عالمی یومِ جمہوریت

Democracy

Democracy

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
بی بی جمہوریت کاعالمی دِن خاموشی کی ”بُکل مارے”آیا اور گزربھی گیا۔چونکہ ہم اورہمارے حکمران”انتہائی” جمہوریت پسندہیں اِس لیے جہاںہمارے ”کھُنّے سِکنے” کاڈر ہوتاہے وہاںہم جمہوریت کی زُلفِ گرہ گیرکے اسیرہو کرجمہوریت ،جمہوریت چلانے لگتے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کو بھی تحریکِ انصاف کے 126 روزہ دھرنوںمیں جمہوریت کی یادنے بہت ستایااور وہ پارلیمنٹ کے دونوںایوانوں کواکٹھا کرکے جمہوریت کی گھنی سیاہ زلفوںکے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے رہے لیکن جونہی دھرنوںکا موسم ختم ہواتو پھر”تُوں کون تے مَیںکون” ۔جمہوریت بہترین انتقام کہنے والی پیپلزپارٹی کے سربراہ زرداری صاحب کسی کی” اینٹ سے اینٹ” بجاتے بجاتے باہر کھسک لیے اوراب دوربیٹھے جمہوریت کاراگ الاپ رہے ہیں۔مجنونِ جمہوریت نے کہا ”جمہوریت انتخاب کرواکر اقتدارسیاسی پارٹیوںاور افرادکو منتقل کرنے کانام ہی نہیںبلکہ قانون کی حکمرانی ،آئین کی حدودکا احترام ،شفاف اورمساویانہ احتساب ،برداشت اورسیاسی مخالفین کی رائے کے احترام کانام ہے”۔ اپنے پانچ سالہ دَورِحکومت میںتو زرداری صاحب کویہ سب کچھ یادنہیں تھاکہ تب تووہ اقتدارکے نَشے میں دھت تھے۔

تب توبیچاری جمہوریت ”نِیر” بہاتی پھرتی تھی اورغالباََیہ اُنہی کادَورِ حکومت تھاجب عدلیہ کے فیصلوںکو پرکاہ برابر بھی حیثیت نہ دی جاتی۔ سیاسی برداشت اورسیاسی مخالفین کی رائے کے احترام کایہ عالم کہ پنجاب میںگورنرراج اُنہی کے حکم پرلگا۔ شفاف اورمساویانہ احتساب کااُن کی لغت میں یہ مطلب کہ ”لُٹّو تے پھُٹّو”۔ اب جب آہنی ہاتھ اُن کے گریبان تک پہنچ گئے تواُنہیں بھی ”بی بی جمہوریت” کاحسن یادآگیا ۔وہ خودتو الطاف حسین کی طرح محفوظ جگہ پہ جابیٹھے اوراب ”حسنِ جمہوریت” سے لطف اندوز ہونے کے لیے اپنے ”گلِ نوخیز” بلاول بھٹوزرداری کو سیاسی اکھاڑے میںاتاردیا ۔بلاول نے لاہورمیں ”کھڑاک” کرنے کی کوشش توبہت کی لیکن بات بنی نہیں۔سچی بات ہے کہ ہم تو بلاول کی تقریرسے اُسی طرح لطف اندوزہوتے رہے جیسے ”گلِ نوخیزاختر” کے کالموں کو پڑھ کر ۔بلاول جوکہتااُس کے چہرے کے تاثرات اُس کاساتھ نہ دیتے ۔وجہ یہ کہ اُس کے سامنے ”رومن” میں لکھی اُردوتقریر تھی جس کے ہرجملے کو اُسے تین ،تین باردیکھنا پڑتا۔

اسی لیے وہ اپنی ”اداکاری” کارنگ جمانہ سکا۔ آکسفورڈکا تعلیم یافتہ بلاول اگراسی تقریر کو”رَٹّا” لگاکر فی البدیہ تقریرکا تاثٔر قائم کرنے کی کوشش کرتا تویقیناََ رنگ چوکھاہوتا اورجیالوں کوبھی بی بی شہیدیاد آجاتی ۔اُس نے اپنی تقریر کے خاتمے پرسٹیج سے جیالوںکے درمیان چھلانگ لگاکر اپنے نانابھٹو مرحوم کاسا تاثر قائم کرنے کی کوشش تو ضرورکی لیکن وہ صرف آصف زرداری کا ساتاثٔرہی قائم کرسکا ،جن کانامِ نامی اسمِ گرامی یادآتے ہی نہ صرف غضب کرپشن کی ساری عجب کہانیاںیادآ جاتی ہیںبلکہ اُن کامسٹرٹین پرسینٹ سے مسٹرسینٹ پرسینٹ تک کاسفر بھی ۔شنیدہے کہ بلاول اپنے نام کے ساتھ لگا ”زرداری” کالاحقہ ہٹانے کی بھرپور کوشش کررہا ہے ۔دروغ بَرگردنِ راوی ، اُسے ناہیدخاں اورصفدر عباسی نے قائل کرلیا ہے کہ جیالے ”بلاول بھٹوزرداری” کونہیں صرف ”بلاول بھٹو” کو پسند کرتے ہیںکیونکہ اب توزرداری صاحب کی کرپشن کی داستانیںگلی گلی میں ، جن سے جیالے بھی بیزار۔

