تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی اُس کے منہ سے نکلا فقرہ بم کی طرح پھٹا اور میرا منہ حیرت سے کھل گیا، میرا ہاتھ لکھتے لکھتے رک گیا، نظریں ٹھہر گئیں اور دل حلق میں آگیا، میری سانس یںبے ترتیب ہو چکی تھیں مجھے اپنے حلق میں پتھر سے گرتے محسوس ہوئے، میرے قلب واحساس میں عجیب سی ہلچل پیدا ہو گئی تھی، وہ موت کی دہلیز پر کھڑی امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی، وہ پتہ نہیں اذیت کے کتنے دریا پار کر کے میرے پاس آئی تھی اُس کے لہجے میں گہری سیاہ رات کا درد تھا۔مجھے اپنی سماعت پربلکل بھی یقین نہیں آیا میں نے خوفزدہ اور بے یقینی کے لہجے میں دوبارہ اُس سے پو چھا تو اُس نے وہی پہلے والا جواب دیا۔
اب میں حیرت بے بسی اور دکھ کے گہرے احساس کے ساتھ اُس کی طرف شفقت بھری نظروں سے دیکھا رہا تھا، مجھے بلکل بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ چند دنوں بعداُس کی روشن آنکھیں روشنی نور امید کے چراغوں اور مستقبل کے سہانے خوابوں سے محروم ہو جائیگی، میری آنکھیں میںاُس کے لیے دکھ نمی بن کر تیرنے لگا، میں یہ یقین کرنے کو بلکل بھی تیار نہیں تھا کہ میرے سامنے بیٹھی، پچیس سالہ خوبصورت نوجوان لڑکی جو دو معصوم بچوں کی ماں بھی ہے کرہ ارض کی لا علاج اور خوفناک ترین بیماری کا شکار ہو سکتی ہے۔یہ ہولناک اور لا علاج بیماری جو پچھلے چند عشروں سے ہزاروں لوگوں کو نگل چکی ہے۔
پوری دنیا کے ہسپتال، لیبارٹریاں اور قابل ترین ڈاکٹر اِسکے سامنے بے بسی کے مجسمے بنے نظرآرہے ہیں، مغرب اور دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنے بے پناہ وسائل کے باوجود اِس لا علاج بیماری کا علاج کرنے سے قاصر ہیں، ایک ایسی خوفناک اور لا علاج بیماری جو خوفناک عفریت کی طرح ہر سال بے شمار انسانوں کو نگل رہی ہے، ایسی بیماری جس کا نام آتے ہی دل و دماغ پرخوف طاری ہو جاتا ہے ایسی بیماری جس کے بارے میںبتاتے ہوئے بھی انسان شرماتا اور گھبراتا ہے۔ پوری دنیامیں ہر گزرتے دن کے ساتھ اِس کے مریض بڑھتے جارہے ہیں اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وطن عزیز میں یہ بیماری بہت کم ہے اُس کی خبر نے مجھے بنیادوں تک ہلا کر رکھ دیا مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ کہ میرے سامنے بیٹھی صحت مند خوبصورت نوجوان لڑکی ہر گزرتے دن کے ساتھ موت کی طرف بڑھ رہی ہے۔
Wedding
اُس کے جسم میںدوڑتا ہوا گرم صحت مند خون جلد ہی سرد ہونے والا ہے، موت کا وائرس اُس کے خون میں شامل ہوچکا ہے اور کسی دن اچانک اُس کو گرفت میں لے کر موت کے اندھے غار میں دھکیل دے گا، یہ صحت مند جسم جلد ہی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہونے والا ہے، میرے سامنے بیٹھی نوجوان لڑکی نے ایک خط مجھے دیا کہ سر آپ اِس کو پڑھ لیں اِس میں تفصیل درج ہے۔خط میں وہ لکھتی ہے: سر پانچ سال پہلے میری شادی دوبئی میں میرے کزن کے ساتھ ہوئی لہذا میں شادی کے بعد لاہور سے دوبئی شفٹ ہوگئی، میں اپنے خاوند کے ساتھ بہت خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے لگی پہلے تین سالوں میںاﷲ تعالیٰ نے ہمیں بیٹی اور بیٹے کی نعت اور رحمت سے نواز دیا، ہماری فیملی مکمل ہو چکی تھی میرا خاوند اچھی کمپنی میں نوکری کرتا تھا کوئی پرابلم مسئلہ نہ تھا ہم دونوں میاں بیوی اپنے ننھے منے بچوں میں گم زندگی کا بھرپور طریقے سے لطف اٹھا رہے تھے، فطری طور پر ہم دونوں میاں بیوی مذہبی رجحان رکھتے ہیں، اِس لیے ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ زندگی مذہب اسلام کے مطابق گزاری جائے۔ہم دونوںشدت سے حرام حلال کا خیال رکھتے ہیں کہ کوئی بھی ایسا کام نہ ہو جس کی ہمیں اسلام اجازت نہیں دیتا، کیونکہ دوبئی میں دنیا جہاں کی قومیں آباد ہیں آزادی اور عیاشی کے تمام ذریعے اور سہولتیں موجود ہیںلیکن اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم ہر قسم کی غلط آزادی ، عیاشی اور گناہوں سے پاک زندگی گذار رہے تھے کوئی غم پریشانی نہ تھی ہر طرف خوشیوں کے رنگ اور گلستان مہکے ہوئے تھے،۔
اِسی طرح ہماری ازدواجی زندگی کے پانچ سال پورے ہوگئے’ ایک ماہ پہلے میرے میاں کا سالانہ میڈیکل ٹیسٹ ہوا تو میرے میاں نے احتیاطً میرا بھی میڈیکل ٹیسٹ کروا یا میرے میاں کا میڈیکل ٹیسٹ تو بلکل ٹھیک آیا لیکن میرے ٹیسٹ کے مطابق میں دنیا کی خوفناک اور لا علاج ترین بیماری ایڈز کا شکار ہو چکی ہوں۔ایڈز کی خبر میرے اور میرے خاوند کے لیے زلزلے اور آتش فشاں کے پھٹنے سے کم نہ تھی، ہماری پریشانی اور حیرت اِس لیے زیادہ تھی کہ ایڈز کے پھیلنے میں جو وجوہات ہیں میری زندگی میں کوئی ایک وجہ بھی ایسی نہیں ہے جو اِس کا موجب بنتی ہے، ڈاکٹر بھی بہت پریشان ہیں وہ میرے ساتھ کئی سیشن کر چکے ہیں وہ سوالات پر سوالات کر کے تھک چکے ہیں کہ یہ بیماری میرے جسم میں کس طرح اُتری، میری پچھلی تمام سرگرمیوں کونوٹ کیا گیا میں کہاں کہاں گئی کس کس سے کس حد تک ملی ہوں اِن تمام اعداد و شمار اور تفصیلات نوٹ کرنے کے بعد ڈاکٹرز اور ہم میاں بیوی پریشان ہیں کہ کوئی ایسی غفلت عیاشی یا وجہ جو اِس بیماری کا موجب بنتی ہے میں نے نہیں کی تو پھر یہ بیماری میرے جسم میں کیسے آئی۔میں نے اُس کا خط پڑھ کر اُس کی طرف دیکھا وہ پر سکون چہرے سے میری طرف دیکھ رہی تھی، میں عجیب ذہنی کشمکش اور اضطراب کا شکار ہو چکا تھا میں بے بسی لاچاری محسوس کر رہا تھا کہ میں اُس کو کیا جواب دوں میری پریشانی دیکھ کر وہ بولی سر آپ دعا کریں اﷲ بہت رحیم کریم ہے وہ میرے اوپر ضرور کرم کرے گا۔۔
اُس کی امید اور زندگی سے بھرپور آواز سن کر میں گوری طور پر بے بسی کے سمندر سے نکل آیا میں تو بھول ہی گیا تھا وہ خدا جو ہم سب کا مالک ہے ہم جیسے نافرمانوں، ظالموں، فرعونوں، نمرودوں اور ناشکروں کو برس ہا برس سے مسلسل رزق صحت و مہلت دیے جارہا ہے وہ خدا جو دل و دماغ اور روح کی عمیق ترین گہرایوں کے اندرسات غلافوں میں لپٹی خواہشوں اور آوازوں سے بھی با خبر ہے وہ خدائے بزرگ بر تر اِس معصوم اور بے گناہ بچی پر بھی ضرور رحم کریگا، ہم دنیا اور مادیت پرستی کے لق و دق صحرا میں اِس طرح گم ہو چکے ہیں کہ یہ بھول چکے ہیں کہ وہ تو پتھر کے اندر حرکت کرنے والی کیڑوں سے بھی با خبر ہے، کائنات میں اربوں درختوں کے کھربوں خشک پتوں کے گرنے سے بھی با خبرہے۔اپنے وقت کے بہت بڑے بزرگ حضرت حسن بصری نے بلند آواز سے کہا: لوگو اﷲکے دروازے کو کھٹکھٹاتے رہو، دروازہ ضرور کھلتا ہے۔ پاس ہی ایک بڑھیا نے سنا تو بولی اے حسن کیا اﷲ کا دروازہ بند بھی ہوتا ہے؟ حضرت حسن بصری بڑھیا کی بات سن کر غش کھا گئے اور بولے اے اﷲ یہ بڑھیا تجھے مجھ سے زیادہ جانتی ہے، وہ لڑکی تو مجھ سے مل کر چلی گئی لیکن اس کا روشن اور طمانیت سے لبریز چہرہ آج بھی میرے حافظے سے چپکا ہوا ہے اور اُس کا فقرہ کہ اﷲ کا در ہمیشہ کھلا رہتا ہے وہ مجھ پرضرور کرم کریگا۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org 03004352956