تحریر : شاہ فیصل نعیم “چند شخصیات نے حیران کن انداز میں تاریخ کا رخ موڑدیا، چند نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور بمشکل ہی کوئی ایسا شخص ملتا ہے جس نے ایک ریاست کو جنم دیا ہو۔محمدعلی جناح نے یہ تینوں کام کیے”۔ یہ سٹینلے والپرٹ کے کہے ہوئے الفاظ ہیں جنہیں تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کرتے ہوئے فخر محسوس کیا ۔ یہ الفاظ قائداعظم محمد علی جناح کی عظمت کے آئینہ دار ہیں۔ اپنے تو تعریف کرتے ہی ہیں مگر مزہ تب جب غیر آپ کے عظیم ہونے کی گواہی دیں۔ وجے لکشمی پنڈت نے تقسیم ہند کے زخم چاٹتے ہوئے کہا تھا:”اگر مسلم لیگ کے پاس ١٠٠ گاندھی ،٢٠٠ ابوالکلام آزاد اور کانگریس کے پاس صرفایک جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نا ہوتا”۔ لیڈر کے ہر عمل میں کوئی نا کوئی راز چھپا ہوتا ہے اوراُس کی ہر بات سے دور اندیشی جھلکتی ہے ۔ اُس کی زندگی آنے والی نسلوں کی امانت ہے وہ اُس سے رہنمائی پائیں گی۔ اپنی زندگیوں کو بہتر انداز میں گزارنے کے لیے اُس کی حیات سے فیض طلب کریںگی۔
جب کوئی اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ لوگ اُس کی پیروی کرنے لگیں تو پھر اُس کی زندگی اُس کی نہیں رہتی وہ نسلوں کی امانت بن جاتی ہے۔ ایسے ہی ایک عظیم انسان کو دنیا جناح کے نام سے جانتی ہے۔ تاریخ اُنہیں قائداعظم اوربیسویں صدی کے عظیم ترین انسان جیسے خطابات سے نواز چکی ہے۔ قائداعظم کتنے بڑے انسان تھے یہ جاننے کے لیے ہم اُن کی زندگی کے کچھ واقعات سے پردہ ہٹاتے ہیں۔ یہ ایک اجلاس کا منظر میں ہے قائداعظم اور بہت سے لوگ ہال میں موجود ہیں وزیر اعظم اورکچھ دوسرے لوگ ابھی تک نہیں پہنچے ۔ قائداعظم حکم دیتے ہیں کہ خالی کرسیاں اُٹھا دی جائیں اور اجلاس کی کاروائی شروع کی جائے ۔ اجلاس شروع ہو جاتا ہے اس دوران وزیراعظم پاکستان جناب لیاقت علی خان تشریف لاتے ہیں تو اُنہیں کوئی کرسی پیش نہیںکی جاتی وہ سارا اجلاس کھڑے ہو کر سنتے ہیں۔ اس واقعہ سے ہمیںیہ سبق ملتا ہے کہ عظیم انسان وہ نہیں جو دیئے گئے وقت سے لیٹ پہنچے
بلکہ انسان عظیم تب کہلاتا ہے جب وہ وقت کی قدر کوجانتا ہے۔ دنیا میں جن قوموں نے بھی نام پیدا کیا اُنہیں نے وقت کی اہمیت کوجانا ہے اسی لیے دنیا آج انہیں جانتی ہے۔ اس ملک کے سیاستدان جب کہیں سے گزرتے ہیں تو اُن کے ساتھ گاڑیوں کی ایک لمبیقطار ہوتی ہے ۔ ساری ٹریفک کو روک کراُنہیں راستہ دیا جاتا ہے کوئی مرتا ہے تو مر جائے اِ س کی کسی کو کوئی پروا نہیں اس ملک میں صرف اُسی کی زندگی کی قدر ہے جس کے پاس پیسہ ہے باقی لوگ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ حکمرانوں کے ان رویوں سے لوگوں کا قانون پر سے اعتماد ختم ہو چکا ہے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ قانون چند امیر لوگوں نے اس غرض سے بنایا ہے کہ وہ غریبوں کو خود سے دور رکھ سکیں اوراس میںاتنی رعایت بھی رکھی ہے کہ ضرورت پڑنے پر خود کو اس کی پکڑسے بچا سکیں۔ آئیں یہاں
