَرَةْ:١٩٥، خود کواپنے ہاتھوںہلاکت میں نہ ڈالو۔ اس موقع پر حضرت ابو ایوب انصاری آگے بڑھے اور اسلامی لشکر سے مخاطب ہوئے ؛”مسلمانو!تم نے اس آیت کا یہ مطلب سمجھا ہے ؟حالانکہ اس کے حقیقی معنی اس کے برعکس ہیں زمانہ امن میں انصار نے ارادہ کیا تھا کہ جہاد میں مصروف رہنے کی وجہ سے ان کے کاروبار اور تجارت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی کریں۔اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی کہ جہاد میں نقصان اور ہلاکت نہیںبلکہ جہاد سے کنارہ کشی کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ”
Naqsh e Paa
سنن ابی دائود میں اسلم ابو عمرانسے جو اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں یہ روایت مروی ہے؛”اسلم ابو عمران کہتے ہیں کہ ہم جہاد کے لیے مدینہ منورہ سے قسطنطنیہ روانہ ہوئے ۔عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید ہمارے سالار تھے۔رومیوں کی پشت فصیل ِقسطنطنیہ سے متصل تھی ۔ہمارے ایک آدمی نے تنہا دشمن پرحملہ کیا ۔لوگوں نے اسے روکااور کہا یہ شخص اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالتا ہے ۔حضرت ابو ایوب نے فرمایا کہ آیت وَلاَ تُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ لَی الْتَّھْلُکَةِ ط ہم گروہ ِانصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کونصرت عطا فرمائی اور اسلام کو غلبہ عطا کیا تو ہمارے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اب ہم اپنے مال کی حفاظت میں رہیں۔حق تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ خدا کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو،تو ہلاکت میں ہاتھ ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ مال کی حفاظت کریں اور جہاد چھوڑ دیں۔ حضرت ابو ایوب ہمیشہ راہ حق میں جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے وفات پائی اور قسطنطنیہ میں دفن ہوئے۔’ ‘
مجاہدین ِاسلام نے بہت جلد رومیوں کے دانت کھٹے کر دیے۔وہ پسپا ہو کر شہر میں جا گھسے اور فصیل ِشہر کے دروازے بند کر لیے ۔ مسلمانوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا اور اس کی تسخیر کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں رہنے لگے۔٦٧٤تا٦٧٨ء طویل محاصرہ کے باوجود فتح کے آثار نظر نہ آئے تو محاصرہ اٹھا لیا گیا۔نَلْقِْالْأحِبَّةْ مُحَمَّداً وَصَحْبِہ ضعیفی اور شدت ِحالات کے باعث ابو ایوب انصاری کی صحت متغیرہوئی اور آپ خود کو ابدی سفر کے لیے آمادہ کیے وصیت فرمانے لگے؛”جب میں مر جائوں تو مسلمانوں کو میرا سلام پہنچا دینا اور انہیں بتلا دینا کہ جوشخص اس حالت میں انتقال کر جائے کہ رب ِواحدکے سوا کسی کو شریک نہ جانتا تھا ،اللہ تعالیٰ اسے جنت نصیب فرمائے گا اور میرا جنازہ دشمن کی سرزمین میں جہاں تک تم لے جا سکو ،لے جا کر دفن کر نا۔”
٥١ھ ،٦٧٢ء میںمرسل ِاعظمۖ کے جلیل القدر صحابی ، حق کے سرفروش مجاہددنیائے فانی سے بارگاہ ِرسالت ۖمیں حاضر ہوئے۔ لشکر اسلام پر آپ کی وفات سے رنج والم اورپژمردگی چھا گئی ۔مجاہدین ِحق ہتھیار سجائے آپ کے جسد اطہر کو قسطنطنیہ کی دیوار کے عین نیچے لے گئے جہاںاسلام کے بطل ِجلیل کو مکمل فوجی اعزاز اور احترام و اکرام کے ساتھ سپرد ِلحد کر دیا گیا۔حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر اطہر مرکزفیوض ِربانی ومنبع ِانوار صمدانی ہے۔ اہل ِروم قحط کے زمانہ میں آپ کے مزار پہ حاضر ہو کر آپ کے توسل سے بارش کی دعاکرتے تھے ۔اللہ تعالیٰ میزبان ِرسول کے نام کی لاج رکھ لیتا اور ان کی مرادیں پوری کر دیتا تھا۔
Abu Ayyub Ansari
یانبی آپ کا نقش ِپا چاہئے سرکار ِدوعالم ۖ کے پائے اقدس کے نیچے پتھر موم ہو جایا کرتے تھے اور ان پر آپ کے نقش ِپا ثبت ہو جاتے۔ایسا ہی سنگ پارہ ،حضرت ابو ایوب انصاری نے بھی اپنے سینے سے لگائے رکھا اور اس پر بوسے دے دے کر نقش ِپائے مصطفٰی چومتے رہتے؛ گرمیسر نشود بوسہ زنی پایت را، ہر کجا پائی نہی بوسہ زنم جایت را۔ یہ سنگ پارہ وصیت کے مطابق آپ کے کفن میں آپ کے سینے پر رکھ دیا گیا اور فتح ِقسطنطنیہ کے بعد نکال کر روضہء اقدس کی زینت بنا اور دوسری حصہ ٹوپ کاپی میوزیم میں منبع انوارات ہے؛ دل عقید ت کے سجدوں کو بے تاب ہے یا نبی آپ کا نقش ِپا چاہئے فتح ِقسطنطنیہ الم ةغُلِبَتِ الْرُّوْمُ ةفِ أَدْنَی الْأرْضِ وَھُم مِّنْم بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ ة فِْ بِضْعِ سِنِیْنَقلے لِلّٰہِ الْأمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْم بَعْدُج وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤمِنُوْنَ ة بِنَصْرِاللّٰہِج یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآئُصلے وَھُوَالْعَزِیْزُ الْرَّحِیْمُ ة سُوْرَةْ الْرّوْم ١تا٥
قسطنطنیہ کی فتح اسلام کی تاریخ کا عظیم واقعہ ہے۔٨٠٣ھ میں انگورہ کے میدان پر تیمور لنگ کے ہاتھوں سلطان بایزید یلدرم کی شکست سے دنیا نے سمجھ لیا کہ ترک ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے لیکن اسی سلطان یلدرم ( کوندتی بجلی)کے پڑپوتے سلطان محمد ثانی نے ٨٥٧ھ مطابق١٤٥٣ء میں رومیوں کے عظیم الشان تاریخی پایہ تخت قسطنطنیہ سے صلیب اتار کر اسلام کا پرچم لہرا دیا اور تاریخ ِعالم میںفاتح کا منفردخطاب حاصل کیا جو صرف آپ سے مخصوص ہے۔فتح ِقسطنطنیہ کا خیال قرن ِاول ہی سے مسلمانوں کے دل میں جاگزین تھا ۔ اگرچہ ان کی فتوحات نے ایک دنیا کو گھیرے میں لے لیا تھا لیکن کاتب ِتقدیر نے اس عظیم سعادت کوسلطان محمد فاتح کی ضرب ِشمشیر اور عزم راسخ کے لیے قلمبند کر رکھا تھا۔یہ یکتائے زمانہ مجاہد، خاندان ِعثمانیہ کے ساتویں تاجدار تھے۔اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات کے بعد ٨٥٥ھ میں اکیس سال کی عمر میں تخت نشیںہوئے۔تخت نشین ہونے کے بعد سب سے پہلے ایشیائی امرا کی سرکشی کا خاتمہ کیا اور طربزون اور قرة مان کی ریاستوں کو سلطنت ِعثمانیہ کے حلقہ اطاعت میں داخل کر لیا۔
اس کے بعد آپ کی تمام تر توجہ فتح ِقسطنطنیہ پر مبذول ہو گئی۔سلطان نے پہلے باسفورس کے یورپی ساحل پر ایک عالیشان قلعہ اناطولیہ تعمیر کرایا جو سلطان محمد اول کے ایشیائی ساحل پر قائم کردہ رومیلی حصار کے مقابل بنایا گیا۔یہ دونوں قلعے باسفورس کے پر شکوہ کنارے پر آج بھی موجود ہیں۔ قلعہ کی تعمیر کے بعد سلطان محمد نے قسطنطنیہ کے حصار کے لیے زور و شور سے سامان ِجنگ تیار کرانا شروع کیاہنگری کے ایک کاریگر سے متعدد دیوپیکر توپیں بنوائیں جن کے کھینچنے کے لیے ساٹھ ساٹھ بیلوں کی جوڑیاں لگتی تھیں۔ان میں سے ہر توپ بارہ من وزن کا سنگی گولہ ایک میل تک پھینک سکتی تھی۔سلطان کے حکم سے یہ توپ قلعہ کے برج پر لگائی گئی اور آتش فشانی کے بیشمار آلات بھی جمع کر لیے گئے۔سلطان نے قلعہ میں چار سو سپاہی صرف اس غرض سے متعین کر دیے کہ جو جہاز ادھر سے گزرے اس سے محصول وصول کریں۔اس طرح قسطنطنیہ کے محاصرے کا آغاز کر دیا گیا۔دوسرے سال سلطان ادرنہ سے خود نوے ہزار کا لشکر جرار لے کر روانہ ہوئے۔سمندر کی طرف سے قسطنطنیہ کا محاصرہ کرنے کے لیے سلطان نے امیر البحر بالطہ اوغلی سلیمان بک کی قیادت میں جنگی جہاز روانہ کیے۔
Conquest of Constantinopal
قیصر روم نے بھی مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے زبر دست تیاریاں کیںاور اسلامی بیڑے کا راستہ روکنے کے لیے غلطہ سے استنبول تک سمندر میں بڑی مضبوط زنجیریں باندھ دیںاور اپنے جنگی جہاز انکی حفاظت کے لیے مقرر کر دیے ۔قیصر کی امداد کے لیے جنیوا کا جنگی بیڑابھی آن پہنچااور مسلمانوں کے لیے سمندر کی طرف سے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کی کوئی صورت نہ رہی۔اسلامی لشکر نے قسطنطنیہ سے چند میل کے فاصلے پر پڑائو ڈالا اور رات دن شہر کی تسخیر کے منصوبے بنانے میں مصروف ہو گیا ۔محیر العقول کارنامہ اس موقع پر سلطان نے ایک محیر العقول کا م کیاکہ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی۔سلطان کے حکم سے ترکوں نے باسفورس اور گولڈن ہارن کے درمیان سنگلاخ زمین پر چھ میل تک صنوبر کی لکڑی کے موٹے تختے بچھا دیے اور ان پر روغن و چربی مل کرایسا چکنا کیا کہ جو چیز ان تختوں پر رکھی جاتی پھسلتی تھی۔