Bilawal Bhutto

Bilawal Bhutto

بلاول نے کہا”پنجاب پرایسے حکمران مسلط کردیئے گئے جوبابا بُلھے شاہ کی دھرتی پرکسی سزا سے کم نہیں”۔ بالکل بجا کہا اُس نوجوان نے ، ہم توخود کافی عرصے سے ”اندرکھاتے” یہ تحریک چلارہے ہیںکہ پنجاب کوکسی ”خادم” کی ضرورت ہے نہ ”اعلیٰ” کی۔ ہمیںتو سیّد قائم علی شاہ جیسا وزیرِاعلیٰ چاہیے جس کامشیرِ خصوصی ڈاکٹرعاصم اورمشیرانِ عمومی محمدعلی شیخ ،منظورکاکا ،انورمجید اورسومروجیسے لوگ ہوں۔ اگراِن سب پرفریال تالپور کو”نگرانِ اعلیٰ ”مقررکر دیاجائے تو سونے پرسہاگہ۔ اگرہماری تجویزکردہ ٹیم پنجاب کاانتظام وانصرام سنبھال لے تویہ جوخادمِ اعلیٰ ”ایویںخواہ مخوا” اپنی انگشتِ شہادت لہراتے پھرتے ہیں ،ایک تواِس ”انگشت ”سے نجات مِل جائے گی اوردوسرے وہ افسرشاہی بھی ہمیںدعائیں دے گی جو ”وَخت” میںپڑی ہوئی ہے۔بلاول نے یہ بھی بالکل درست کہا ”میرے پنجاب کودہشت گردوںکے یاروںکے حوالے کردیا گیا”۔ ہمارے ایجنڈے میںتو ہمیشہ یہ رہاہے کہ پنجاب کے ”انتظامی امور” جمہوریت پسندایم کیوایم کے حوالے کردیئے جائیں کیونکہ جس طرح سانپ کے کاٹے کاتریاق بھی سانپ کازہر ہی ہوتاہے

اسی طرح ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ دہشت گردوںکا علاج صرف دہشت گردی سے ہی ممکن ہے اوریہ کام ”را” کے تربیت یافتہ ایم کیوایم کے ”ٹارگٹ کلرز” بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔ کتنامزہ آئے جب پنجاب کی سڑکوںپر ”را” کے تربیت یافتہ ٹارگٹ کلرز دندناتے پھریں اور یہ ”موئے”دہشت گرداُن کے خوف سے کونوں کھدروں میںچھپتے پھریں۔ اِس سلسلے میںاگر محبِ وطن پیپلزپارٹی کی خدمات بھی حاصل کرلی جائیں توکوئی مضائقہ نہیںکیونکہ اُن کے پاس بھی عزیربلوچ اوربابا لاڈلا جیسی ”عظیم ”جمہوریت پسندشخصیات موجودہیں۔ بلاول نے کہا ”6 مہینے میں بجلی لانے کے وعدے کہاںگئے؟۔ میاںصاحب ! بتائیں بجلی نہ لاسکنے والوںکو کس نام سے پکارا جائے؟”۔ بلاول پریشان نہ ہو ،اُس کے ”انکل” خودہی اپنے لیے کسی اچھّے سے نام کی تلاش میںہیں کیونکہ ”خادمِ اعلیٰ” بہت پراناہو چکا۔ ویسے بھی اگراگلی باروہ صرف پنجاب کی بجائے ملکی خدمت کا بِیڑااُٹھانے کوتیارہو جاتے ہیںتو پھرخادمِ اعلیٰ تواُنہیں ”سُوٹ” ہی نہیںکرے گاکیونکہ جس طرح کرپشن کی داستانیں سنتے ہی پیپلزپارٹی کے ”سنہری اَدوارِحکومت” یادآ جاتے ہیں

اُسی طرح خادمِ اعلیٰ نہ صرف پنجاب بلکہ جاوبیجا سڑکوں، پُلوں ،میٹروبسوں اورگرین لائین منصوبوں کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیاہے ۔ہمارا مشورہ تویہ ہے کہ جیسے ایٹمی دھماکوں کی مناسبت سے اُس دن کا نام ”یومِ تکبیر” رکھاگیااور آجکل اُسی کی دیکھادیکھی ملک ریاض بحریہ ٹاؤن لاہوراور کراچی کی عظیم مساجدکے نام کی تلاش میںہیں، خادمِ اعلیٰ بھی اپنے لیے کوئی اچھّاسا نام تجویز کرنے کے لیے اخبارات میںاشتہار دے دیںتاکہ ہم بھی ”قسمت آزمائی” کرتے ہوئے اُن کانام ”خادمِ ملّت”رکھ سکیں۔ اگراُنہیں ہمارا مجوزہ نام پسند آگیا تو پھر ہمارے ”وارے نیارے” ہوجائیں گے اور”بلّے بلّے” بھی۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر