لاہور: اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ محمد زبیر حفیظ نے کہاہے کہ گھوسٹ تعلیمی ادارے، سفارشی بھرتیاں اور ابتر تعلیمی نظام لمحہ فکریہ ہے تعلیمی اداروں میں نگرانی کا مئوثر نظام اپنائے بغیر خواندگی کی شرح کے اہداف حاصل کرنا ناممکن ہے ۔اسلامی جمعیت طلبہ اپنے دس ہزار رضاکاروں کے ذریعے ایک لاکھ طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرے گی۔
ان خیالات کا اظہاران خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی یوم خواندگی کے موقع پر دیر بالا میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے مزید کہا کہ قوموں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے شرح خواندگی میں اضافہ ناگزیر ہے۔ حکومت کی ناکام تعلیمی پالیسیاں شرح خواندگی میں کمی وجہ ہیں تعلیم کے حصول کو آسان بنایا جائے تاکہ ملک میں کوئی بھی فرد تعلیم سے محروم نہ رہ سکے، شرح خواندگی میں اضافے کے لئے تعلیم کو مفت کیا جائے۔
غریب خاندانوں کے لئے وظائف کا انتظام کیا جائے تاکہ ان کے بچے چائلڈ لیبر کا شکار نہ ہوں بلکہ تعلیم حاصل کر سکیں۔ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے اور مستحق طلبہ و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لئے وظائف دیئے جائیں۔ملک میں شرح خواندگی میں کمی کی وجہ مہنگی تعلیم ہے تعلیم کو مفت کیا جائے تاکہ ہر فرد زیور تعلیم سے آراستہ ہو سکے۔ مفت تعلیم ، یکساں نظام تعلیم ، ناقص نظام تعلیم کا سدباب ، سیلف فنانس سسٹم کا خاتمہ اور یکساں تعلیمی پالیسی کا نفاذ کیا جائے۔
زبیر حفیظ نے مزید کہا کہ ناخواندگی کی بڑھتی ہوئی شرح کی بنیادی وجوہات ناکام حکومتی پالیسیاں، غربت ، مہنگی تعلیم اور درجنوں نظام ہائے تعلیم ہیں۔ خواتین کی بہتری اور ان کی بہتر تعلیم کے لئے علیحدہ کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ انہیں بھی تعلیم حاصل کرنے کے برابر مواقع فراہم کئے جائیں۔سرکاری تعلیمی اداروں میں نشستوں کی کمی نے نجی سیکٹر کو فروغ دیا ہے جو حکومت کی ناکامی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ناظم اعلیٰ جمعیت مزید کہنا تھا عالمی یوم خواندگی منانے کا مقصد کسی بھی فرد اور معاشرے کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگرکرنا تھا۔
لیکن تعلیم کے اہمیت اجاگر کرنے کے علاوہ ملک میں ان مسائل کا تدارک لازمی ہے جس کی وجہ سے طلبہ زیور تعلیم سے آراستہ نہیں ہو رہے۔پاکستان میں تعلیمی شعبے کی صورتحال غیر تسلی بخش ہے اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً دو کروڑ پچاس لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جب کہ پرائمری کی سطح پر ہی اسکول چھوڑ جانے والے بچوں کی شرح 30 فیصد ہے۔پاکستان اس وقت تعلیم پر سالانہ ملک کی مجموعی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم خرچ کر رہا ہے جب کہ اقوام متحدہ کے مطابق اسے کم ازکم چار فیصد تک ہونا چاہیے۔