مجاہدین ِاسلام نے شب بھر میں ٨٠سریع الحرکت بیڑے اور کشتیاں اس راستہ پر چلا کر گولڈن ہارن میں قسطنطنیہ کی فصیل کے نیچے سمندر میں اتار دیے ۔اثنائے راہ میں جہاں کہیں انہیں بلندی پر چڑھانا ہوتا وہاں رولروں اور گراریوں سے کام لیا جاتا۔سلطان کی بری فوج نے بھی مناسب فاصلہ پر توپیں اور دوسرے آتش فشاں آلات نصب کردیے۔
ضرب ِحق عام حملہ کے لیے ١٠جمادی الآخر٨٥٧ء کا دن مقرر ہوا۔نو اور دس جمادی الآخر کی درمیانی شب لشکر گاہ میں چراغاں رہااور مجاہدین ِاسلام، سلطان سمیت نہایت خشوع و خضوع سے دعا و عبادت میں مصروف رہے ۔صبح ہوتے ہی اسلامی فوج نہایت جوش و خروش سے شہر کی طرف بڑھی ۔سلطان نے قرآن ِکریم کی چند آیات تلاوت کیں جن میں جہاد کی فضیلت کا بیان تھا۔یہ آیات سن کر ہر مجاہد کے دل میں شوق ِشہادت کے شعلے بھڑکےاسلامی فوج کے پیچھے علما و مشائخ کا گروہ تھا جو مسلمانوں کی فتح و نصرت کی دعائیں مانگتے تھے۔ رومیوں نے نہایت پامردی اور اور جرأت سے مسلمانوں کا مقابلہ کیا لیکن ضرب ِحق کے سامنے ان کے قدم زیاد ہ دیر تک نہ ٹک سکے۔ادھر سلطانی توپوں کے گولوں سے فصیل شہر میں جگہ جگہ شگاف پڑ گئے اور مسلمان فوج نعرئہ تکبیر لگاتی شہر کے اندر داخل ہو گئی۔قیصر قسطنطین لڑتا ہو ا مارا گیا اور رومیوں نے ہتھیار پھینک کر اپنی شکست تسلیم کر لی۔ترپن دن کے پر صعوبت محاصرے کے بعد شہر فتح ہو گیا۔سلطان سجدئہ شکر میں گھوڑے کی زین پہ سر رکھے شہر میں داخل ہوئے اور اس عظیم الشان شہر پر پرچم ِاسلام لہرا دیا۔
سلطان نے رومیوں سے نہایت نرم سلوک کیا ۔انہیں ان کے دینی معاملات میں مکمل آزادی بخشی اور ایا صوفیہ کے کلیسا کے سوا تمام گرجے عیسائیوںکے پاس رہنے دیےایا صوفیہ کو خدائے واحد کی پرستش کا مقام بنا دیا جسے جدید جمہوریہ میں مصطفٰی کمال اتا ترک نے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔قسطنطنیہ کی فتح نے دنیائے عیسائیت میں تہلکہ مچادیا اور تمام یورپ کو ششدر کر دیا ۔عالم اسلام میں جشن منایا گیا اور ہر طر ف سے ملوک و سلاطین اور علما و شعرا نے سلطان محمد فاتح کو مبارکباد کے پیغامات بھیجے۔اس فتح سے قبل مسلمان قسطنطنیہ پر آٹھ بارحملہ آور ہو چکے تھے۔پہلا حملہ ٤٩ھ میں ہوا جس میں حضرت ابو ایوب انصاری بھی شریک تھے دوسرا حملہ٩٨ھ میںسلیمان بن عبدالملک کے دور میں،تیسرا١٢١ھ ابن ہشام کے دور میں ، چوتھا١٦٥ھ مہدی عباسی کے دور میں،پانچواں ملک شاہ سلجوقی کے عہد میں، چھٹااور ساتواں شاہ یلدرم کے عہد میں ،آٹھواں٨٢٥ھ مراد ثانی کے عہد میںاور نواں اور آخری حملہ سلطان محمد فاتح کا تھا جس میں شہر فتح ہو گیا اور قسطنطنیہ ترک بادشاہوں کا پایہ تخت قرار پایا۔
Constantine the Great
تربت ِایّوب انصاری سے آتی ہے صدا فتح کی پہلی رات سلطان محل میں آرام فرما ہوئے تو خواب میں ایک نورانی ہستی نے آکر فتح کی مبارکباد دی اور اپنی تکلیف کا ذکر کیا۔دوسری رات پھر زیارت ہوئی اور تیسری رات شدت کے ساتھ حکم دیا کہ میں صحابی ٔ رسول ابو ایوب ہوں اور میں تکلیف میں ہوں۔آپ کے مزار پر انوار پرپہلا روضہ ٔ مبارک قیصر روم نے تعمیر کرایا تھا۔امتداد ِزمانہ کے باعث معلوم نہ تھا کہ آپ کاجسد مبارک کہاں مدفون ہے۔اس حکم کے بعد سلطان نے اپنے شیخ ِطریقت آقاشمس الدین محمد بن حمزةکو خواب سنا کر درخواست کی کہ تربت ِ میزبان ِرسول کی تلاش میں میری مدد فرمائیں۔شیخ نے فرمایا ،” میں نے فصیل کے باہر ایک جگہ نور دیکھا ہے جو زمین سے آسمان تک جارہا ہے یقینا یہی حضرت ابو ایوب انصاری کی لحد ہے۔” یہ فرما کر آپ مذکورہ مقام پر تشریف لے گئے اور وہاں کافی دیر بیٹھ کر مراقبہ کیا اور پھر سر اٹھا کر فرمایا؛ ”اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت ابو ایوب انصاری کی روح ِاقدس سے ملنے کی سعادت نصیب کی۔ انہوں نے مسلمانوں کو اس عظیم فتح پر مبارکباد دی ہے اور فرمایا ہے کہ حق تعالیٰ نے تمہاری سعی مشکور کی کہ تم نے میری قبر کے قریب سے کفر و شرک کی تمام نجاستیں دور کیں۔”شیخ نے پھر مراقبہ کیااور تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا،”اس مقام کو کھودو۔یقین ہے کہ اسی جگہ حضرت ابو ایوب انصاری جلوہ فرما ہیں۔”
جسد ِجاوداں سلطان کے حکم سے اسی وقت جگہ کو کھودا گیا ۔سطح ِزمین سے چند فٹ نیچے سنگ مرمر کا ایک کتبہ نکلا جس پر عبرانی زبان میں کچھ الفاظ کندہ تھے۔عبرانی زبان جاننے والوں نے یہ الفاظ پڑھے تو معلوم ہوا کہ یہی حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر ہے۔یہ پتھر قبر سے باہر دیوار میں اب بھی لگا ہوا ہے۔نوجوان سلطان جو ابھی سن ِدنیا کی فقط تئیس بہاریں دیکھ پائے تھے اپنے آقا و مولا امام الانبیا کے اس عظیم المرتبت جامع ِفضائل صحابی کودیکھ کر فرط ِمسرت سے بے خود ہو گئے اور بے اختیار سجدئہ شکر میں گر پڑے۔ صحابی ٔ رسول کی قبر اطہر میں بحیرئہ باسفورس کا پانی آگیا تھا جو آپ کے معطر جسد ِاقدس کا طواف کر رہا تھا۔سلطان نے ایک کنواں کھدوا کر وہ پانی اس میں محفوظ کیا اور حضرت ابو ایوب انصاری کو اسی مقام پر نہایت تزک و احتشام سے دوبارہ سپردِ لحد کیا۔سلطان نے اس مقام پر ایک عظیم الشان گنبد تعمیر کرایااور اس کے قریب ایک جامع مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا ۔جب یہ مسجد تعمیر ہو گئی تو سلطان تمام عمائدین ِسلطنت کے ساتھ اس مسجد میں گیا اور نماز ادا کی۔نماز کے بعد شیخ شمس الدین نے سلطان کے ہاتھ میں تلوار دے کر انہیں دعائے خیر و برکت دی۔اس کے بعد صدیوں تک یہ رسم رہی کہ ترکی کا جو سلطان تخت نشین ہوتا وہ پہلے جامع ابو ایوب میں حاضر ہوتا اور شیخ شمس الدین کی عطا کردہ تلوار اپنی کمر پہ باندھتا۔اس کے بعد باضابطہ اس کی تخت نشینی کا اعلان کیا جاتا۔یہ ترک بادشاہوں کی رسم تاجپوشی تھی۔
شیخ آقا شمس الدین شیخ آقاشمس الدین ،سلاطین ِعثمانیہ کے پیر طریقت اور سلطان محمد فاتح کے عہد کے سر آمد روزگار اولیا میں سے ہیں اور شمسیہ بیرامیہ سلسلہ طریقت کے بانی ہیں۔آپ کا اسم گرامی محمد بن حمزة تھا۔١٣٩٠ئ،٧٩٢ھ، دمشق میں پیدا ہوئے اور والد کے ہمراہ کمسنی ہی میں بلاد روم آئے۔اوائل ِحیات ہی میں کلام مجیدحفظ فرما لیا۔علوم متداولہ کی تکمیل کی اور معلم ہو گئے ۔آپ نے صرف،نحو، منطق، معانی، علم بلاغت، اصول فقہ،عقائد اور حکم کے ساتھ طب ،حساب اورحیاتیات کی بھی تعلیم حاصل کی ۔آپ عالم،استاد،حکیم اور ولی اللہ تھے۔آپ اپنے زمانہ میں استاد ِعلما تھے ۔فطرتا ً مائل بہ تصوف تھے۔
Fath e Qatantunia
اس زمانہ میں بلاد ِروم (ترکی )میں ایک خدا رسیدہ درویش حاجی بیرام متوفی١٤٣٠ ء ،٨٣٣ھ کے فضل وکمال کی بڑی شہرت تھی جوغوث ِزماںابو حامد حمید الدین آقاسرائی المعروف سومنچو بابا برسی (برسہ ترکی کاچوتھابڑا شہر، اناطولیہ کے مضافات میں واقع ہے اورترکی کے صوبے برسہ کامرکزہے۔عثمانی دور میں اسے خداوندگار ”عطیہ ء کردگار”کہا جاتا تھا جو سقوط کے بعد برسہ خضراکہلایا۔)متوفی ٨١٠ھ مطابق١٤١٢ء کے خلیفہ طریقت تھے۔ آقا شمس الدین کا دل کبھی ان کی جانب مائل نہ ہوتا تھا۔چنانچہ آپ باطنی فیوض کے لیے ایک دوسرے بزرگ شیخ زین الدین حافی کی خدمت میں پہنچے۔وہاں ایک رات خواب میں دیکھا کہ ان کے گلے میں زنجیر پڑی ہے جس کا دوسرا سرا حاجی بیرام کے ہاتھ میںہے اور وہ آپ کو رشد و ہدایت فرما رہے ہیں۔خواب سے بیدار ہو کر سیدھے حاجی صاحب کی خدمت میں انقرہ پہنچے ۔وہ اس وقت اپنے مریدوں کے ساتھ کھیتی کاٹ رہے تھے۔آقا بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔
اس سے فارغ ہوئے تو کھانا آیا ۔اس کا ایک حصہ کتوںکے آگے رکھ دیا گیا اور باقی حاجی صاحب اور ان کے ساتھی کھانے لگے۔انہوں نے آقاکی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور نہ ہی کھانے کی دعوت دی۔ آقا اٹھے اور کتوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے لگے۔حاجی بیرام نے یہ دیکھ کر فرمایا؛” نوجوان! ادھر آئو اور میرے ساتھ بیٹھو۔تم نے تومیرے دل کو موہ لیا ہے۔”اس طرح آپ حاجی بیرام کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے اور تھوڑے ہی عرصے میں ان کی توجہ سے درجہ کمال کو پہنچ گئے۔آپ کے مرشد نے ہی آپ کو شمس الدین کا لقب عطا کیا۔آپ نہ صرف علوم شریعت و طریقت کے متبحر عالم تھے بلکہ ایک حاذق طبیب بھی تھے۔وزرا و امرا کی طبابت کرتے اور آپ کے تحریر کردہ نسخے سے مریض شفایاب ہو جاتے۔
