تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ستر سالہ بوڑھی ماں اپنی تیس سالہ جوان بیٹی کے ساتھ میرے سامنے بیٹھی تھی ماں کے چہرے پر بڑھاپے کی جھریوں کا جال بچھا ہوا تھا وہ معصوم چہرے اور دُھندلی آنکھوں سے امید، التجا، بے بسی اور لاچارگی سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میری بچپن سے یہ عادت ہے کہ مجھے بوڑھے لوگوں پر بہت پیار آتا ہے میرا دل کرتا ہے کہ میں بوڑھے معصوم سراپا نور بزرگوں کو بچوں کی طرح خوب پیار کروں’ خدمت کروں’ لاڈ اَٹھائوں، ماں کے چہرے پر نور کے کئی چاند روشن تھے اور آنکھوں میں مریم کی پوترتا واضح نظر آرہی تھی، جنت کی یہ مخلوق ماں مجھ سے جھوٹ بولنے کا کہہ رہی تھی کہ میں اُس کے کہنے پر جھوٹ بول دوں اور میں نے سوچھے سمجھے بنا ماں کے کہنے پر جھوٹ بول دیا، اور اِس کے بعد جب بھی یہ ماں اپنی بیٹی کے ساتھ میرے پاس آئی تو میں ہمیشہ جھوٹ بول دیتا۔
میں حسب معمول لوگوں سے مل رہا تھا کہ یہ بوڑھی ماں میرے سامنے آکر بیٹھ گئی، ماں نے رقعہ میرے ہاتھ میں دیا اور کہا بیٹا پہلے یہ پڑھ لو ‘ماں کے حکم پر میں نے رقعہ پڑھنا شروع کردیا، میں جیسے جیسے پڑھتا گیا اداسی اور غم کے سمندر میں غرق ہوتا گیا ‘ماں نے مجھے مخاطب کیا تھا بیٹا میری بیٹی کو پھیپھڑوں کا کینسر ہے جو آخری اور لا علاج حدود میں داخل ہوچکاہے اِس کے دو معصوم بچے ہیں پچھلے ماہ ڈاکٹروں نے اِس کا آپریشن کرنا چاہا لیکن جب ڈاکٹروں نے اِس کا سینہ چاک کیا تو وہ پریشان ہو گئے کیونکہ کینسر پوری طرح پھیل چکا تھا یعنی پھیپھڑے پوری طرح کینسر کی گرفت میں تھے اور ڈاکٹرز آپریشن کرتے تو مکمل پھیپھڑے نکالنے پڑتے اِس طرح مریضہ کی فوری موت واقع ہو جاتی لہٰذا ڈاکٹروں نے بغیر آپریشن کے سینے کو دوبارہ سی دیا۔
مریضہ بے ہوش تھی لواحقین کوبتا دیا گیا کہ آپریشن نا ممکن تھا، اب خاندان اور ماں نے فیصلہ کیا کہ یہ چند دن کی مہمان ہے اِس کو یہی بتائیںگے کہ تمھارا آپریشن کر دیا گیا ہے ‘ڈاکٹروں کو بھی یہی درخواست کی گئی کہ وہ بھی مریضہ کو نہ بتائیں لہذا مریضہ کے ہوش میں آنے کے بعد اُسے بتایا گیا کہ تمھارا کامیاب آپریشن ہو گیا ہے، کیونکہ بیماری نے خوفناک طریقے سے مریضہ کو جکڑا ہوا تھا اِس لیے مریضہ با ر بار شکائت کرتی تھی کہ مجھے آرام نہیں ہے مجھے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے تو ماں بار بار کہتی کہ آپریشن کا درد ہے جلدی ٹھیک ہو جائیگا، اب ماں خدا کی رحمت اور بیٹی کو مصروف رکھنے کے لیے ایک بزرگ سے دوسرے بزرگ تک چکر لگارہی تھی ‘ماں جس بھی ڈاکٹر حکیم یا بزرگ کے پاس جاتی اُس کو یہی رقعہ دیتی جو مجھے دیا اور کہتی کہ آپ کہہ دیں کہ آپریشن بہت کامیاب ہواہے تم چند دن میںٹھیک ہو جائو گی۔
مریضہ بار بار مجھے کہ رہی تھی جب میرا آپریشن کامیاب ہے تو مجھے درد کیوں ہے ‘سانس میں دشواری کیوں ہے ‘میں بار بار نوجوان بیٹی کو دیکھ رہا تھا جس کی زندگی کا چراغ چند دنوں میں بجھنے والا تھا، بیٹی امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی اور میں اُس کو بار بار دلاسہ دے رہا تھا ‘میں بار بار ماں کو دیکھ رہا تھا جو اپنی جوان بیٹی کو آج بھی معصوم بچی کی طرح اٹھائے ایک در سے دوسرے در تک بھاگ رہی تھی یہ کام کرہ ارض پر صرف اور صرف ماں ہی کر سکتی ہے، ماں کی عظمت پر مجھے مرحوم خورشید گیلانی یاد آئے جنہوں نے بہت خوبصورت انداز سے ماں کو خراج تحسین پیش کیا، ضروری نہیں ماں کا تعلق بڑے خاندان سے ہو، وہ آکسفورڈ اور بر کلے کی فارغ التحصیل ہو، سماجی اور سیاسی رتبے کی مالک ہو بلکہ ماں تو فقط ماں ہو تی ہے جس طرح گلاب کا کوئی سا نام رکھ لو اس کی طراوت اور لطافت میں کوئی فرق نہیں ہوتا اِس طرح ماں شاہی خاندان سے ہو یا معمولی محنت کش گھرانے سے تعلق رکھتی ہو وہ نبی وقت اور مجتہد عصر کے لیے مرکز احترام ہستی ہے۔خدا دیدہ بینا دے تو ماں کے گارے میں لُتھرے ہوئے کپڑے خلعت شاہی سے زیادہ قیمتی نظر آتے ہیں۔