Quaid e Azam
قائداعظم کی زندگی کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ ریل گاڑی کے گزرنے کا وقت ہے پھاٹک بند ہے سڑک پر گاڑیوں کا بہت رش ہے قائداعظم کی گاڑی وہاں جا کر رکتی ہے اے ڈی سی گاڑی سے باہر نکلتا ہے اور پھاٹک پر موجود نگران کو کہتا ہے :”تمہیں معلوم نہیں گاڑی میں قائداعظم بیٹھے ہیں ۔ جلدی سے پھاٹک کھول دو”۔ نگران سنتے سے پھاٹک کھول دیتا ہے۔ قائداعظم کو اس کا علم ہوتا ہے وہ اے ڈی سی کو گاڑی میں طلب کرتے ہیں اور اُسے حکم دیتے ہیں کہ اسی وقت جائو اور پھاٹک بند کرائو۔ اے ڈی سی کہتا ہے :”سر ! ابھی ریل گاڑی کے گزرنے میں کافی وقت ہے ہم آسانی سے گزر جائیں گے”۔ قائداعظم یہ سن کر کہتے ہیں:”اگر قانون بنانے والے قانون کا احترام نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا”؟پھاٹک بند کروا دیا جاتا ہے ۔ریل گاڑی گزرنے کے بعد پھاٹک کھلتا ہے تو قائداعظم کی گاڑی باقی گاڑیوں کے ساتھ گزرتی ہے۔ میں یہاں حکمرانوں کونصیحتیں کرنے پہ اپنے الفاظ ضائع نہیں کروں گا صرف اتنا کہوں گا کہ اپنے دفتر میں لٹکتی ہوئی قائداعظم کی تصویر کو دیکھ کر صرف ایک بار سوچ لیا کریںکہ اس بندے نے ملک کے لیے کیا کیا اور میں کیا کر رہا ہوں؟
ہمارے ملک کے حکمران ناجانے سرکاری خزانے کو کیا سمجھتے ہیں میں یہاں باپ کی جاگیربھی نہیں کہہ سکتا وہ اس لیے کہ اگر اولاد عیاش نکل آئے تو باپ اُسے دولت سے محروم کر دیتاہے۔ اس ملک کے حکمرانوں کے لیے اس غریب ملک کے خزانے کھلے ہیں حکمران دن رات لوٹ رہے ہیں۔ قائد کی زندگی کے آخری ایام سے ایک واقعہ پیش ِ خدمت ہے۔ آپ کی صحت ٹھیک نہیں تھی ۔ کھانا بھی بہت کم کردیا تھا جس کے باعث کمزوری بڑتی جارہی تھی ۔ ڈاکٹر بہت پریشان تھے اُنہوں نے یہ مشورہ دیا کہ اگر قائد کے پسند کے باورچی سے کھانا پکوایا جائے تو آپُ کھانازیادہ پسند کریں گے ۔ باورچی کی تلاش شروع ہوگئی کافی تلاش کے بعد وہ باورچی مل گیا جو قائد کے لیے کھانا بنایا کرتا تھا جب اُس نے کھانا بنایا تو آپ نے بہت پسند کیا اور معمول سے زیادہ کھایا۔ جب آپ نے پوچھا:”آج کھانا کس نے بنا یا ہے”؟تو سٹاف نے سب کہانی بتائی۔ یہ سب سن کر بستر ِمرگ پر موجود اُس عظیم انسان نے جو الفاظ کہے وہ آج کے حکمرانوں کی سمجھ سے بالا تر ہیں۔
میں ان لوگوں کو لیڈر نہیں کہتا میں سمجھتاہوں یہ لفظ لیڈر کی توہین ہے اگر آج کے حکمران صرف ان الفاظ پر غور کرلیں تو ہمارا ملک ویسا بن سکتا ہے جیسااس کے لیے خواب دیکھا گیا تھا۔قائداعظم نے کہا:”ایک غریب قوم کے گورنر کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہیے”۔ آپ نے اُسی وقت اپنی چیک بک نکالی اور جتنے پیسے سرکاری خزانے سے خرچ ہوئے تھے واپس کیے اور آئند ہ کے لیے ایسا کوئی بھی کام نا کرنے کی سخت تاکید کی۔ اا ستمبر کو بانیِ پاکستان عوامِ پاکستان کو یتیم چھوڑ کر ملکِ عدم رخصت ہو گئے ۔آپ کی زباں سے جو آخری لفظ سنا گیا وہ “پاکستان” تھا۔ اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نا رہی۔