سلطان فاتح کے والد،سلطان مراد ثانی حاجی بیرام ولی کے مرید تھے۔انہی کی ہدایت پر انہوں نے اپنے صاحبزادے محمد ثانی کو حاجی بیرام ولی کے خلیفہ اور زیب سجادہ شیخ شمس الدین کے دست ِاقدس پر بیعت کرایا۔سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو آپ سے دعا کی درخواست کی ۔آپ نے انتہائی خشوع و خضوع سے دعا فرمائی۔ اس کے بعد جب سلطان قسطنطنیہ کی تسخیر کے لیے روانہ ہوا تو اس نے آقا شمس الدین کو بھی اپنے ہمراہ لے لیا۔سلطان کوئی بھی اقدام آپ کی ہدایت کے بغیر نہ اٹھاتا تھا۔آپ کی ہدایات اور روحانی طاقت سلطان کے شامل حال رہی۔آپ نے سلطان کو بتایا کہ حضرت ابو ایوب انصاری خود آپ کی افواج کی امداد فرما رہے ہیں اور ان کی روحانی طاقت آپ کے شامل ِحال ہے۔انہو ں نے سلطان کو شہر قسطنطنیہ کی فتح کا دن اور وقت بھی بتا دیا۔
Sheykh Shamsuddin appointing Sultan
شہر کے محاصرے کو کافی وقت گزر گیا اور فتح نہ ہوئی تو سلطان کا وزیر خوفزدہ و پریشان ہو گیا ۔اضطراب کی حالت میں آپ کے خیمہ کی طرف گیا۔لوگوں نے اسے روکا کہ شیخ نے تاکید فرمائی ہے کہ کسی کو ان کے خیمہ کے اندر نہ آنے دیںلیکن وزیر سراسمیگی کے عالم میںان کے خیمہ کے اندر جا گھسا۔کیا دیکھتا ہے کہ شیخ سجدہ میں ہیںاور سربرہنہ نہایت خشوع و خضوع سے دعا کر رہے ہیں۔چند لمحوں بعد آپ یکایک اٹھ کھڑے ہوئے ۔زوردار تکبیر کہہ کر فرمایا؛ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِْ فَتَحْنَا ھٰذِہِ الْمَدِیْنَةْ، حمد ہے اس اللہ کی جس نے ہمیں اس شہر کی فتح مرحمت فرمائی۔وزیر نے شیخ کی زبان سے یہ جملہ سنتے ہی شہر کی طرف پلٹ کر دیکھاتو اسلامی فوج شہر میں داخل ہو رہی تھی۔
تاریخ ِاسلام کے عظیم فاتح، سلطان محمد فاتح کہا کرتے تھے،”ہر کوئی مجھے دیکھ کر کانپ جاتا ہے مگر میں جب شیخ شمس الدین کو دیکھتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں۔”فتح کے بعد سلطان نے آپ کی خدمت میں دو ہزار اشرفی پیش کی لیکن آپ نے قبول نہ کی۔آپ سلطان سے رخصت لے کر انقرة سے ١٥٠میل شمال مغرب میں واقع اناطولیہ ،گوئنوک تشریف لے گئے اور باقی تمام عمر وعظ و ہدایت اور درس و تدریس میں گزاردی۔آپ نے اپنے علمی و روحانی خزائن سپرد قرطاس فرماتے کئی کتب تصنیف فرمائیںجن میںرسالہ نوریة،رسالہ ذکراللہ ، رسالہ شرح ِاحوال حاجی بیرام ولی ،مقامات ِاولیا،نصیحت نامہ آقاشمس الدین،کتاب ألْطِّبْ،حل ِمشکلات،دین ِمتین،مقصد ِحیات معروف ہیں۔