Mother and Child
ماں اوپلے تھاپ رہی ہو تو اِس کے وہ ہاتھ تقدیر مبرم کو ٹالنے کی قدرت رکھتے ہیں ‘ماں لوری دے رہی ہو تو اس کے لہجے میں جبرائیل بولتا نظر آتا ہے ‘ماں تنور پر روٹیاں لگا رہی ہو تو وقت کے بادشاہ اُس کے آگے ایک ٹکڑے کے سوالی نظر آتے ہیں ‘ماں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دے تو سارے جہانوں کا مالک عرش سے دو زینے نیچے آکر اُس سے ہمکلام ہوتا ہے، ماں کا دل اداس ہو توجنت کے شگوفے مرجھانے لگتے ہیں، ماں دامن پھیلا دے تو خدا اپنی جنت کی ساری نعمتیں اُس میں انڈیل دیتا ہے، ماں اپنے بچے پر میلا آنچل ڈال دے تو رحمت خداوندی گھٹا بن کر چھاجاتی ہے اور اﷲ نہ کرے ماں کی نگاہ غضب آلودہ ہو جائے تو عرش الٰہی تھر تھر کانپنے لگتا ہے، بادشاہی کے تخت پر بیٹھنے سے وہ عزت کہاں ملتی ہے جو ماں کے قدموں میں لپٹنے سے نصیب ہوتی ہے، وزارت کا حلف اٹھانے میں وہ لطف کہاں جو ماں کے جوتے اٹھانے میں آتا ہے، عالی جناب اور عزت مآب کہلوانے میں وہ سرور کہاں جو ماں کے میرے لعل کہنے میں ہے، بڑے سے بڑا ایوارڈ لینے میں وہ لذت کہاں جو ماں کے ہاتھ سے خرچی کا ایک روپیہ لینے میں ہے۔جنت کی مخملیں مسہریوں پر لیٹنے میں وہ نشہ کہاں جس ماں کی گود میں حاصل ہوتا ہے، غزالی و رازی کے فلسفے اور رومی و سعدی کے شعر و سخن میں وہ حسن کہاں جو ان پڑھ ماں کی لوری میں گُھلا ہوتا ہے، قوس و قزح کے حسین رنگ دنیا میں ضرب المثل بن چکے ہیں مگر ماں کے بے لوث پیار کا رنگ بہت دلاآویز ہوتا ہے گلاب کی پنکھڑی لاکھ نازک سہی مگر ماں کے آبگینہ محبت کی لطافت کا کیا مقابلہ، کنول کا پھول بہت شفاف ہوتا ہے مگر ماں کا دل اُس سے بڑھ کر شفاف ہوتا ہے۔
چاند کی چاندنی بڑی خنک ہے مگر ماں کے سائے کی ٹھنڈی چھائوں کا کیا جواب ہے، نسیم سحر کا پرلطف جھونکا اپنی جگہ مگر ماں کے دامن کی ہوا کا مقابلہ کون کرے’ اگرچہ صحرا کے ذرے سمندر کے قطروں اور جنگل کے پتوں کو کوئی نہیں گن سکتا ، پھر بھی ایسے کمپیوٹر کا ایجاد ہو چکے ہیں جو اِن کا شمار کر لیں لیکن ماں کے پیار کا شمار حدامکان سے باہر ہے۔خالق کائنات نے ماں کے سینے میں اپنی رحمت اور اس کے رویے میں اپنی ربوبیت بھر دی ہے، یہ تو ممکن ہے کوئی سمندر کے پاتال تک پہنچ جائے مگر کسی میں دم نہیں کہ وہ ماں کے پیار کا پاتال پاسکے، ماں کا وجود آخر ایسی نعمت تو ہے کہ متحدہ بھارت کا فرماروا اورنگزیب عالمگیر کہہ اٹھا ”ماں کے بغیر گھر قبرستان لگتا ہے” نادر شاہ جیسا تیروتفنگ سے کھیلنے والا جرنیل اپنی ساری خشونت اور صلابت بھلا کر کہتا ہے۔
‘ماں اور پھولوں میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا” محمد علی جوہر کہتے ہیں ”دنیا کی سب سے حسین شے ماں اور صرف ماں ہے” حکیم الامت علامہ اقبال نے ماں کی یادمیں جو نظم لکھی اُسے علمی ادب کا شہ پارہ مانا جاتا ہے وہ ماں کی عظمت کو یوں سلام پیش کرتے ہیں ”سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھ سے نرم بنا یا جا سکتا ہے” یورپ کا نامور شاعر ملٹن اپنے سارے ذخیرہ ادب کا نچوڑ اِس طرح پیش کرتا ہے ”آسمان کا سب سے بہترین تحفہ ماں ہے”۔لیکن آیئے کائنات کی سب سے محترم اور بر تر شخصیت کی بات سنیئے، سچ ہے بادشاہ کا کلام تکلم کا امام ہوتا ہے حضور نبی کریم ۖ کا ارشاد گرامی ہے ‘ ‘جنت ماں کے قدموں میں ہے” جنت ابدی خوشی اور دائمی کامرانی کی آخری منزل ہے اور یہ آخری منزل ماں کی دہلیز کا رتبہ اول ہے، سچ ہے ماں کی شفقت میں اﷲ کی ربوبیت جھلکتی ہے۔
Prof Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org 03004352956