آپ کے تربیت یافتہ خلفائے طریقت شیخ محمد سعد اللہ ،شیخ محمد فضل اللہ،شیخ محمد نور اللہ ،شیخ محمد امر اللہ ،شیخ محمد نصر اللہ ،شیخ محمد نور الہدیٰ ،شیخ محمد حمید اللہ ،شیخ عبدالرحیم کریشری،شیخ مصلح الدین اسکلبی،شیخ ابراہیم تنویر الدینترکی کے اکابر علما و فضلا تھے۔آپ ٨٦٣ھ بمطابق١٤٥٩ء واصل بحق ہوئے۔سلطان محمد فاتح نے آپ کی تربت پر١٤٦٤ء کو مزار تعمیر کرایا۔
Turbat Aaqa Shamsuddin
درگاہ حضرت ابو ایوب انصاری قسطنطنیہ صدیوں سے اسلامی تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔میزبان ِرسول کی ابدی آرام گاہ ہونے کی وجہ سے اس شہر کو شہرت ِعام اور بقائے دوام کا درجہ حاصل ہےقسطنطنیہ کا خوشنما اور عظیم الشان گھاٹ ،گولڈن ہارن یا شاخ زرّیںجس خلیج کے دہانے پر واقع ہے وہ بھی خلیج ِابو ایوب کہلاتی ہے۔قسطنطنیہ کے جس محلے میں حضرت ابو ایوب انصاری کا مزار ہے وہ گولڈن ہارن کے بائیں کنارے پر واقع ہے۔رفیع الشان درگاہ میں ہزاروں کبوتر ادھر ادھر اڑتے نظر آتے ہیں۔قبر کا تعویززمین کی سطح سے کم و بیش چھ فٹ اونچا ہے جس کے ارد گرد نہایت خوبصورت نقرئی ضریح ہوئی ہے۔مزار کی پوری عمارت اعلیٰ درجہ کی تزئین ،دید ہ زیب پھولوںاور دلفریب گل کاری سے منقش ہے۔تربت ِاقدس پر نہایت بیش قیمت اور نفیس چادر پڑی رہتی ہے اور چاروں طرف بیسیوں کتبے لٹکے ہوئے ہیں۔ان کتبوں کا خط اتنا پاکیزہ ہے کہ دیکھ کر آنکھوں میں نور اور دل میں سرور آتا ہے اورچابک دست ترک خوشنویس حضرا ت کی مہارت کی داد دینا پڑتی ہے۔
مزار مبارک پر ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے ۔احاطہ مزار کے ایک گوشے میں کنوئیں سے لوگ تبرکا ًپانی لے جاتے ہیں۔مزار ِمبارک کے قریب ایک قبرستان ہے جو گورستان ِابو ایوب انصاری کے نام سے مشہور ہے۔اس گورستان میں دفن ہونا سعادت و اعزاز ہے اور ترکی کے کئی اکابرین ومشاہیر علما و مشائخ اور سلاطین اس میں دفن ہیں۔روضہ مبارک کے قریب ہی سلطان محمد فاتح کی تعمیر کردہ جامع مسجد آج بھی فتح ِقسطنطنیہ کی یاد دلا رہی ہے۔جامع ابو ایوب کی عمارت اور صحن بہت وسیع ہے۔نماز کے اوقات میں یہاں بہت رونق ہوتی ہے۔جمعہ کے دن تو کہیں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔
جامع کے ایک کمرے میںسبز چادر میں لپٹا پرچم ہے جو حضرت ابو ایوب انصاری لڑائیوں میںعلم بردار کی حیثیت سے اٹھاتے تھے۔سلاطین ِترکی کے دور میں مزار سے متصل ایک مدرسہ تھا جہاں دینی علوم سکھلائے جاتے تھے۔یہ مدرسہ بھی حضرت ابو ایوب انصاری کے اسم گرامی سے منسوب تھا۔تجدد پسندی کے اس دور میں بھی ترک آپ کے مزار مبارک اور جامع ابو ایوب کی بے حد تعظیم کرتے ہیں اور ترکی میں آپ ایوب سلطان Eyüp Sultan کے نام سے جانے جاتے ہیں۔